ایم اسلم اوڈ
محفلین
ہم جانتے ہیں کہ آپ ایک مکار شکاری ہیں۔ آپ پرندوں کا نہیں بلکہ انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔ قتل بھی کرتے ہیں اور پھر مقتول کی لاش پر آنسو بھی بہاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ ایک خود غرض اور بددیانت بیوپاری ہیں۔ مکار شکاری اور خود غرض بیوپاری ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک نفسیاتی بیماری بھی ہے۔ اس نفسیاتی بیماری کا نام اذیت پسندی ہے۔ آپ دشمنوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہیں رکھتے لیکن اپنوں کو اذیت دیکر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی بیماری کے باعث برداشت اور رواداری آپ سے کوسوں دور جا چکی ہے۔ دشمنوں کی طاقت کے بل بوتے پر آپ اپنے پرانے دوستوں اور خیر خواہوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دینے پر تلے بیٹھے ہیں حالانکہ پہلے ہی آپ پر قتل کے کئی الزمات ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ پر ہمیشہ اپنوں کو قتل کرنے کا الزام لگتا ہے کبھی کسی دشمن کو قتل کرنے کا الزام آپ کے قریب سے بھی نہ گزرا۔
ہم آپ کو آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جانتے ہیں۔ آپ اس ملک کے حکمران ہیں اور ہم آپ کے عوام ہیں۔ آپ کا کام لوٹنا اور بدقسمتی سے ہمارا کام صرف لٹنا ہے۔ آپ ہمیں قتل کرتے ہیں اور پھر ہماری ہی لاشوں پر آنسو بہا کر مظلوم بھی بن جاتے ہیں۔ کبھی آپ فوجی جرنیلوں اور بیوروکریسی کے ساتھ مل کر ہمارا استحصال کرتے ہیں اور کبھی آپ ججوں کے ساتھ مل کر ظلم کا بازار گرم کر دیتے ہیں اور اگر کوئی جج انصاف کا پرچم بلند کر دے تو وہ آپ کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے جج کی حمایت کرنے والا صحافی یا اخبار آپ کی طرف سے ملک دشمن اور کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ یہ کام آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے کر رہے ہیں۔ 25 دسمبر 1952ءکو کراچی کے ایک اخبار ایوننگ ٹائمز نے یوم قائد اعظم پر ایک ادایہ اور کارٹون شائع کیا جس میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی مذمت کی گئی تھی۔
حکومت وقت نے اخبار کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری، پرنٹر خورشید عالم اور کارٹونسٹ این ایم کٹپال کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس نے ان گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھائی لیکن حکومت نے اس آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے اخبارات پر دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کا الزام لگا دیا۔ 9 جنوری 1953ءکو کراچی اور لاہور کے 17/ اخبارات کے ایڈیٹروں نے حکومتی رویے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا جس پر پہلی دفعہ ملک بھر کے اخبارات نے ایک دن کے لئے اپنی اشاعت معطل کی۔ اسی سال تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے اخبار ”زمیندار“ پر بھی پابندی لگائی گئی اور ”زمیندار“ کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان پر وہی الزامات لگائے گئے جن الزامات کے تحت برطانوی حکومت 1947ءسے پہلے ان کا اخبار بند کیا کرتی تھی۔پاکستان کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صحافت کے طلبہ و طالبات کے سامنے آج بھی جن صحافیوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے ان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کے نام سرفہرست ہیں۔ ان سب کو برطانوی سامراج کے باغی قرار دیا تھا۔
مولانا ظفر علی خان کو جدید ”پاپولر جرنلزم“ کے بانی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1911ءسے 1947ءتک مولانا ظفر علی خان کو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا اور کئی مرتبہ ان کے اخبار کی اشاعت معطل ہوئی۔ ایک دفعہ پنجاب کے گورنر مائیکل ایڈوائر نے تاج برطانیہ کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ظفر علی خان اور محمد علی جوہر ماں کے پیٹ سے بغاوت کا قلم لے کر نکلے ہیں انگریز دشمنی ان کی فطرت میں شامل ہے لہٰذا ان دونوں کو گرفتار کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک دفعہ مائیکل ایڈوائر نے ظفر علی خان کی ہسٹری شیٹ تیار کروائی جس میں کہا گیا کہ آتش مزاج ظفر علی خان نے 1912ءمیں ترکوں کے لئے چندہ اکٹھا کیا اور رقم دینے خود استنبول گیا، پریس ایکٹ کے تحت کئی مرتبہ اسکا اخبار زمیندار بند کیا گیا لیکن ہر پابندی کے بعد ظفر علی خان کا انداز پہلے سے زیادہ باغپانہ ہو گیا اور تاج برطانیہ کے خلاف ظفر علی خان کی سازشوں میں مزید تیزی آگئی۔ شاید انگریزوں کی یہی نفرت تھی جس کے باعث مولانا ظفر علی خان کو قائد اعظم کی نظروں میں بڑی عزت حاصل تھی۔
ظفر علی خان نے غیر جانبدارانہ صحافت نہیں کی بلکہ سچی صحافت کی۔ انہوں نے ہمیشہ سچ کو سچ لکھاکبھی سچ میں جھوٹ ملا کر توازن پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کا یہ انداز قائم رہا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد حکمران طبقے کو ظفر علی خان جیسے صحافیوں کی حق گوئی سے ملک دشمنی کی بو آنے لگی اور 1953ءمیں کئی دیگر اخبارات و جرائد کی طرح ”زمیندار“ بھی بند کر دیا گیا جس کے بعد آتش مزاج ظفر علی خان لاہور سے کرم آباد چلے گئے جو ان کا آبائی قصبہ تھا اور یہیں 27 نومبر 1956ءکو جدید ”پاپولر جرنلزم“ کا بانی انتقال کر گیا۔ ایک ظفر علی خان کرم آباد میں دفن ہو گیا لیکن پاکستانی صحافت نے کئی ظفر علی خان پیدا کر دیئے اور یہ ظفر علی خان تاج برطانیہ کی سوچ کے علمبردار پاکستان کے حکمران طبقے کے دل میں ہمیشہ کانٹا بن کر کھٹکتے رہے۔ جو الزامات مائیکل ایڈوائر ہمارے بزرگوں پر لگایا کرتا تھا آج وہی الزامات آپ ہم پر لگاتے ہیں۔
ہمیں ظفر علی خان ہونے کے دعویٰ تو نہیں لیکن ظفر علی خان ہمارے لئے مثال ضرور ہیں۔ظفر علی خان ان ہزاروں طلبہ و طالبات کے لئے آج بھی مثال ہیں اور آئندہ بھی مثال بنے رہیں گے جو درس گاہوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ظفر علی خان نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد کبھی غیر جانبدارانہ صحافت نہیں کی۔ انہوں نے جھوٹ کے مقابلے پر سچ اور ظالم کے مقابلے پر مظلوم کا ساتھ دیا۔ انہوں نے صرف اور صرف سچی صحافت کی۔ آج کچھ مفاد پرستوں اور ضمیر فروشوں نے صحافت کے نام کو بدنام ضرور کیا ہے لیکن نوجوانوں کی بڑی تعداد مولانا ظفر علی خان کے راستے پر چلنے کی متمنی ہے اور شاید انہی نوجوانوں کے دم سے پاکستانی میڈیا بدستور عام آدمی کے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ وہ میڈیا جو عوام کے لئے امید ہے وہی میڈیا حکمرانوں کے لئے مایوسی کا باعث ہے کیونکہ یہ میڈیا حکمران طبقے کی کرپشن اور نااہلی کو بے نقاب کر رہا ہے۔
آج ہماری سیاست کے تمام مکار شکاری اور خود غرض بیورپاری ایک نئی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو رہے اور وہ ہے آزاد میڈیا کا خوف۔ آزاد میڈیا کے خوف میں مبتلا مکار شکاری نئی نئی سازشوں میں مصروف ہیں، میڈیا کے خلاف وہی الزامات گھڑے جا رہے ہی جو مائیکل ایڈوائر نے ظفر علی خان پر لگائے تھے لیکن ہم گھبرانے والے نہیں، ہم ظفر علی خان کی طرح تم سے لڑیں گے اور آخر کار تم بھی مائیکل ایڈوائر اور پرویز مشرف کی طرح لندن بھاگ جاوگے لیکن ہمیں یہیں رہنا ہے، اپنوں کے درمیان۔
http://www.karachiupdates.com/v2/in...-45-55&catid=63:2009-07-31-13-36-49&Itemid=15
ہم آپ کو آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جانتے ہیں۔ آپ اس ملک کے حکمران ہیں اور ہم آپ کے عوام ہیں۔ آپ کا کام لوٹنا اور بدقسمتی سے ہمارا کام صرف لٹنا ہے۔ آپ ہمیں قتل کرتے ہیں اور پھر ہماری ہی لاشوں پر آنسو بہا کر مظلوم بھی بن جاتے ہیں۔ کبھی آپ فوجی جرنیلوں اور بیوروکریسی کے ساتھ مل کر ہمارا استحصال کرتے ہیں اور کبھی آپ ججوں کے ساتھ مل کر ظلم کا بازار گرم کر دیتے ہیں اور اگر کوئی جج انصاف کا پرچم بلند کر دے تو وہ آپ کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ ایسے جج کی حمایت کرنے والا صحافی یا اخبار آپ کی طرف سے ملک دشمن اور کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ یہ کام آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے کر رہے ہیں۔ 25 دسمبر 1952ءکو کراچی کے ایک اخبار ایوننگ ٹائمز نے یوم قائد اعظم پر ایک ادایہ اور کارٹون شائع کیا جس میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی مذمت کی گئی تھی۔
حکومت وقت نے اخبار کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری، پرنٹر خورشید عالم اور کارٹونسٹ این ایم کٹپال کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس نے ان گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھائی لیکن حکومت نے اس آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے اخبارات پر دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کا الزام لگا دیا۔ 9 جنوری 1953ءکو کراچی اور لاہور کے 17/ اخبارات کے ایڈیٹروں نے حکومتی رویے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا جس پر پہلی دفعہ ملک بھر کے اخبارات نے ایک دن کے لئے اپنی اشاعت معطل کی۔ اسی سال تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے اخبار ”زمیندار“ پر بھی پابندی لگائی گئی اور ”زمیندار“ کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان پر وہی الزامات لگائے گئے جن الزامات کے تحت برطانوی حکومت 1947ءسے پہلے ان کا اخبار بند کیا کرتی تھی۔پاکستان کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صحافت کے طلبہ و طالبات کے سامنے آج بھی جن صحافیوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے ان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان کے نام سرفہرست ہیں۔ ان سب کو برطانوی سامراج کے باغی قرار دیا تھا۔
مولانا ظفر علی خان کو جدید ”پاپولر جرنلزم“ کے بانی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1911ءسے 1947ءتک مولانا ظفر علی خان کو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا اور کئی مرتبہ ان کے اخبار کی اشاعت معطل ہوئی۔ ایک دفعہ پنجاب کے گورنر مائیکل ایڈوائر نے تاج برطانیہ کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ظفر علی خان اور محمد علی جوہر ماں کے پیٹ سے بغاوت کا قلم لے کر نکلے ہیں انگریز دشمنی ان کی فطرت میں شامل ہے لہٰذا ان دونوں کو گرفتار کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک دفعہ مائیکل ایڈوائر نے ظفر علی خان کی ہسٹری شیٹ تیار کروائی جس میں کہا گیا کہ آتش مزاج ظفر علی خان نے 1912ءمیں ترکوں کے لئے چندہ اکٹھا کیا اور رقم دینے خود استنبول گیا، پریس ایکٹ کے تحت کئی مرتبہ اسکا اخبار زمیندار بند کیا گیا لیکن ہر پابندی کے بعد ظفر علی خان کا انداز پہلے سے زیادہ باغپانہ ہو گیا اور تاج برطانیہ کے خلاف ظفر علی خان کی سازشوں میں مزید تیزی آگئی۔ شاید انگریزوں کی یہی نفرت تھی جس کے باعث مولانا ظفر علی خان کو قائد اعظم کی نظروں میں بڑی عزت حاصل تھی۔
ظفر علی خان نے غیر جانبدارانہ صحافت نہیں کی بلکہ سچی صحافت کی۔ انہوں نے ہمیشہ سچ کو سچ لکھاکبھی سچ میں جھوٹ ملا کر توازن پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کا یہ انداز قائم رہا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد حکمران طبقے کو ظفر علی خان جیسے صحافیوں کی حق گوئی سے ملک دشمنی کی بو آنے لگی اور 1953ءمیں کئی دیگر اخبارات و جرائد کی طرح ”زمیندار“ بھی بند کر دیا گیا جس کے بعد آتش مزاج ظفر علی خان لاہور سے کرم آباد چلے گئے جو ان کا آبائی قصبہ تھا اور یہیں 27 نومبر 1956ءکو جدید ”پاپولر جرنلزم“ کا بانی انتقال کر گیا۔ ایک ظفر علی خان کرم آباد میں دفن ہو گیا لیکن پاکستانی صحافت نے کئی ظفر علی خان پیدا کر دیئے اور یہ ظفر علی خان تاج برطانیہ کی سوچ کے علمبردار پاکستان کے حکمران طبقے کے دل میں ہمیشہ کانٹا بن کر کھٹکتے رہے۔ جو الزامات مائیکل ایڈوائر ہمارے بزرگوں پر لگایا کرتا تھا آج وہی الزامات آپ ہم پر لگاتے ہیں۔
ہمیں ظفر علی خان ہونے کے دعویٰ تو نہیں لیکن ظفر علی خان ہمارے لئے مثال ضرور ہیں۔ظفر علی خان ان ہزاروں طلبہ و طالبات کے لئے آج بھی مثال ہیں اور آئندہ بھی مثال بنے رہیں گے جو درس گاہوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ظفر علی خان نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد کبھی غیر جانبدارانہ صحافت نہیں کی۔ انہوں نے جھوٹ کے مقابلے پر سچ اور ظالم کے مقابلے پر مظلوم کا ساتھ دیا۔ انہوں نے صرف اور صرف سچی صحافت کی۔ آج کچھ مفاد پرستوں اور ضمیر فروشوں نے صحافت کے نام کو بدنام ضرور کیا ہے لیکن نوجوانوں کی بڑی تعداد مولانا ظفر علی خان کے راستے پر چلنے کی متمنی ہے اور شاید انہی نوجوانوں کے دم سے پاکستانی میڈیا بدستور عام آدمی کے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ وہ میڈیا جو عوام کے لئے امید ہے وہی میڈیا حکمرانوں کے لئے مایوسی کا باعث ہے کیونکہ یہ میڈیا حکمران طبقے کی کرپشن اور نااہلی کو بے نقاب کر رہا ہے۔
آج ہماری سیاست کے تمام مکار شکاری اور خود غرض بیورپاری ایک نئی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو رہے اور وہ ہے آزاد میڈیا کا خوف۔ آزاد میڈیا کے خوف میں مبتلا مکار شکاری نئی نئی سازشوں میں مصروف ہیں، میڈیا کے خلاف وہی الزامات گھڑے جا رہے ہی جو مائیکل ایڈوائر نے ظفر علی خان پر لگائے تھے لیکن ہم گھبرانے والے نہیں، ہم ظفر علی خان کی طرح تم سے لڑیں گے اور آخر کار تم بھی مائیکل ایڈوائر اور پرویز مشرف کی طرح لندن بھاگ جاوگے لیکن ہمیں یہیں رہنا ہے، اپنوں کے درمیان۔
http://www.karachiupdates.com/v2/in...-45-55&catid=63:2009-07-31-13-36-49&Itemid=15