نیرنگ خیال
لائبریرین
"صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔"
یہ آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے اس عظیم لیڈر کے جس نے پاکستان کے قیام کے لیے چلنے والی تحریک کی قیادت کی تھی۔ جو اس تحریک آزادی کا روح رواں تھا۔ ایک انگریز مفکر نے کہا تھاتم خوش قسمت ہو اگر بلند مقصد رکھتے ہو کہ اکثریت تو کوئی مقصد ہی نہیں رکھتی۔ خواب دیکھنا اور پھر خواب کی تعبیر بھی حاصل کر لینا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اول تو بہت سے لوگ خواب ہی نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو کچھ مثبت اور بلند خواب دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی تعبیر حاصل کرنے میں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔
کسی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو فراموش کردے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی اقوام زیادہ دیر تک سانس نہیں لے پائیں۔ وقت نے ان کو بری طرح کچل دیا۔ اور ان کا وجود تاریخ میں ایک ٹھٹول بن گیا۔ جب آپ اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ تو پھر آپ کس کو یاد رکھیں گے۔کوئی بھی رہنما ہو۔ قائد ہو۔ اس کو برا بھلا کہنے والے لوگ موجود رہتے ہیں۔ یہی تو وہ بادِ مخالف ہے جو ان کی پرواز کو اور اونچا کر دیتی ہے۔ لیکن جب محبت کرنے والے لب بھی خاموش ہوجائیں۔ عظیم رہنماؤں کا تصور ذہن سے محو ہوتا چلا جائے۔ پھر تنزلی کی منازل کہیں زیادہ برق رفتاری سے طے ہوجاتی ہیں۔
کسی قائد کو بھلا دینا یہ نہیں کہ اس کا نام لوگ بھلا دیں۔ یا اس کی تاریخ وفات و پیدائش بھلا دیں۔ بلکہ اس کو بھلانا یہ ہے کہ اس کے افکار کو بھلا دیا جائے۔ اس نے جس راہ پر لوگوں کی رہنمائی کی ہو اس راہ کو ترک کر دیا جائے۔ ان تمام خوابوں منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جائے جن پر وہ عمل پیرا تھا۔ اور ان تمام مقاصد کو بھلا دیا جائے جن کے لیے وہ دن رات کوشاں تھا۔
اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو ہم نے قائد کے آنکھیں بند کرتے ہی ان کی طرف سے ان کے افکار کی طرف سے ان کے خیالات کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ہم نے وہ تمام منصوبے وہ تمام کام اس وقت ہی پس پشت ڈال دیے تھے۔ جن پر عمل کر کے ہم دنیا میں بلند مقام حاصل کر سکتے تھے۔ ترقی کی راہ پر دنیا میں نام کما سکتے تھے۔ آنکھیں قائد نے نہیں ہم نے بند کی تھیں۔ اور قائد کی وفات سے لے کر اب تک ہماری چھیاسٹھ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہم پل پل مرے ہیں۔ ہم کبھی جیے ہی نہیں۔ ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہیں جن میں ہم اس وقت الجھے تھے۔ کسی بھی بڑے رہنما کے افکار کو دفنا دینے سے وہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ دفنانے والے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ وہ تو ان تمام باتوں سے بےنیاز ہوتا ہے۔ گیارہ سمتبر 1948 ہی وہ دن ہے جس دن اس ملک کے ایک عظیم رہنما، قائد محمد علی جناح ہم سے جدا ہو کر ابدی نیند سو گئے۔لیکن ان کے الفاظ ان کا کام تاریخ میں ان کو ہمیشہ کے لیے امر کر گیا۔
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
یہ آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے اس عظیم لیڈر کے جس نے پاکستان کے قیام کے لیے چلنے والی تحریک کی قیادت کی تھی۔ جو اس تحریک آزادی کا روح رواں تھا۔ ایک انگریز مفکر نے کہا تھاتم خوش قسمت ہو اگر بلند مقصد رکھتے ہو کہ اکثریت تو کوئی مقصد ہی نہیں رکھتی۔ خواب دیکھنا اور پھر خواب کی تعبیر بھی حاصل کر لینا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اول تو بہت سے لوگ خواب ہی نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو کچھ مثبت اور بلند خواب دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی تعبیر حاصل کرنے میں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔
کسی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو فراموش کردے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی اقوام زیادہ دیر تک سانس نہیں لے پائیں۔ وقت نے ان کو بری طرح کچل دیا۔ اور ان کا وجود تاریخ میں ایک ٹھٹول بن گیا۔ جب آپ اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ تو پھر آپ کس کو یاد رکھیں گے۔کوئی بھی رہنما ہو۔ قائد ہو۔ اس کو برا بھلا کہنے والے لوگ موجود رہتے ہیں۔ یہی تو وہ بادِ مخالف ہے جو ان کی پرواز کو اور اونچا کر دیتی ہے۔ لیکن جب محبت کرنے والے لب بھی خاموش ہوجائیں۔ عظیم رہنماؤں کا تصور ذہن سے محو ہوتا چلا جائے۔ پھر تنزلی کی منازل کہیں زیادہ برق رفتاری سے طے ہوجاتی ہیں۔
کسی قائد کو بھلا دینا یہ نہیں کہ اس کا نام لوگ بھلا دیں۔ یا اس کی تاریخ وفات و پیدائش بھلا دیں۔ بلکہ اس کو بھلانا یہ ہے کہ اس کے افکار کو بھلا دیا جائے۔ اس نے جس راہ پر لوگوں کی رہنمائی کی ہو اس راہ کو ترک کر دیا جائے۔ ان تمام خوابوں منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جائے جن پر وہ عمل پیرا تھا۔ اور ان تمام مقاصد کو بھلا دیا جائے جن کے لیے وہ دن رات کوشاں تھا۔
اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو ہم نے قائد کے آنکھیں بند کرتے ہی ان کی طرف سے ان کے افکار کی طرف سے ان کے خیالات کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ہم نے وہ تمام منصوبے وہ تمام کام اس وقت ہی پس پشت ڈال دیے تھے۔ جن پر عمل کر کے ہم دنیا میں بلند مقام حاصل کر سکتے تھے۔ ترقی کی راہ پر دنیا میں نام کما سکتے تھے۔ آنکھیں قائد نے نہیں ہم نے بند کی تھیں۔ اور قائد کی وفات سے لے کر اب تک ہماری چھیاسٹھ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہم پل پل مرے ہیں۔ ہم کبھی جیے ہی نہیں۔ ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہیں جن میں ہم اس وقت الجھے تھے۔ کسی بھی بڑے رہنما کے افکار کو دفنا دینے سے وہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ دفنانے والے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ وہ تو ان تمام باتوں سے بےنیاز ہوتا ہے۔ گیارہ سمتبر 1948 ہی وہ دن ہے جس دن اس ملک کے ایک عظیم رہنما، قائد محمد علی جناح ہم سے جدا ہو کر ابدی نیند سو گئے۔لیکن ان کے الفاظ ان کا کام تاریخ میں ان کو ہمیشہ کے لیے امر کر گیا۔
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں