غزل
آنکھ کھل جائے جب تو کیا کیجے
جاگتے رہنے کی دعا کیجے
ہر گھڑی در کھلا رہے ہے وہ
جب بھی جی چاہے تب صدا کیجے
باہر آنا ہو گھپ اندھیروں سے
دل کو شفاف آئینہ کیجے
آرزو کیجیے کسی کی جب
چاہنے کی پھر انتہا کیجے
کچھ نہ بدلے میں ڈھونڈتے رہیے
جس کا بھی ہو سکے بھلا کیجے
عقل بھی استعمال میں آئے
دل کی باتوں کو بھی سنا کیجے
خوب نکلا نتیجہ لڑنے کا
دوستو خود سے بھی لڑا کیجے
آپ ہی ہیں خود آپ کی منزل
کس جگہ گم ہیں کچھ پتا کیجے
کوئی کمتر حقیر کوئی نہیں
احترام آپ سب ہی کا کیجے
ق
اتر آئے نصیحتوں پر کیوں
لوگ جاہل نہیں پڑھا کیجے
یہ تو باتیں ہیں سیدھی سادی عظیم
آپ کچھ شعر بھی کہا کیجے
***
عظیم صاحب ، نہایت دلکش اشعار ہیں . داد قبول فرمائیے . آپ کی غزل اِس قدر نفیس ہے کہ اِس میں ایک دو کمیاں کھٹک رہی ہیں . خطا معاف ہو تو اپنی ادنیٰ رائے دے رہا ہوں . مناسب سمجھیں تو غور فرما لیں . مجھے متبادل مصرعہ کہنے میں گریز ہوتا ہے لیکن اپنا موقف ظاہر کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے . یہ صرف تجاویز ہیں . آپ اپنی طرح سے مصرعہ تخلیق کر لیں .
’ہر گھڑی دَر کھلا رہے ہے وہ‘ میں ’رہے ہے وہ‘ نہیں جچا . ایسی ترکیب نہ آپ کی غزل كے رنگ میں فٹ ہوتی ہے نہ اِس کی ضرورت ہے . ’ ہر گھڑی دَر کھلا وہ رہتا ہے‘ میں کیا حرج ہے ؟
’باہر آنا ہو گھپ اندھیروں سے‘ میں لفظ ’گر‘ کی اشد ضرورت ہے تاکہ دونوں مصرعوں کا ربط مضبوط ہو جائے . ’ گھپ‘ کو ’ گر‘ سے بَدَل دیجئے .
’عقل بھی استعمال میں آئے‘ میں آپ نے ’ استعمال‘ کا ’ع‘ گرا دیا ہے جو مناسب نہیں ہے . آج کل کی شاعری میں ایسا استعمال چل نکلا ہے ، لیکن یہ درست نہیں . کچھ اِس طرح کہہ سکتے ہیں ’عقل کا بھی ذرا ہو استعمال .‘
’ کوئی کمتر حقیر کوئی نہیں‘ میں آپ نے ’ کوئی‘ کو جس طرح ’کمتر‘ كے پہلے اور ’حقیر‘ كے بعد لگایا ہے ، اس سے مصرعہ کمزور ہو گیا ہے . اِس کی شکل کچھ یوں ہو سکتی ہے ’ کوئی کمتر نہیں ، حقیر نہیں.‘
امید ہے یہ گستاخی خاطر پر گراں نہ گزرے گی . اگر کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو تو پیشگی معذرت خواه ہوں .