کاشفی

محفلین
غزل
(علی جواد زیدی)
آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اُٹھی فتنے نئے جگا کے

میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسنِ پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مُسکرا کے

دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اُٹھا کے

جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے

دیدار کی تمنا کل رات رکھ رہی تھی
خوابوں کی رہگزر میں شمعیں جلا جلا کے

دوری نے لاکھ جلوے تخلیق کر لیے تھے
پھر دور ہوگئے ہم تیرے قریب آ کے

شامِ فراق ایسا محسوس ہو رہا ہے
ہر ایک شے گنوا دی ہر ایک شے کو پا کے

آئی ہے یاد جن کی طوفانِ درد بن کے
وہ زخم میں نے اکثر کھائے ہیں مُسکرا کے

میری نگاہِ غم میں شکوے ہی سب نہیں ہیں
اک بار ادھر تو دیکھو نیچی نظر اُٹھا کے

یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی
اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے

دل کے قریب شاید طوفان اُٹھ رہے ہوں
دیکھو تو شعر زیدی اک روز گنگنا کے
 

کاشفی

محفلین
تعارفِ شاعر:
نام علی جواد زیدی اور تخلص زیدی تھا۔۱۰؍مارچ۱۹۱۶ء کو کرہان، ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ بی اے، ایل ایل بی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔ وہ شاعر کے علاوہ ادیب، نقاد اورمؤرخ تھے جرم محمد آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔انھوں نے متعدد بیرونی ممالک کا سفر کیا۔ وہ اردو اکادمی، اترپردیش کے صدر رہے۔ اور کمیٹی برائے اردو کے جسے گجرال کمیٹی برائے فروغ اردو بھی کہتے ہیں، ممبر جوائنٹ سکریٹری رہے۔ انجمن ترقی اردو کے رکن بھی رہے۔ ان کی تقریباً۶۵ کتابیں اور کتابچے شائع ہوئے جس پر حکومت اور اکادمیوں سے انعامات ملے۔ ان کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’رگ سنگ‘‘، ’’میری غزلیں‘‘،’’انتخاب علی جواد زیدی‘‘(شعری مجموعے)، ’’دیار سحر‘‘، ’’نسیم دشت آرزو‘‘، ’’تیشۂ آواز‘‘(مجموعۂ کلام)، ’’اردو میں قومی شاعری کے سو سال‘‘ (تنقید وتحقیق)، ’’تعمیری ادب‘‘ (تنقید وتحقیق)، ’’دوادبی اسکول‘‘(تنقید وتحقیق)، ’’تاریخ ادب اردو کی تدوین‘‘ (تنقید وتحقیق)، ’’قصیدہ نگاران اترپردیش‘‘(تنقید وتحقیق)۔ ۱۹۸۸ء میں ’’پدم شری‘‘ کا خطاب ملا۔ ۷؍ دسمبر ۲۰۰۴ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
بحوالۂ: پیمانۂ غزل (جلد دوم)، محمد شمس الحق، صفحہ -70
 
Top