ملک عدنان احمد
محفلین
صبح کے 6 بجے ، جب لاہور کے اس گنجان آباد علاقے میں مرغانِ سحر اور چند بندگانِ خدا کے سوا کوئی جاگا نہیں تھا، یہ صدا تقریبا" روز سنائی دیتی تھی۔
"آنکھوں والے! آنکھیں بڑی نعمت ہیں"
لیکن اس روز ان جاگنے والوں میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا جو پچھلے دو ہفتوں سے روزانہ رات باوجود نیند کی گولیاں کھانے کے، دیر تک سو نہ پاتا تھا اور صبح سویرے جاگ جاتا تھا۔ تازہ تازہ عشق کی ناکامی اور حالات کی ستم ظریفی کا ستایا ہوا یہ جوان اِن دنوں ایک عجیب تذبذب کے عالم میں زندگی گزار رہا تھا۔زندگی نے اسے اچانک پلٹے کھا لیے تھے کہ وہ سب کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا جو اس سے پہلے اس نے کبھی نہ سوچا۔ کائنات کی ساری نعمتیں اسے پھیکی محسوس ہو رہی تھیں، کھانے پینے کا سوچ لینا ہی اسکو سیر کر دیتا تھا-
آج سے پہلے اول تو وہ اس وقت جاگ ہی نہیں رہا ہوتا تھا اور اگر جاگ بھی رہا ہو تو اس صدا کو سننے کے لیے توجہ درکار تھی جو کہ کہیں اور مبذول ہوتی تھی۔ یہ صدا سنتے ہی اس کے دماغ میں گویا ایک بگولا سا چلنے لگا جس کے ساتھ ساری خام خیالیاں اڑ اڑ کر جانے لگیں۔ ایک سیلاب سا تھا جو اسکے ذہن کا سارا فتور بہا لے جا رہاتھا۔
اس ایک جملے نے اس پر اس حقیت کو آشکار کر دیا کہ وہ جن ایک دو نعمتوں کے چھن جانے پر خدا کی دی ہوئی سینکڑوں نعمتوں سے منہ موڑے بیٹھا تھا، ان کا شکر ادا کرنا اس پر کتنا لازم تھا۔ ایک کے بعد ایک نعمت ، اسکی آنکھوں کے سامنے ست رنگی دھنک کی مانند چکر کاٹتی چلی جا رہی تھیں۔
وہ لپک کر اٹھا، دراز میں سے بٹوہ نکالا اس میں سے چند نوٹ نکال کر باہر کو بھاگا اور فقیر کو آواز دے کر روک لیا۔ پاس پہنچ کر فقیر کو جب روپےدے کر واپس پلٹنے لگا تو فقیر بولا: "اللہ تیرا بھلا کرے بیٹا!"
اس نے مسکرا کر جواب دیا:"میرا نہیں، اللہ تمہارابھلا کرے بابا!"
واپس آتے ہوئے وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ خدا بھی کیسے کیسے اپنی ذات کو اپنے بندوں پر منکشف کرتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس وقت "بصیرت" سے محروم ایک شخص کو اللہ نے اسکی "بصارت " کے در کھولنے کا سبب بنا دیا۔
اسکا ضمیر اسے جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہہ رہا تھا "آنکھوں والے! آنکھیں بڑی نعمت ہیں"
(ملک عدنان احمد)
"آنکھوں والے! آنکھیں بڑی نعمت ہیں"
لیکن اس روز ان جاگنے والوں میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا جو پچھلے دو ہفتوں سے روزانہ رات باوجود نیند کی گولیاں کھانے کے، دیر تک سو نہ پاتا تھا اور صبح سویرے جاگ جاتا تھا۔ تازہ تازہ عشق کی ناکامی اور حالات کی ستم ظریفی کا ستایا ہوا یہ جوان اِن دنوں ایک عجیب تذبذب کے عالم میں زندگی گزار رہا تھا۔زندگی نے اسے اچانک پلٹے کھا لیے تھے کہ وہ سب کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا جو اس سے پہلے اس نے کبھی نہ سوچا۔ کائنات کی ساری نعمتیں اسے پھیکی محسوس ہو رہی تھیں، کھانے پینے کا سوچ لینا ہی اسکو سیر کر دیتا تھا-
آج سے پہلے اول تو وہ اس وقت جاگ ہی نہیں رہا ہوتا تھا اور اگر جاگ بھی رہا ہو تو اس صدا کو سننے کے لیے توجہ درکار تھی جو کہ کہیں اور مبذول ہوتی تھی۔ یہ صدا سنتے ہی اس کے دماغ میں گویا ایک بگولا سا چلنے لگا جس کے ساتھ ساری خام خیالیاں اڑ اڑ کر جانے لگیں۔ ایک سیلاب سا تھا جو اسکے ذہن کا سارا فتور بہا لے جا رہاتھا۔
اس ایک جملے نے اس پر اس حقیت کو آشکار کر دیا کہ وہ جن ایک دو نعمتوں کے چھن جانے پر خدا کی دی ہوئی سینکڑوں نعمتوں سے منہ موڑے بیٹھا تھا، ان کا شکر ادا کرنا اس پر کتنا لازم تھا۔ ایک کے بعد ایک نعمت ، اسکی آنکھوں کے سامنے ست رنگی دھنک کی مانند چکر کاٹتی چلی جا رہی تھیں۔
وہ لپک کر اٹھا، دراز میں سے بٹوہ نکالا اس میں سے چند نوٹ نکال کر باہر کو بھاگا اور فقیر کو آواز دے کر روک لیا۔ پاس پہنچ کر فقیر کو جب روپےدے کر واپس پلٹنے لگا تو فقیر بولا: "اللہ تیرا بھلا کرے بیٹا!"
اس نے مسکرا کر جواب دیا:"میرا نہیں، اللہ تمہارابھلا کرے بابا!"
واپس آتے ہوئے وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ خدا بھی کیسے کیسے اپنی ذات کو اپنے بندوں پر منکشف کرتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس وقت "بصیرت" سے محروم ایک شخص کو اللہ نے اسکی "بصارت " کے در کھولنے کا سبب بنا دیا۔
اسکا ضمیر اسے جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہہ رہا تھا "آنکھوں والے! آنکھیں بڑی نعمت ہیں"
(ملک عدنان احمد)