آنکھ یہ پُرنم نہیں،لب پر گلہ کوئی نہیں

عاطف ملک

محفلین
ایک ٹوٹی پھوٹی سی کاوش:

آنکھ یہ پُرنم نہیں،لب پر گلہ کوئی نہیں
دل پہ ٹوٹی ہے قیامت اور صدا کوئی نہیں

ہم نے پوچھا، "کوئی شکوہ ہے؟" کہا، "کوئی نہیں"
یعنی فرقت کے سوا اب راستہ کوئی نہیں

عشق ہے، دیوانگی ہے، یا نظر کا ہے فریب
جس طرف جاؤں وہی ہے، ماسوا کوئی نہیں

خوب صورت، خوش تکلم، خوش ادا ہیں بے شمار
پھر بھی دل کی ضد یہی ہے، آپ سا کوئی نہیں

فکر ہے پیہم اذیت میں جیے جانے کا نام
آگہی ہے وہ مرض جس کی دوا کوئی نہیں

معرفت اپنی نہ ہو تو حق شناسی ہے محال
خود شناسی سے بڑی عاطفؔ عطا کوئی نہیں

عاطفؔ ملک
ستمبر ۲۰۱۹
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک ٹوٹی پھوٹی سی کاوش:

آنکھ یہ پُرنم نہیں،لب پر گلہ کوئی نہیں
دل پہ ٹوٹی ہے قیامت اور صدا کوئی نہیں

ہم نے پوچھا، "کوئی شکوہ ہے؟" کہا، "کوئی نہیں"
یعنی فرقت کے سوا اب راستہ کوئی نہیں

عشق ہے، دیوانگی ہے، یا نظر کا ہے فریب
جس طرف جاؤں وہی ہے، ماسوا کوئی نہیں

خوب صورت، خوش تکلم، خوش ادا ہیں بے شمار
پھر بھی دل کی ضد یہی ہے، آپ سا کوئی نہیں

فکر ہے پیہم اذیت میں جیے جانے کا نام
آگہی ہے وہ مرض جس کی دوا کوئی نہیں

معرفت اپنی نہ ہو تو حق شناسی ہے محال
خود شناسی سے بڑی عاطفؔ عطا کوئی نہیں

عاطفؔ ملک
ستمبر ۲۰۱۹
عمدہ اشعار ہیں ★★★
 

عاطف ملک

محفلین
عاطف بھائی بہت پیاری غزل ہے -بہت ساری داد -:)
بہت بہت شکریہ یاسر بھائی
عمدہ اشعار ہیں ★★★
نوازش
بہت خوب عاطف بھائی
بہت بہت شکریہ
ماشاءاللہ ،
عمدہ اور شاندار اشعار کا شاہکار ۔
زبردست غزل
بہت شکریہ عدنان بھائی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا بات ہے !!!! بہت اعلیٰ عاطف بھائی! بہت خوب غزل ہے !
آپ کی شاعری روز بروز خوب سے خوب تر ہوتی جارہی ہے ۔ ماشاء اللہ۔

ایک چھوٹی سی تجویز یہ ہے کہ تیسرے شعر کے مصرع ثانی میں جس طرف جاؤں کے بجائے "جس طرف دیکھوں" کرلیجئے ۔ جانے کی نسبت دیکھنا زیادہ بلیغ ہے ۔ یوں شعر میں گہرائی بھی آجائے گی اور پہلے مصرع سے مربوط بھی ہوجائے گا۔

عشق ہے، دیوانگی ہے، یا نظر کا ہے فریب
جس طرف دیکھوں وہی ہے، ماسوا کوئی نہیں
 

عاطف ملک

محفلین
خوب غزل ہے !
آپ کی شاعری روز بروز خوب سے خوب تر ہوتی جارہی ہے ۔ ماشاء اللہ۔
بہت خوشی ہوئی آپ کے اس تبصرے سے:)
چھوٹی سی تجویز یہ ہے کہ تیسرے شعر کے مصرع ثانی میں جس طرف جاؤں کے بجائے "جس طرف دیکھوں" کرلیجئے ۔ جانے کی نسبت دیکھنا زیادہ بلیغ ہے ۔ یوں شعر میں گہرائی بھی آجائے گی اور پہلے مصرع سے مربوط بھی ہوجائے گا۔

عشق ہے، دیوانگی ہے، یا نظر کا ہے فریب
جس طرف دیکھوں وہی ہے، ماسوا کوئی نہیں
"دیکھوں" بہتر متبادل معلوم ہو رہا ہے.ایسے ہی کر لیتا ہوں:)
 
ایک ٹوٹی پھوٹی سی کاوش:

آنکھ یہ پُرنم نہیں،لب پر گلہ کوئی نہیں
دل پہ ٹوٹی ہے قیامت اور صدا کوئی نہیں

ہم نے پوچھا، "کوئی شکوہ ہے؟" کہا، "کوئی نہیں"
یعنی فرقت کے سوا اب راستہ کوئی نہیں

عشق ہے، دیوانگی ہے، یا نظر کا ہے فریب
جس طرف جاؤں وہی ہے، ماسوا کوئی نہیں

خوب صورت، خوش تکلم، خوش ادا ہیں بے شمار
پھر بھی دل کی ضد یہی ہے، آپ سا کوئی نہیں

فکر ہے پیہم اذیت میں جیے جانے کا نام
آگہی ہے وہ مرض جس کی دوا کوئی نہیں

معرفت اپنی نہ ہو تو حق شناسی ہے محال
خود شناسی سے بڑی عاطفؔ عطا کوئی نہیں

عاطفؔ ملک
ستمبر ۲۰۱۹
خوبصورت خوبصورت!
 
Top