فاتح
لائبریرین
غالب اپنا تو عقیدہ ہے بقولِ ناسخ
"آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں"
بچپن میں جب غالب کا یہ شعر پڑھا تو خیال آیا کہ شاید ناسخ بھی کوئی شاعر گزرا ہے۔ اس کے بعد سالہا سال تک ناسخؔ کا صرف ایک یہی مصرع پڑھا جو غالب نے اپنے شعر میں برتا۔"آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں"
مجلس ترقی ادب لاہور کی مطبوعہ کلیاتِ ناسخ گھر میں پڑی تھی تو سوچا کیوں نہ اس میں وہ غزل تلاش کی جائے جس کا مصرع غالب نے استعمال کر کے امر کر دیا ہے۔ اسی تلاش کے نتیجے میں یہ غزل ملی اور ٹائپ کر کے محفل میں ارسال کر رہا ہوں۔
قابلِ روح سبک رَو بدنِ پیر نہیں
ایک دم ساکنِ آغوشِ کماں تیر نہیں
تیرے ابرو سے مہِ نو کی جو شمشیر نہیں
ترکشِ مہر میں بھی مثلِ مژہ تیر نہیں
خط نمایاں نہ ہو یا رب رخِ جاناں پہ کبھی
یہ وہ مصحف ہے جسے حاجتِ تفسیر نہیں
ایک کو عالمِ حسرت میں نہیں ایک سے کام
شمعِ تصویر سے روشن شبِ تصویر نہیں
سایہ ساں دھوپ ہے تیرہ ترے سائے کے حضور
نقشِ پا سے کہیں خورشید میں تنویر نہیں
تیری شمشیر سے جب تک یہ جما ہے قاتل
خوں ہمارا عرضِ جوہرِ شمشیر نہیں
مرتے ہیں آپ گلا کاٹ کے عاشق اُس پر
یہ دلا! ابروئے خمدار ہے، شمشیر نہیں
سر و ساماں ہو بہم زیرِ فلک، مشکل ہے
سر مرا ہے تو کفِ یار میں شمشیر نہیں
ایک عالم ہے تری نیچی نگاہوں کا شہید*
خمِ گردن کے برابر خمِ شمشیر نہیں
بے دہن بات مسیحا سے بھی ہوتی نہ کبھی
قدرتِ حق ہے یہ اے بت تری تقدیر نہیں
ہے صنم رشکِ طلا رنگ سنہرا تیرا
خاک کے سامنے کچھ رتبۂ اکسیر نہیں
کر دیا ہے اسی حسرت نے مجھے دیوانہ
ہاتھ میں یار کے دروازے کی زنجیر نہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
شیخ امام بخش ناسخؔ
مطبع خاص نولکشور 1872 ء
* کلیات ناسخ، نسخہ مصطفائی طبع اول و دوم، مطبع مہدی میں یہ مصرع یوں درج ہے: "ایک عالم ہے تری نیچی نگاہوں سے شہید"
ایک دم ساکنِ آغوشِ کماں تیر نہیں
تیرے ابرو سے مہِ نو کی جو شمشیر نہیں
ترکشِ مہر میں بھی مثلِ مژہ تیر نہیں
خط نمایاں نہ ہو یا رب رخِ جاناں پہ کبھی
یہ وہ مصحف ہے جسے حاجتِ تفسیر نہیں
ایک کو عالمِ حسرت میں نہیں ایک سے کام
شمعِ تصویر سے روشن شبِ تصویر نہیں
سایہ ساں دھوپ ہے تیرہ ترے سائے کے حضور
نقشِ پا سے کہیں خورشید میں تنویر نہیں
تیری شمشیر سے جب تک یہ جما ہے قاتل
خوں ہمارا عرضِ جوہرِ شمشیر نہیں
مرتے ہیں آپ گلا کاٹ کے عاشق اُس پر
یہ دلا! ابروئے خمدار ہے، شمشیر نہیں
سر و ساماں ہو بہم زیرِ فلک، مشکل ہے
سر مرا ہے تو کفِ یار میں شمشیر نہیں
ایک عالم ہے تری نیچی نگاہوں کا شہید*
خمِ گردن کے برابر خمِ شمشیر نہیں
بے دہن بات مسیحا سے بھی ہوتی نہ کبھی
قدرتِ حق ہے یہ اے بت تری تقدیر نہیں
ہے صنم رشکِ طلا رنگ سنہرا تیرا
خاک کے سامنے کچھ رتبۂ اکسیر نہیں
کر دیا ہے اسی حسرت نے مجھے دیوانہ
ہاتھ میں یار کے دروازے کی زنجیر نہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
شیخ امام بخش ناسخؔ
مطبع خاص نولکشور 1872 ء
* کلیات ناسخ، نسخہ مصطفائی طبع اول و دوم، مطبع مہدی میں یہ مصرع یوں درج ہے: "ایک عالم ہے تری نیچی نگاہوں سے شہید"
آخری تدوین: