قرۃالعین اعوان
لائبریرین
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
اگرچہ آنکھوں کی کوئی زباں نہیں ہوتی
مگر یہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی
سب حالِ دل کہہ دیتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
جب کبھی زبان کے پاس الفاظ نہ ہوں
اور کوئی دل کا مکیں
بہت دنوں کے بعد ملنے آیا ہو
اس کی یاد نے ہر پل ستایا ہو
ہر آہٹ میں اس کی آمد کا گماں گنگنایا ہو
لیکن ہر بار ہی نا امیدی نے در کھٹکھٹایا ہو
ایسے میں اچانک وہ چہرہ سامنے آیا ہو
جسے دیکھنے کی خاطر وقت مشکل سے بتایا ہو
تو زباں کو تب کچھ کہنے کا یارا نہیں ہوتا
ایسے میں یہ آنکھیں دل کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں
یہ آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
کوئی مہرباں ہنشیں
بہت دور جانے والا ہو
اور اس سے ایسا تعلق ہو
کہ بن اس کے دم گھٹتا ہو
زباں کو روکنے کی ہمت ہی نہ ہو
کچھ امید نا امیدی کی سی کیفیت ہو
جانے والے آخری بار مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہوں
تو بس پھر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
کسی دوست نے دل دکھایا ہو
آنسوؤں نے دل میں گھر بنایا ہو
بے بسی نے کئی بار ہم کو ستایا ہو
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی
دل اس کو بھول نا پایا ہو
ہماری ہر کوشش نے ہمیں ہی آزمایا ہو
ایسے میں شکوہ نہ کرنا چاہیں بھی تو
بہت لاپرواہ بن جانا چاہیں بھی تو
یہ کہاں چپ رہتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
اگرچہ آنکھوں کی کوئی زباں نہیں ہوتی
مگر یہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی
سب حالِ دل کہہ دیتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
جب کبھی زبان کے پاس الفاظ نہ ہوں
اور کوئی دل کا مکیں
بہت دنوں کے بعد ملنے آیا ہو
اس کی یاد نے ہر پل ستایا ہو
ہر آہٹ میں اس کی آمد کا گماں گنگنایا ہو
لیکن ہر بار ہی نا امیدی نے در کھٹکھٹایا ہو
ایسے میں اچانک وہ چہرہ سامنے آیا ہو
جسے دیکھنے کی خاطر وقت مشکل سے بتایا ہو
تو زباں کو تب کچھ کہنے کا یارا نہیں ہوتا
ایسے میں یہ آنکھیں دل کی صحیح ترجمانی کرتی ہیں
یہ آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
کوئی مہرباں ہنشیں
بہت دور جانے والا ہو
اور اس سے ایسا تعلق ہو
کہ بن اس کے دم گھٹتا ہو
زباں کو روکنے کی ہمت ہی نہ ہو
کچھ امید نا امیدی کی سی کیفیت ہو
جانے والے آخری بار مڑ کر ہاتھ ہلاتے ہوں
تو بس پھر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں
کسی دوست نے دل دکھایا ہو
آنسوؤں نے دل میں گھر بنایا ہو
بے بسی نے کئی بار ہم کو ستایا ہو
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی
دل اس کو بھول نا پایا ہو
ہماری ہر کوشش نے ہمیں ہی آزمایا ہو
ایسے میں شکوہ نہ کرنا چاہیں بھی تو
بہت لاپرواہ بن جانا چاہیں بھی تو
یہ کہاں چپ رہتی ہیں
آنکھیں شکوہ کرتی ہیں