فرخ منظور
لائبریرین
آنکھ والو ، کہو کیا وقت ہے یہ آیا ہوا
شہر کا شہر نظر آتا ہے پتھرایا ہوا
رو میں ہے عمرِ رواں اور یہ مہلت ہی کہاں
کہ کہاں کھویا ہوا کچھ ہے ، کہاں پایا ہوا
خود ہی لکھتا ہے مجھے ، خود ہی مٹا دیتا ہے
کوئی اس ہونے ، نہیں ہونے سے اُکتایا ہوا
ان دنوں زودِ فراموشی کا اتنا ڈر ہے
روز دہراتا ہوں قصہ وہی دہرایا ہوا
پھر کوئی خواب سا آنکھوں میں چمک اٹھتا ہے
پھر پلٹ جاتا ہے آنسو سا کوئی آیا ہوا
سرد مہری کی ہوا تیز بہت ہے ، سو حسین
دل کو ہے ہم نے کسی دھیان سے دہکایا ہوا
(آفتاب حسین)