آوازِ دوست(مختار مسعود)

مختا ر مسعود ” آواز دوست“





چند علمی خیالات کو ایک منظم شکل دینا اور اختصار کے ساتھ بیان کرنا مضمون کہلایا۔ سرسید تحریک کے زیر اثر مضمون میں اصلاحی رنگ نمایاں رہا ۔ سرسید کے سارے مضامین یورپ کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر لکھے گئے ۔ اور ایک واضح شکل اختیار کرنے سے قاصر رہے۔ سرسید کے بعد اس صنف نے مزید ترقی کی اور تاریخی ، علمی ، سائنسی ، نفسیاتی اور سماجی تمام پہلوئوں کواپنے اندر سمو دیا۔ سرسید نے جن مضامین کی ابتداءکی اسکا نقطہ عروج جدید اردو ادب میں ”آواز دوست“ کی صورت میں سامنے آیا۔ ”آواز دوست“ اپنے اندر کئی ایسے پہلو رکھتی ہے جو اس سے پہلے مضامین کا موضوع نہیں رہے ۔ مثلاً جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے اس پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہے۔ ”آواز دوست“ کی صحیح قدر متعین کرنے کے لئے ایک نقاد کو اس کے منصب کے تمام حوالوں کو بروئے کار لانا پڑے گا۔بقول محمد طفیل ایڈیٹر ”نقوش“
” اس کتاب کے بارے میں چھت پھاڑ قسم کی تعریفیں ہوئیں ، بے شک یہ کتاب تعریف کے قابل ہے ۔ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں ،جتنا چاہیں سچ بول لیں۔ دونوں چکر چل جائیں گے۔ یہ گنجائش میں نے تو محمد حسین آزاد کی کتاب”آب حیات“ میں دیکھی یا پھر مختار مسعود کی کتاب ”آواز دوست“ میں۔“
مختا ر مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ ہیں وہ محکمہ مالیات کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ یعنی پاکستانی بیورو کریسی کاایک حصہ تھے۔ اس کے علاوہ وہ مینار پاکستان کی تعمیر ی کمیٹی کے صدر بھی تھے۔ اُن کے والد صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد رہ چکے تھے۔ مختا ر مسعود آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ آواز دوست کے علاوہ ”لوح ایام“ اور ”سفر نصیب“ کے عنوا ن سے اُن کے دو سفر نامے منظر عام پر آچکے ہیں۔

آوا ز دوست کا مختصر تعارف:۔

آواز دوست کانام مختار مسعود نے مولانا جلال الدین رومی کے اس شعر سے لیا ہے،

خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آئد این آواز دوست

اس شعر کے حوالے سے آواز دوست کا مطلب مانوس اور دلکش آواز ہے۔ مختار مسعود کی آواز دوست میں اسلوب کی دلکشی بھی ہے اور لہجے کی درمندی اور دل سوزی بھی ،
آواز دوست دو مضامین پر مشتمل تقریباً دو سو پچاس صفحات پر پھیلی ایک ایسی ذہنی روداد ہے۔ جس میں قاری پور ی طرح کھو جاتا ہے۔ اور مختار مسعود کی گرفت میں رہتا ہے۔ آواز دوست کا پہلا مختصر مضمون ”مینار پاکستان“ ہے اور دوسرا طویل مضمون” قحط الرجال“ کے نام سے شامل ہے۔
مینار پاکستان اور قحط الرجال دو ایسے مضامین ہیں جن کی ہیئت کے بارے میں اب تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہو سکی ۔ کچھ نقاد انہیں مضامین ، کچھ انشائیہ نما مضامین اور قحط الرجال کو شخصی خاکے قرار دیتے ہیں ۔ یہی بات ان مضامین کی ہمہ گیری کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر ہیئت کے بارے میں اتنی مختلف باتیں کہی جاتی ہیں تو انداز ہ لگایا جاسکتا ہے ۔ کہ عناصر ترکیبی کتنے گوناگوں ہونگے ۔ ایک اور بات جو انشائیہ کے متعلق کہی جاتی ہے کہ انشائیہ نگار موضوع کی دلچسپی کو اسلوب کی چاشنی کے ساتھ دور تک نبھانے کی تاب رکھتا ہے۔ اگر اس بات کو لیا جائے تو یہ بلند پایہ اور بے مثل انشائیے ہیں،
ان دونوں مضامین کے موضوعات بظاہر ایک دوسرے سے بے تعلق ہیں لیکن ان کے باہمی تعلق کو مصنف نے اپنے دیباچے میں جو غالباً اردو ادب میں مختصر ترین دیباچہ ہے یوں واضح کیا ہے۔
” اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں ۔ایک طویل دوسرا طویل تر ۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر فردا ہے اورخون سے خونِ تمنا۔“
کتاب کا انتساب انتہائی پر معنی ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے اپنے والدین کے نام انتساب کیا ہے۔ والدہ کے قبر پر اُگنے والی پہلی پتی اور والد مرحوم کے مزار پر نصب ہونے والے پتھر کے نام اس کتاب کی فکر عظمت کو منسوب کیا گیا ہے۔ یہ پوری کتاب والدین کی اُس عظیم تربیت اور تہذیبی شائستگی کا نمونہ ہے۔
اس کتاب کو بیک وقت خاکہ نگاری ، انشائیہ ، یادوں کامجموعہ ، ذہنی سفر نامہ اور تحریک پاکستان کی کہانی کہا جا سکتا ہے۔ پوری کتاب میں بات سے بات نکلتی ہے ۔ نکتوں سے نکتے ملتے ہیں۔ کڑی سے کڑی جڑی ہے اور اس طرح ماضی، حال اور مستقبل کا سفر کیا جاتا ہے۔ مصنف کے تخیل کی بلند پروازی قابل رشک ہے۔ وہ ہنساتا ہے، رولاتا ہے ، غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ دلوں میں جذبات کا طوفان اُٹھا تا ہے۔ بھولے ہوئے سبق یاد دلاتا ہے اور یوں تاریخ اور تحریک پاکستان کا پورا منظر سامنے آجاتا ہے۔
ذیل میں آواز دوست کے دنوں مضامین ”مینار پاکستان “ اور ”قحط الرجال“ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

مینار پاکستان:۔

آواز دوست کا پہلا مختصر مضمون ”مینار پاکستان“ ہے۔ اس مضمون کے بارے میں رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ،
” ان کے اس مضمون کو سب سے پہلے پڑھا گیا۔ بہت اچھا لگا ۔ بہت ہی اچھا ۔ ان کا یہ مضمون یا ایسا مضمون پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اس میں فکر و نظر کی کتنی وسعت ، گہرائی اور ثروت اور تخیل کتنی شنگرف کار ہے۔ جن کا طرح طرح سے اور بہتر سے بہتر طور پر اظہا ر کرنے پر وہ کتنے قادر ہیں۔ فنکار کا کمال فن اور گراں مایہ شخصیت کی یہ بڑی مستند اور مستحسن نشانی ہے۔“
ملا واحدی مینا ر پاکستان پڑ ھ کر مختار مسعود کو لکھتے ہیں کہ
” لفظ لفظ قابل داد ۔ بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالا تر۔“
ان آراءسے انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ ”مینار پاکستان“ کس پائے کا مضمون ہے لیکن اس کے باوجود اس مضمون کو پڑھے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کن خوبیوں اور لذتوں کا حامل ہے۔ مختار مسعود نے معاشیات میں ایم ۔ اے کیا ہے اورجب مینار پاکستان کی تعمیر ہو رہی تھی تو اُن دنوں وزارت مالیات کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ اس لحا ظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ”پہنچ وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ لیکن یہ سمجھنا آسان نہیں کہ اس خاک و خمیر کے قلم سے ”مینار پاکستان “ جیسا مضمون کیوں کر بن پڑا ۔ جس میں ایک عالم ، مورخ، ایک مفکر، ایک شاعر اور ایک انشاءپرداز کی مجموعی صلاحیتیں پوری توانائی کے ساتھ کار فرما نظرآتی ہیں۔ مینار پاکستان میں مصنف نے تخیل کی بلند پروازی کے تحت تحریک پاکستان کے پورے سفر کو چشم دےد تصور سے دیکھا ہے اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ،
” میں بلحاظ عہدہ اس مجلس کی صدارت کر رہا ہوں ۔ مگر عہدے کو ایک عہد ِوفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے۔ میرے عہد ے کا تعلق تعمیر سے ہے۔ میرے عہد کا تعلق تحریک سے تھا۔“
مینار پاکستان کے ابتداءمیں بتاتے ہیں کہ تعمیری کمیٹی کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ قرداد پاکستان کی منظور ی کی جگہ کیا بنایا جائے۔ کوئی مسجد، یادگار ، لائبریری یامینار۔ اور ابتدائی کاروائی کے بعد یہ طے پایا کہ مینار بنایا جائے کیونکہ مینار نظریاتی دفاع کی ضرورت ، تحریک آزادی کی علامت ، دین کی سرفرازی کا گواہ اورہمارے تاریخ کا نشان ہے۔ مینار پاکستان کی تعمیر 1966ءمیں مکمل ہوئی۔ اس کا پہلا نام”یادگار پاکستان“ رکھا گیا ۔ لیکن یادگار کے لفظ سے چونکہ فنا اور موت کا تصور ابھرتا ہے اس لئے مختار مسعود کی تجویز پر اسے ”یادگارِ پاکستان “ کی بجائے ”مینار پاکستان “ کا نام دیا گیا۔
اس مضمون میں ایک جگہ مختار مسعود اصل موضوع سے گریز کرتے ہوئے دنیا بھر کے میناروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ مینار کی رعایت سے اہرام مصر سے لےکر ایفل ٹاور تک دنیا کے بہت سے میناروں کا ذکر آیا ہے۔ ان کے طرز تعمیر اور مقاصد تعمیر پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اسلامی میناروں کے حوالے سے امت مسلمہ کی تاریخ کے بعض اہم گوشے بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان معلومات کے حوالے سے مصنف کے مشاہدے اور مطالعے کی وسعت اور گہرائی کے ساتھ ساتھ اس کے احساس دردمندی کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ وہ مغرب و مشرق کے علوم اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اُن کی فکر ی رسائی بلند اور قلم ، مٹھاس ِ محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اُن کے اسلوب میں علی گڑھ والوں کی شان اور مشرقی زبانوں کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ اور اُن کے اسلوب کی یہ عظمت اس کتاب کو کلاسیک کادرجہ دیتی ہے۔ اس ضمن میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ،
” مسجد بنو اُمیہ (دمشق میں ) کا یہ شمالی مینار آج سے پورے تیرہ سو دو سال قبل بنا تھا۔ یہ ہمارے میناروں کا امام ہے۔ اس کے پیچھے لا تعداد مینار دست بستہ کھڑے ہیں۔ ایک نیا مقتدی ( مینار پاکستان) ابھی آخری صف میں آ ن کر شامل ہوا ہے ۔ اسے مینار قرارداد پاکستان کہتے ہیں۔“
مختارمسعود دنیا بھر کے میناروں کا تذکرہ کرنے کے بعد جب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ مینار پاکستان کے بنیادوں میں کونسا مسالہ ڈالا ہے۔ اُس وقت چشم تخیل سے علی گڑھ کا سنگ بنیاد رکھنے کی پوری کاروائی جزئیات کے ساتھ یوں سامنے لاتے ہیں کہ قاری بھی اس عظیم واقعہ کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے۔ مختار مسعود یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ علی گڑھ کو مینار پاکستان سے خاص ربط ہے۔ جس سرسید کے ہاتھوں علی گڑھ کی بنیاد رکھی گئی ۔ اُس وقت مینار پاکستان کی بنیادوں کو مسالہ مل گیا۔ یہاں تاریخی کڑیوں کو نہ صرف واقعات بلکہ شخصیات کے حوالے سے بھی جوڑا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سرسید اقبال اور قائداعظم کی شخصیات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ تاریخی سفر نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو واقعات اور شخصیات کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔
ایک سنگ میل پر سرسید کھڑے علی گڑھ کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور دوسرے پر ایک انگریز تھوڈرو مارلین علی گڑھ کالج کا سنگ بنیاد نصب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہندوستان میں ایک مشترکہ قوم کا تصور نہیں ۔ اگلے سنگ میل پر تقسیم ہند کی قرارداد منظور ہوتی ہے۔ اور ایک نئے نسل کے ہاتھ میں انقلاب کی بھاگ دوڑ چلی جاتی ہے۔ اس نسل میں علی گڑھ کے نوجوان سرِفہرست ہیں۔ جنہوں نے قائد کی بگھی کھینچی اور مولانا آزاد کی ریل گاڑی روکی ۔ یہاں مصنف ایک اور نقطہ سمجھاتے ہیں کہ تحریک پاکستان کو مخالفین نے بھی اس کے بنیادوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ کیونکہ اگر ہندو اور انگریز اس تحریک کو دبانے کی اتنی بھرپور کوشش نہ کرتے تو شائد مسلمان بھی اتنے شدیدردعمل کا مظاہر ہ نہ کرتے ۔ اس باد مخالف نے مسلمان نوجوانوں کو مزید اونچا اُڑنے کی ترغیب دلائی ۔ اس کے علاوہ مقامی ہندوئوں نے ہی پہلی بار قراردادِ لاہور کو ایک مقامی اخبار میں قرار دادِ پاکستان کا نام دیا اور ہندو پریس نے یہ پروپیگنڈہ اُس وقت پھیلایا جب پاکستان کا الگ نام سیاسی فضا میں موجود تھا۔ لیکن باقاعدہ منتخب نہ ہوا تھا۔ ایک جگہ وہ کچھ یوں لکھتے ہیں،
”مینار پاکستان کی بنیادوں کو تحریک کے مخالفین سے بھی فیض پہنچا ہے۔ اکثریت کی بد اندیشی نے مسلمانوں کے لئے جو کنواں کھودا تھا وہی مینا ر کی بنیاد کے کام آیا۔“
حال کی روشنی میں ماضی کی یہ تعبیر موءرخانہ ہی نہیں خلاقانہ بھی ہے۔ تاریخ اور شاعری کا کبھی ساتھ نہیں رہا اور جب کبھی ہوا ہے تو شاعری پر یہ الزام ضرور آیا ہے کہ اس نے تاریخ کوافسانہ اور افسانے کو افسوں بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن مختا ر مسعود شاعرانہ تخیل تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے بجائے تاریخی حقائق کو بہترین شکل و صورت عطا کرتا ہے۔ حقائق سے پیدا ہونے والے واقعات کوسبھی دیکھتے ہیں لیکن واقعات میں چھپے ہوئے حقائق تک بہت کم لوگوں کی نظریں پہنچتی ہیں۔ ”آواز دوست“ قدم قدم پر اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ مختار مسعود واقعات کی روح میں اُتر کر حقائق تک پہنچنے کا فن جانتے ہیں۔
مختار مسعود نے ”آواز دوست “ کے پہلے مضمون”مینار پاکستان“ کو طویل مختصر مضمون قرار دیا ہے اور ”قحط الرجال“ کو طویل مضمون کہا ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے ۔ دونوں مضمون طویل ہیں۔ داستان یا کہانی کی صورت میں طوالت گراں نہیں گزرتی اور دلچسپی قائم رہتی ہے۔ لیکن مضمون کی صورت میں یہ بات ممکن نہیں۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ مضمون کے بیان کا انداز یا اسلوب شگفتہ اور کہنے کا سا ہو۔ مختار مسعود کے ہاں مضمون میں طوالت کے باوجود دلچسپی موجود ہے۔
دلچسپی پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے مختار مسعود نے اسلوب کی ٹیکنیک کے کئی طریقے اپنائے ہیں۔ مینار پاکستان میں ڈرامائی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ مینار پاکستان کی تعمیر کی کمیٹی جس کے صد ر مختار مسعود تھے۔ پہلے اجلاس کا منظر ہے۔ اس میں اہرام مصر سے ایفل ٹاور تک اہم اور غیر اہم ، معروف اور غیر معروف میناروں کے منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک متحرک فلم کی صورت میں گزرتے ہیں۔ گویا قاری جہاں گرد ہے اور میناروں کے مناظر ایک پر لطف سفرنامے کا مزا دے رہے ہیں ۔ اس کے بعد23 مارچ 1940ءکے عظیم الشان جلسے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کا ذکر روایتی مورخانہ انداز میں نہیں ہے بلکہ تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے والے چند واقعات کے موثر بیان سے یہ تصویر مکمل کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی آمد اور مینار پاکستان کی تعمیر کا ذکر چلتا رہتا ہے۔ مینار پاکستان کی تعمیر ، دنیا کے میناروں کا احوال اور جدوجہد حصول پاکستان کی تعمیر ، دنیا کے میناروں کا احوال اور جدوجہد حصول پاکستان کی کہانی اس قصے کے اجزاءاور عناصر ہیں اور ان اجزاءاور عناصر میں ربط قائم کرنا بڑا مشکل اور کٹھن کام تھا۔ مگر مختار مسعود نے ایک فن کار کی طرح بڑی خوبصورتی سے مضمون میں تسلسل اور ربط قائم کیا ہے۔
ہندوئوں کے مخالفانہ رویہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف کا لب و لہجہ طنزیہ و مزاحیہ ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے گاندھی جی کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ اُ ن کے بارے میں یہ خبر 13 اپریل 1947ءکو شائع ہوئی کہ وہ کثر کہا کرتے تھے کہ ” میں اب تک پاکستان کا مطلب نہیں سمجھا۔“
مصنف نے یہاں شگفتہ اسلوب اپناتے ہوئے لکھتے ہیں،
”کسی نے جواب دیا ذرا چند ہفتے تعقب کریں تو مطلب نقشے پر عیاں ہو جائے گا۔“
پھر ذہنی سفر نامے میں علامہ اقبال ، قائداعظم اور دوسری سرکردہ شخصیات ایک خواب کو حقیقت بنانے میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں تحریک اور قیام پاکستان کی کہانی کو پیش کرنے کا یہ انداز انتہائی انوکھا ، دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔ اس مختصر مضمون میں تین بنیادی سوال اُٹھائے گئے ہیں۔
١)قرارداد پاکستان کی منظوری کی جگہ کیا بنایا جائے؟
٢) جب مینار بنانا طے پا گیا تو مینار کے بنیادوں میں کونسا ریختہ اور مسالا ڈالا جائے؟
اور آخری سوال جس پر اس پر تاثیر مضمون کا خاتمہ ہوتا ہے وہ یہ کہ
٣) اس مینار کی حفاظت کیسے کی جائے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پاس تو اس کی حفاظت کے لئے نسخہ کیمیا موجود ہے۔ ہم اس نسخہ کیمیا سے اپنا سرحدی اور نظریاتی دفاع کر سکتے ہیں ۔ اس طرح یہ مضمون دعوت فکر دیتا ہوا اختتام پذیر ہوتا ہے۔

قحط الرجال:۔

آواز دوست کا دوسرا طویل مضمون ”قحط الرجال“ ہے جسے ذہنی سفر نامہ ، رپورتاژ ، خاکہ نگاری یا آٹو گراف البم کی کہانی کہا جا سکتا ہے۔ قحط الرجال جیسا کہ نام سے ظاہر ہے عظیم لوگوں کی کمی کا احساس مصنف کو شدت سے ہے اور وہ اس احساس میں قاری کو بھی شامل کر لیتے ہیں ۔ مختار مسعود اپنی البم اُٹھائے عظیم لوگوں کی تلاش میں محو ہیں اور قاری بھی یہ جاننے کے لئے بے چین رہتا ہے کہ اب اُن کی نگہ انتخاب کس پر ٹہرتی ہے اور وہ کس خوبصورتی سے اُسے ہمارے سامنے لاتے ہیں ۔آٹو گراف البم کی کہانی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک چینی مہان مصنف کے گھر آتا ہے۔ اُن کے والد نے انہیں بتایا کہ آج ہمارے گھر میں چینی مہمان ابراہیم شاکیو چن تشریف لائیں گے اور اُن سے آٹو گراف لیا جائے۔ مختار مسعود نے اپنے آٹو گراف البم میں دستخط لئے اور پھر معصومیت سے اپنے والد گرامی سے پوچھا کہ اس آٹو گراف البم پر کس سے دستخط لوں ۔ اُس وقت اُن کے والد نے جو نصیحت انہیں کی اُسے مصنف نے ہمیشہ کے لئے گرہ سے باندھ لیا ۔
”جائو نگہ انتخاب کو کام میں لائو ۔ بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ ملیں گے۔“
مصنف ساری زندگی نگہ انتخاب کو کام میں لاتے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی آٹو گراف البم کے اکثر صفحات خالی رہ گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں بقول، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان
” 1971.72ءتک پہنچتے پہنچتے پاکستان میں بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ بڑے آدمی سبھی 1947ءسے پہلے بن چکے تھے اس کے بعد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔“
وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن مصنف کی نگہ انتخاب کا معیار بھی بہت بلند ہے۔ مثلاً یوتھانٹ جو اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری تھا اور مصنف اُس سے مل چکے تھے لیکن وہ اُس عہدے سے متاثر ہو کر اُس کے سامنے اپنی آٹو گراف البم نہیں رکھتے بلکہ بہت عرصے کے بعد ایک جاپانی رسالے میں یو تھانٹ کو ایک بوڑھی ماں کے سامنے سجدہ ریز دیکھتے ہیں تو اُن کے دل میں آٹو گراف لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
قحط الرجال 1971.72 ءمیں مکمل ہوا ۔ پاکستان کی قومی زندگی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سقوط بغداد کے بعد ملت اسلامیہ کے سب سے بڑے المیے کا تعلق بھی اس دور سے ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آزمائش اور ابتلاءکے اس دور میں جب ہر پاکستانی حواس باختہ اور پریشا ن اور مایوسی کا شکار تھا ۔اچھے آدمیوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ اور مختار مسعودنے بعض بڑی بڑی ہستےوں کے ذکر سے ایک محفل ِ عبرت برپا کی اور ہمیں قحط الرجال کا احساس دلایا ۔ اس مضمون کی ابتداءعبرت آموز اور عبر ت انگیز جملوں سے ہوتی ہے ۔ اور پڑھتے ہوئے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
”قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال ۔۔۔۔اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار ، مردم شناسی ہو تو نایاب۔“
پروفیسر محمد صدیق خان شبلی ”قحط الرجال “ کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
” مختار مسعود نے ”قحط الرجال“ میں شخصیتوں کے خاکے نہیں لکھے بلکہ ان عظیم شخصیتوں کی زندگیوں کے بعض روشن پہلو پیش کرکے ان کی عظمت کو اُجاگر کیا ہے۔ اسلوب کی جادوگری ”قحط الرجال “ میں نمایاں ہے۔ خوبصورت بولتے جملے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔“
قحط الرجال یادوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں لوگوں کے نقوش اُبھرتے ہیں۔ اُن کے نام یہ ہیں۔ محمد ابراہیم شاکیو چن ( چینی مہمان) ، نواب بہادر یار جنگ، ای ایم فاسٹر، (انگریزی ناول نگار) ، ملاواحدی ، حسرت موہانی ، مولانا ظفر علی خان ، سید عطا اللہ شاہ بخاری ، نواب حمید اللہ ، راجہ صاحب محمود آباد ، سروجنی نائیڈو، ارنلڈ جے ٹائن لی اور قائداعظم محمد علی جناح کے نام اس فہر ست میں نمایاں ہیں۔
مصنف کی یہ تحریر مختصر شخصی خاکوں پر مشتمل ہے ۔ ہر خاکے کے آخری حصے میں نئی پیش کی جانے والی شخصیت کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک مربوط اور منظم سلسلہ جوڑتے ہوئے اسلوب نگارش کی انتہائی خوبصورت شکل ملتی ہے۔ مصنف کے اسلوب کے بارے میں ضمیر جعفری لکھتے ہیں،
” آواز دوست کی اشاعت سے اردو نثر کو ایک نئی توانائی اور نیا اعتماد ملا ہے ۔ انہوں نے اردو نثر کے خوبصورت ترین پھولوں سے بوند بوند رنگ اور رس اور خوشبو جمع کرکے بات کہنے کا ایک نیا سلیقہ پیدا کیا ہے۔ وہ اپنے جملوں کو ہیروں کی طرح تراشتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی با ت ایک جملے بلکہ ایک لفظ میں ادا ہوجائے۔“
مختار مسعود ” آواز دوست “ میں کھلی طور پر ایسے خالق نظر آتے ہیں جواپنے فن پارے کے ذریعے اپنے قاری کو پیغام حیات دیتا ہے۔ اور ایک ایسا احساس جس کے تحت قاری اپنی سطح سے اوپر اُٹھ کر زندگی کو نئے زاویہ نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔
مختار مسعود کا فنی کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر بغیر کسی مربوط پلاٹ کے شروع ہوتی ہے اور پھر ایسی مرتب اور منظم شکل اختیار کر لیتی ہے جو نہ صرف پر خیال ہے بلکہ جمالیاتی آہنگ بھی رکھتی ہے۔ ان کی ایک اور فنی خوبی یہ ہے کہ وہ ماضی ، حال اور مستقبل میں اپنی مرضی سے سفر کرتے ہیں اور قاری بھی ان کے ساتھ اس سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ مختار مسعود بے پنا ہ علم ، مطالعہ اور ذہانت رکھتے ہیں۔ ایک دردمند دل اور مٹھاس ِ محبت میں ڈوبا ہوا قلم اُن کا اثاثہ ہے۔
مختا ر مسعود کی تحریر میں ڈرامے ، افسانے ، ناول ، رپورتاژ ، سفرنامے اور خاکہ نگاری کے ایسے رنگ بکھرے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تحریک پاکستان کی اس سے زیادہ خوبصورت تاریخ اور دستاویز لکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس کتاب کا لفظ لفظ صداقت پر مبنی ہے ۔ تخیل کی کارفرمائی ہے مگر تاریخ کی سچائیوں کو ایک ترتیب نو دینے کے لئے اسے بروئے کار لایا گیا ہے۔
مختار مسعود نے اپنی اس مختصر تحریر میں پیش کردہ شخصیت تک پہنچنے کے تمام حوالے استعمال کئے ہیں لیکن کچھ یوں کہ قاری کو کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس تحریر میں زیادہ سے زیادہ بتانے کے خواہاں ہیں۔ وہ شخصیت کو حالات و واقعات کے ذریعے اور پھراپنی آٹو گراف البم میں موجود اُس کی تحریر کے مخصوص حوالے سے سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح اُن کی تحریر شناسی کی اضافی خوبی بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ایک ایک نقطے کا تجزیہ کرکے اس کی روشنی میں شخصیت کے خدوخال نمایاں کئے ہیں۔ حسرت موہانی کی شخصیت کا اُن کی تحریر کی روشنی میں تجزیہ کچھ یوں بنتا ہے۔
” فقیر کے نقطے نہیں اور موہانی تو صرف شوشے دار نصف دائرہ اور ایک ٹیڑھی لکیر ہے۔ نکتے نہ سہی وہ شخص نکتہ سنج تو تھا ۔لکیر سیدھی نہ سہی وہ خود تو ساری عمر صراط مستقیم پر چلتا رہا ۔ دستخط بد خط سہی وہ شاعر تو خوش نواں تھا۔ اُس نے اپنے نام کے ساتھ فقیر لکھا ہے۔اوریہ بات برحق ہے۔
قحط الرجال میں شامل تمام شخصی خاکوں میں موجود ہر فرد کے ساتھ مصنف اپنا ذہنی اور جذباتی احساس وابستہ کر دیتے ہیں۔ مثلاً ابولکلام آزاد اُن کے نفرت کے احساس کا نام ہے۔ مولانا حسرت موہانی ایک طرز زندگی ، بہادر یا ر جنگ ایک تحریک اور قائداعظم سرتاپا محبت کا احساس ہے۔ اگرچہ پوری کتا ب میں قائداعظم کا ذکر نہایت کفایت لفظی سے لیا گیا ہے۔ لیکن پوری کتاب اُن کی شخصیت کی خوشبو سے رچی بسی ہے۔ مختار مسعود شخصیت نگاری کے وقت روایتی انداز سے ہٹ کر شخصیت کے ظاہر ی خدوخال اور اہم واقعات زندگی کو ڈرامائی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ مثلاًقائداعظم کی ذاتی زندگی کا تعارف انتہائی مختصر اور چونکا دینے والا ہے۔ مگر اتنا پر تاثیر کہ اس سے بہتر طور پر پیش کرنے کا سوچا نہیں جا سکتا ۔ مختار مسعود لکھتے ہیں،
”اُس کی ذاتی زندگی میں بڑی تنہائی تھی ۔ بیگم اُس کی زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئی اور بہت جلد نکل گئی۔ دوست بہت کم اور اولاد واحد عاق ۔ زندگی کی تما م آسائشیں اُسے حاصل تھی اور عمر ساٹھ برس کی تھی۔“
مختار مسعود الفاظ کے حسن اور ان کے معنوی اثر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس لئے الفاظ کے استعمال میں بے حد احتیاط برتتے ہیں۔ ایک ایک لفظ ناپ تو ل کر استعمال کرتے ہیں۔ جسے کوئی آئین ساز کسی قوم کا آئین مرتب کر ہا ہو اور اسے خطر ہ ہو کہ ایک لفظ کا غلط استعمال مستقبل میں ملکی اور قومی سطح پر بے شمار پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ ”آواز دوست“ کے فقروں کو جتنی بار انہوں نے خراد پر چڑھایا ہے۔ اتنی بار کسی بھی نثر نگار نے نہیں چڑھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں جو بندھ گیا سو موتی والا معاملہ نہیں بلکہ جو بندھے وہ موتی والا قصہ ہے۔

” ہال ہجوم او ر ہجوم جذبات سے بھرا ہوا تھا۔“

مختار مسعود کو جزئیات نگاری کا بے حد شوق ہے۔ ان کا یہ شوق عشق کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ جزئیات نگاری کا کمال ”مینار پاکستان“ کے علاوہ ”قحط الرجال“ میں شخصیات کی کردار نگاری کے وقت اپنے اوج کمال پر ہے اور ان کے مشاہدے کی گہرائی اور بیان کی قدرت پررشک آتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شو آف Show offکر رہا ہے اور اپنی علمیت اور ذہانت کا رعب ڈال رہا ہے۔قائداعظم کے بارے میں لکھتے ہیں،
” روشن بیضوی چہرہ، چمکدار آنکھیں اور گونج دار آواز ، کم گو اور کم آمیز خاموشی میں باوقار گفتگو میں بارعب۔“
مجموعی جائزہ:۔
مختار مسعود کا کمال ِفن قابل رشک ہے۔ انہوں نے خود اپنی تحریر میں ایک جگہ بری کتابوں کے بارے میں کہا ہے کہ،
” رزق نہیں کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔“
اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ کتابیں ”آواز دوست “ جیسی ہوتی ہیں کہ جن کوپڑھنے سے پرواز میں بلندی ، ذہن میں وسعت ، قلب میں گہرائی اور ذائقوں میں حلاوت گھلتی جاتی ہے۔ دراصل آواز دوست وہ آئینہ ہے جس میں ہماری ایک پوری نسل اپنی اجتماعی شکل دیکھ سکتی ہے۔ مصنف کا انداز بیان اور اسلوب ایک خاص ذوق سلیم کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عام قاری کے لئے نہیں ہے بلکہ قاری کو بلند سطح پر لانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کتاب میں تاریخ فلسفہ اور انسانی نفسیات جیسے علوم کا پختہ شعور ملتا ہے ۔ ایک عظیم فن پار ے میں فن اور فکر کا تواز ن ہونا چاہیے وہی اس کتاب کی خاص خوبی ہے۔ بلاشبہ اردو ادب میں اس پائے کی تحریریں نادر و نایاب ہیں۔
 
Top