آٹھ سال بعد

محمد وارث

لائبریرین
یہ تحریر کل اپنے بلاگ پر لکھی تھی، یہاں محفل کے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کر رہا ہوں،گو کہ دونوں جگہ دوست ایک ہی ہیں :)

-----------------

“سَر، وہ دراصل میری فیملی میں ایک شادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں وہ مَنڈے کو چُھٹی پر پوں۔۔۔۔۔۔”

“ہیں، اوہ ٹھیک ہے۔”

“تھینک یو، سر”

“ہاں وہ اپنے کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

“جی سر، ضرور”

اسطرح اور اس سے ملتے جلتے نہ جانے کتنے مکالمے ہونگے جو میرے اور میرے باس یا میرے اور میرے کسی ماتحت کے درمیان پچھلے بارہ سالوں میں ہوئے ہیں۔

دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کامل آٹھ سال بعد، پچھلے اتوار کو میں نے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کی ہے اور وہ بھی باامر مجبوری، کیا کرتا کہ گھر میں شادی تھی۔ مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی نومبر 2000 میں ہوئی تھی اور اب اس سے چھوٹے کی۔

تقریبات میں شرکت کرنے سے اور گھر سے باہر نکلنے میں میری جان جاتی ہے، جنازے وغیرہ تو پھر چند ایک پڑھ لیے ہیں لیکن شادی کی تقریبات کے بارے میں میں یہی سوچتا ہوں کہ وہاں میرے نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میرے والد صاحب مرحوم میری اس عادت سے بہت نالاں تھے اور اب زوجہ محترمہ لیکن کچھ عادات بڑی مشکل سے تبدیل ہوتی ہیں سو آپ کے ارد گرد رہنے والوں کو ان سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔

خیر، بات چھٹی سے ذہن میں آئی تھی کہ اس دفع جب حقیقتاً دفتر سے چھٹی لینی پڑی تو عجیب سا احساس ہوا۔ سرکاری دفاتر کے متعلق تو میرا علم بس شنیدہ ہے لیکن پرائیوٹ نوکری میں “چھٹی مافیا” کے متعلق میرا علم حق الیقین کے درجے پر ہے۔ زندگی کے اس رخ میں مشقت زیادہ ہے اور چھٹی کرنا ایک نازیبا اور غیر پیشہ وارانہ حرکت تصور ہوتی ہے اور اسی وجہ سے پرائیوٹ نوکری میں آرام سے چھٹی حاصل کر لینا ایک “آرٹ” تصور ہوتا ہے اور ہزاروں لطائف بھی لوگوں کو یاد ہونگے۔

بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چھوڑیئے، چھوٹی اور درمیانی درجے کی پاکستانی اور پھر ہمارے شہر سیالکوٹ کی تمام کمپنیوں میں اپنے ملازمین کو انکی سالانہ چھٹیاں دینا یا چھٹی نہ کرنے پر ان کو ان چھٹیوں کے پیسے دینا خال خال نظر آتا ہے جسکا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ بہانے بازی سے چھٹیاں حاصل کی جاتی ہیں۔

بہرحال، شادی کی گہما گہمی نے چند دن تک کافی تنگ کیے رکھا، نہ وہ تنہائی میسر تھی اور نہ وہ کنارِ کتب، دعا تو یہی کر رہا ہوں کہ مزید آٹھ سال بغیر کسی تقریب کے گزر جائیں لیکن پھر اس بیچارے غریب چوتھے بھائی کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے جسکی شادی شاید چند ماہ کے دوران متوقع ہے۔

ع - مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
 
وارث بھائی یہ شادی کی تقریبات تو واقعی میرے لئے بھی جان لیوا ہیں۔ اور مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پچھلے نو یا دس سالوں میں کبھی کسی بارات میں شرکت کی ہو۔ خیر بارات سے کنارہ کشی تو اس کے بیہودہ ترین رسم کرنے کے باعث کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ چار سال قبل اپنے بڑے بھائی کی شادی میں بھی نہیں۔
 
ہاں یہ تسلیم ہے کہ اس قدر غیر سوشل ہونا بھی غیر مناسب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ،

ایک نواب صاحب کو جب کبھی اعزہ کے یہاں سے ایسی کسی تقریب میں شرکت کی دعوت آتی تو کہتے اما میاں ہم اتنے مصروف ہوتے ہیں (سارہ دن بس حقے سے شغل رہتا) ہم سے کہاں شامل ہونا ہو سکے گا، آپ ایسا کریں کہ یہ میری جوتیاں لیتے جائیں اور تقریب کے دن کسی تخت پر رکھوا دین کہ لوگوں کو میری موجودگی کا احساس رہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ان کی بھی ایک بیٹی تھی جس کی کچھ عرصہ بعد شادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تعبیر

محفلین
کچھ وقت سے میں بھی پتہ نہیں کیوں اینٹی سوشل ہو گئی ہوں ۔

ویسے وارث جی یہاں معاملہ الٹا ہے کہ میں پچھلے تین کم آٹھ سال بعد ایسی ہوئی ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
ہاں یہ تسلیم ہے کہ اس قدر غیر سوشل ہونا بھی غیر مناسب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ،

ایک نواب صاحب کو جب کبھی اعزہ کے یہاں سے ایسی کسی تقریب میں شرکت کی دعوت آتی تو کہتے اما میاں ہم اتنے مصروف ہوتے ہیں (سارہ دن بس حقے سے شغل رہتا) ہم سے کہاں شامل ہونا ہو سکے گا، آپ ایسا کریں کہ یہ میری جوتیاں لیتے جائیں اور تقریب کے دن کسی تخت پر رکھوا دین کہ لوگوں کو میری موجودگی کا احساس رہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ان کی بھی ایک بیٹی تھی جس کی کچھ عرصہ بعد شادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی لیئے تو قبلہ ہم نے بھی شرکت کر لی اس تقریب میں :)
 

مغزل

محفلین
وارث صاحب ۔۔ چلیے یہ حجت بھی تما م ہوئی کہ آپ گھر سے باہر نکلے تو۔
اب جلد کراچی کا سفر بھی اختیار کرلیں۔۔ وگرنہ بندہ حاضر تو ہوہی جائے گا
کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 
Top