مینارِ قراردادِ پاکستان کی مجلسِ تعمیر کی نشست تھی ، میز کے اِرد گِرد تمام اراکین جمع تھے ، میں آج ان میں پہلی بار شامل ہوا تھا ۔ کارروائی کی پہلی شِق غور کے لئے پیش ہوئی ، میرا ذہن اس وقت برنارڈ شا کے اس مقولے پر عمل کرنے میں مصروف تھا کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیں مِل جائیں اُسے خوش بختی کہتے ہیں ۔ مَیں بلحاظِ عہدہ اس مجلس کی صدارت کر رہا ہوں مگر عُہدے کو ایک عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے ۔ میرے عُہدے کا تعلق تعمیر سے ہے ، میرے عہد کا تعلق تحریک سے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اِسے سنگ و خشت کی بجائے جہانِ نو کی تعمیر اور افکارِ نو کی تعبیر سمجھا ۔ میں نے اس تعمیر کو باالفاظِ اقبال جلوہ گہِ جبرئیل جانا اور سوچا:
با کہ گویم سرِّ ایں معنی کہ نورِ روئے دوست
[align=left:7bbebe3729]با دماغِ من گل و با چشمِ موسٰے آتشست[/align:7bbebe3729]
[align=left:7bbebe3729]عرفی[/align:7bbebe3729]
مینار کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں جب میرا اس کی تعمیر سے کوئی سرکاری تعلق نہ تھا ، میں محض تعلقِ خاطر کے واسطہ سے وہاں جا پہنچا ۔ بنیادیں بھری جا چکی تھیں ، باغ میں ہر طرف ملبہ پھیلا ہوا تھا ، مینار بُلندی کی طرف مائل تھا ، روکار بانسوں کی باڑ میں یُوں چُھپی ہوئی تھی کہ عمارت تو نظر نہ آئی مگر اُردو شاعری میں چلمن کا مقام مجھ پر واضح ہو گیا ۔ نزدیک جانا چاہا تو چوکیدار نے سختی سے روک دیا ۔ یہ تو اس چوکیدار کا ہمسر نکلا جسے مولوی عبدالحق نے وائسرائے کو ٹوک دینے پر آثارِ قدیمہ سے نکال کر چند ہم عصروں میں شامل کر لیا تھا ۔ اب کہاں روز روز عبدالحق پیدا ہوں گے اور کسے فرصت ہوگی کہ عصرِ نو کے ملبے میں عزّتِ نفس کی تلاش کرے اور ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مضمون لکھا کرے ۔ میں نے چوکیدار سے پوچھا، یہ کیا بن رہا ہے ؟ کہنے لگا یادگار بن رہی ہے ۔ آج جب کارروائی کے لئے پہلا مسئلہ درپیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجئے تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے ۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا ۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے ۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا کے تصور سے جُدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا ۔ میز صاف کی گئی ، لغات کی جگہ مینارِ قراردادِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے ۔ جو تھوڑی بہت جگہ بچ گئی اس میں چائے کی پیالیاں سجائی گئیں ۔ چائے شروع ہوئی تو بات بہت دُور جانکلی ۔
کہتے ہیں جب اہرامِ مصر کا ماہر موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیے ۔ پھر اس نے بھربھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیے ۔ جب دُھوپ میں ریت کے ذرّے چمکنے لگے تو اسے خیال آیا کہ اس کی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کر لے تو کیا اچھا تقابل ہوگا ۔ ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کر دیے ۔ اتنے فیصلے کرنے کے بعد بھی اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنا دے ۔ اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائبِ عالم کی فہرست میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
اہرام کے معمار کو اگر اقبال پارک میں لا کھڑا کرتے تو اسے نجانے کیا کچھ نظر آتا اور وہ اس عمارت کو نہ معلوم کیا شکل دیتا ۔ اس کی غیر حاضری میں ہمیں یہ طے کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ قرار دادِ پاکستان کو علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے ۔ باغ ، جھیل ، فوّارے ، مسجد ، کتب خانہ ، عجائب گھر ، ہال ، ہسپتال ، دروازہ ، درس گاہ یا مینار ۔ فہرست کچھ اس قسم کی بنی تھی اور بحث و تمحیص کے بعد کامیابی کا سہرا سرِّمینار سجایا گیا ۔ موقع و محل کی نسبت ہو یا صورت و ساخت کی نسبت ، ماہرین کا متفق ہونا ممکن نہیں ۔ اقبال پارک کے مشرق اور شمال میں وسعت اور ہریالی ، مغرب میں ایک محلہ ، کچھ جھگیاں اور گندہ نالہ ، جنوب میں قلعہ ، گوردوارہ اور مسجد عالمگیری واقع ہے ۔ سطح زمین سے دیکھا جائے تو تین سفید بیضوی نوک دار گنبد اور چار بُلند سُرخ پہلو دار مینار اس قطعے پر حاوی ہیں ۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو اندرونِ شہر ، دریائے راوی اور جہانگیر کے مقبرے کے چار مینار بھی اس منظر کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ آٹھ میناروں کے ہوتے ہوئے نویں مینار کا اضافہ کسی نے حُسن جانا اور کسی نے بدذوقی ۔ اس بات کو البتہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمارت اپنی نسبت کی حیثیت سے منفرد ہے ۔ دنیا میں کہیں کسی قرارداد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں منائی گئی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کر دیا جائے ۔