شہید میجر عابد محمود۔ان کانوائے سوات جاتے ہوئے ایک ایمبش کی زد میں آیا۔آخری گاڑی پر فائرنگ کی گئی جبکہ میجر عابد پہلی گاڑی میں تھے۔جب ایمبش شروع ہوا تو کنوائے رکا مگر اس وقت تک بھاری فائرنگ شروع ہو چکی تھی اور پیچھے رہ جانے والی گاڑی میں موجود 2 جوانوں کو نکالنا ناممکن تھا جو زخمی تھے اس دوران میجر عابد نے اپنے جوانوں کو شدید فائرنگ کا آرڈر دیا ۔ اپنی کمپنی کے جوانوں کو سختی سے حکم دیا کہ کوئی ان کے پیچھے نا آئے کیوں کہ کھلے میدان میں گولی لگنا یقینی تھا کیونکہ طالبان پہاڑوں پر تھے اور کانوائے نیچے سڑک پراور اس گولیوں کی بارش میں پیچھے کی طرف بھاگے آخری گاڑی کی طرف پانی اور فرسٹ ایڈ بکس لے کر ۔اور جب وہ پہنچے دونوں جوان سپاہی نوشیروان اور سپاہی طارق زخمی تھے ان کو پانی پلایا اور ان کی بینڈیج کی تا کہ خون رک سکے اور یک جوان کو اٹھا کر اسی گولیوں کی بارش میں واپس لائے اور دوسرے جوان کو لانے کے لیے جب دوبارہ واپس بھاگ رہے تھے اسی دوران ان کو 2 گولیاں لگیں اور وہ گر گئے۔اور اسی کانوائے میں ان کے بھائی میجر خالد محمود کو وائرلیس پر کہا جو 100 میٹر دور
تھے''' بھائی جو میں دے سکتا تھا دے دیا ،ماں کاخیال رکھنا اوراورکسی صورت اپنا کام نا روکنا یہاں تک کے آخری شدت پسند نا رہے۔میں امید کرتا ہوں تم مینگورہ پہنچو گے اور اسے شدت پسندوں سے خالی دیکھو گے''''' اور میجر عابد شہید ہو گئے ۔انااللہ و انا الیہ راجعون
ان کی والدہ اور بیوہ یونیفارم وصول کرتے ہوئے