آنکھ کھل جائے گی۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
ایک غزل:
آنکھ کھل جائے گی تو خواب ادھورا ہوگا
کس نے سوچا تھا مری جان! کہ ایسا ہوگا
اب بھی کچھ وقت ہے خواہش پہ لگا لو پہرے
بات جب حد سے بڑھے گی تو تماشا ہوگا
وہ بچھڑنے کی گھڑی کتنی کڑی تھی اس پر
مجھ کو معلوم ہے اُس رات وہ رویا ہوگا
گزرے لمحوں کی اسے یاد تو آتی ہوگی
جانے کیا سوچ کے آنگن میں ٹہلتا ہوگا
ایک لمحہ بھی جدائی کا گراں ہے مجھ پر
دل کے زخموں کا بھلا کیسے مداوا ہوگا
اپنی پہچان کرائے گا وہ خود لہجے سے
اُس کے الفاظ میں بھی ایک سلیقہ ہوگا
اتنی سج دھج سے بھلا شہر میں نکلے کیوں تھے
ہم نہ کہتے تھے وہاں خون خرابا ہوگا
مجھ کو اجداد کے کچھ قرض چکانے کے لیے
اپنی خواہش کے جزیروں سے نکلنا ہوگا
آؤ اب لوٹ چلیں اپنی گلی کی جانب
آج بھی اُس میں کھلا ایک دریچہ ہوگا
ایک ذرہ بھی سلامت نہیں دل کا آصفؔ
کتنی اونچائی سے آئینہ یہ ٹوٹا ہوگا
- آصف شفیع
 
مدیر کی آخری تدوین:
اتنی سج دھج سے بھلا شہر میں نکلے کیوں تھے
ہم نہ کہتے تھے وہاں خون خرابا ہوگا
مجھ کو اجداد کے کچھ قرض چکانے کے لیے
اپنی خواہش کے جزیروں سے نکلنا ہوگا
بہت خوب غزل ہے جناب۔ بہت داد وصول فرمائیے۔

صرف پہلے مصرع پر نظرِثانی فرمائیے
 

شیزان

لائبریرین
مجھ کو اجداد کے کچھ قرض چکانے کے لیے
اپنی خواہش کے جزیروں سے نکلنا ہوگا

بہت خوب ۔۔
 
Top