آصف شفیع
محفلین
غزل:
آن رہ جائے گی تمہاری بھی
بات سن لو اگر ہماری بھی
ہم محبت کا خون کر آئے
جنگ جیتی بھی اور ہاری بھی
تم کو دعوٰی بھی ہے محبت کا
اور کرتے ہو آہ و زاری بھی
عشق میں امتحاں بھی آتے ہیں
کاٹ سکتی ہے سر کو آری بھی
اپنے دشمن سے میں نہیں ہارا
ضرب اس نے لگائی کاری بھی
سب سے دل کی کہا نہیں کرتے
کچھ تو رکھتے ہیں رازداری بھی
بے ثمر ہی رہے محبت میں
خوب ہم نے اٹھائی خواری بھی
زندگی میں سکوں نہیں آصف
آزمائی ہے شہریاری بھی
( آصف شفیع)
آن رہ جائے گی تمہاری بھی
بات سن لو اگر ہماری بھی
ہم محبت کا خون کر آئے
جنگ جیتی بھی اور ہاری بھی
تم کو دعوٰی بھی ہے محبت کا
اور کرتے ہو آہ و زاری بھی
عشق میں امتحاں بھی آتے ہیں
کاٹ سکتی ہے سر کو آری بھی
اپنے دشمن سے میں نہیں ہارا
ضرب اس نے لگائی کاری بھی
سب سے دل کی کہا نہیں کرتے
کچھ تو رکھتے ہیں رازداری بھی
بے ثمر ہی رہے محبت میں
خوب ہم نے اٹھائی خواری بھی
زندگی میں سکوں نہیں آصف
آزمائی ہے شہریاری بھی
( آصف شفیع)