فرخ منظور
لائبریرین
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح
اب زلیخا کو نہ بدنام کرے گا کوئی
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح
منتطر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح
(مرتضیٰ برلاس)
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا دھڑکن کی طرح
اب زلیخا کو نہ بدنام کرے گا کوئی
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح
منتطر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح
(مرتضیٰ برلاس)