اسد قریشی
محفلین
سدرشن فاخر کی زمین میں چند اشعار سرزد ہوئے ہیں احباب کی رائے اور اصلاح درکار ہے۔
آنکھ پر پہرے بیٹھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
اپنے خوابوں کو مٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
پھر سے تبدیلیِ حالات کا امکان ہوا
میری قسمت کو بتا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
خواب آوارہ سا اترا ہے مری آنکھوں میں
اس پہ تعزیر لگا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
شوقِ گریہ کو ہے اک زخم تسلی کے لئے
کوئی الزام لگا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
ایک صورت ہے مری تم کو بھلا دینے کی
مجھ کو تم زہر پلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
لذّتِ گریہ کو ہے خواہش کسی آتش کی
دل میں پھر آگ لگا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
زندگی تم پہ مہرباں ہے بہت عرصے سے
تم اسد کو یہ بتا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی
اسد