آپ وتر نماز کیسے ادا کرتے ہیں؟

فہد مقصود

محفلین
دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مسلمان نمازِ وتر مغرب کی نماز کی طرح ادا کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نمازِ وتر ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اگر کوئی عالم یا شیخ آپ کو بغیر احادیث کے نمازِ وتر بالکل نمازِ مغرب کی طرح ادا کرنے کی تلقین کرے تو ہرگز اس کی بات پر عمل نہ کیجئے۔ بلکہ تحقیق کیجئے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کیجئے۔

نماز وتر كى ادائيگى ميں افضل كيفيت كيا ہے ؟



الحمد للہ :

نماز وتر اللہ تعالى كے قرب كے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتى ہے، حتى كہ بعض علماء كرام ۔ يعنى احناف ۔ تو اسے واجبات ميں شمار كرتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ سنت مؤكدہ ميں شامل ہوتى ہے جس كى مسلمان شخص كو ضرور محافظت كرنى چاہيے، اور اسے ترك نہيں كرنا چاہيے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز وتر چھوڑنے والا شخص برا آدمى ہے، اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے"

جو كہ نماز وتر كى ادائيگى كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے.

نماز وتر كى ادائيگى كى كيفيات كا خلاصہ ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں بيان كر سكتے ہيں:

نماز وتر كى ادائيگى كا وقت:

اس كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى سے شروع ہوتا، يعنى جب انسان نماز عشاء ادا كر لے چاہے وہ مغرب اور عشاء كو جمع تقديم كى شكل ميں ادا كرے تو عشاء كى نماز ادا كرنے سے ليكر طلوع فجر تك نماز وتر كا وقت رہے گا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے تمہيں ايك نماز زيادہ دى ہے اور وہ نماز وتر ہے جو اللہ تعالى نے تمہارے ليے عشاء اور طلوع فجر كے درميان بنائى ہے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 425 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.

اور كيا نماز وتر كو اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہے يا كہ تاخير كے ساتھ ادا كرنا افضل ہے ؟

سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص رات كے آخر ميں بيدار ہونے كا طمع ركھتا ہو اس كے ليے نماز وتر ميں تاخير كرنا افضل ہے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں نماز پڑھنى افضل ہے، اور اس ميں فرشتے حاضر ہو تے ہيں، اور جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكتا تو اس كے ليے سونے سے قبل نماز وتر ادا كرنا افضل ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكے گا تو وہ رات كے اول حصہ ميں وتر ادا كر لے، اور جسے يہ طمع ہو كہ وہ رات كے آخرى حصہ ميں بيدار ہو گا تو وہ وتر رات كےآخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كردہ نماز مشھودۃ اور يہ افضل ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 755 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور يہى صحيح ہے، اور باقى مطلق احاديث كو اس صحيح اورصريح افضليت پر محمول كيا جائے گا، ان ميں يہ حديث بھى ہے:

" ميرى دلى دوست نے مجھے وصيت كى كہ ميں وتر ادا كر سويا كروں"

يہ اس شخص پر محمول ہو گى جو بيدار نہيں ہو سكتا. اھ۔

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 277 ).

وتر ميں ركعات كى تعداد:

كم از كم وتر ايك ركعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كے آخر ميں ايك ركعت وتر ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر لے جو اس كى پہلى ادا كردہ نماز كو وتر كر دے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )

لہذا جب انسان ايك ركعت ادا كرنے پر ہى اكتفا كرے تو اس نے سنت پر عمل كر ليا...

اور اس كے ليے تين اور پانچ اور سات اور نو ركعت وتر بھى ادا كرنے جائز ہيں.

اگر وہ تين وتر ادا كرے تو اس كے ليے دو طريقوں سے تين وتر ادا كرنے مشروع ہيں:

پہلا طريقہ:

وہ تين ركعت ايك ہى تشھد كے ساتھ ادا كرے. اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر كى دو ركعتوں ميں سلام نہيں پھيرتے تھے"

اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تين وتر ادا كرتے تو اس كى آخر كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے"

سنن نسائى ( 3 / 234 ) سنن بيھقى ( 3 / 31 ) امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں لكھتےہيں: امام نسائى نے حسن سند كے ساتھ اور بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھ۔

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 7 ).

دوسرا طريقہ:

وہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھير دے اور پھر ايك ركعت واتر ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دو ركعت اور اپنے وتر كے درميان سلام پھيرتے تھے، اور انہوں نے بتايا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے"

رواہ ابن حبان حديث نمبر ( 2435 ) ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ( 2 / 482 ) ميں كہتے ہيں اس كى سند قوى ہے. اھ۔

ليكن اگر وہ پانچ يا سات وتر اكٹھے ادا كرے تو صرف اس كے آخر ميں ايك ہى تشھد بيٹھے اور سلام پھير دے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے اس ميں پانچ ركعت وتر ادا كرتے اور ان ميں آخرى ركعت كے علاوہ كہيں نہ بيٹھتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 737 ).

اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانچ اور سات وتر ادا كرتے اور ان كے درميان سلام اور كلام كے ساتھ عليدگى نہيں كرتے تھے"

مسند احمد ( 6 / 290 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1714 ) نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں اس كى سند جيد ہے.

ديكھيں: الفتح الربانى ( 2 / 297 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور جب اكٹھى نو ركعت وتر ادا كرنى ہوں تو تو آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر پھر نويں ركعت كے ليے كھڑا ہو اور سلام نہ پھيرے اور نويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعات ادا كرتے اور ان ميں آٹھويں ركعت ميں بيٹھ كر اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور دعاء كرتے اور سلام پھيرے بغير اٹھ جاتے پھر اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے بيٹھتے اور اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كر كے دعاء كرتے اور پھر ہميں سنا كر سلام پھيرتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).

اور اگر وہ گيارہ ركعت ادا كرے تو پھر ہر دو ركعت ميں سلام پھيرے اور آخر ميں ايك وتر ادا كرے.

وتر ميں كم از كم اور اس ميں قرآت كيا ہو گى:

وتر ميں كم از كم كمال يہ ہے كہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھيرى جائے اور پھر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھيرے، اور تينوں كوايك سلام اور ايك تشھد كے ساتھ ادا كرنا بھى جائز ہے، اس ميں دو تشھد نہ كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

اور پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى پورى سورۃ پڑھے، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور تيسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھے.

ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر ميں سبح اسم ربك الاعلى اور قل يا ايھالكافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھا كرتے تھے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 1729 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نماز وتر كى مندرجہ بالا سب صورتيں اور كيفيات سنت ميں وارد ہيں اور اكمل يہ ہے كہ مسلمان شخص ايك ہى كيفيت ميں نماز وتر ادا نہ كرتا رہے بلكہ اسے كبھى ايك اور كبھى دوسرى كيفيت ميں نماز وتر ادا كرنى چاہيے تا كہ وہ سنت كے سب طريقوں پر عمل كر سكے.

واللہ اعلم .

نماز وتر كى وارد شدہ كيفيات - اسلام سوال و جواب
 

فہد مقصود

محفلین
نماز وتر کا مسنون طریقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز وتر کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ ایک وتر اور تین وتر دونوں میں کونسی سورت پڑھنی چاہیے ۔ ؟ عشاء کی نماز میں ایک وتر پڑھنا چاہیے یا تین؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وتر کے معنی طاق (Odd Number) کے ہیں۔ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرما یا کرتے تھے۔

آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔

ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

«الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل »صحیح ابوداود:۱۲۶۰
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ»صحیح ابن ماجہ:۹۸۰
1-تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ:«صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة»(مصنف ابن ابی شیبہ)

’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘

2- پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعة یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرها»(صحیح مسلم:۷۳۷)


3- سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:« کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام» (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘

4- نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
«ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة»


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶)

(آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔

دلیل:ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع»(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰)
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘

«اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ»(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی

نمازِ وتر ۔۔اور ۔۔ دعاءِ قنوت کا مسنون طریقہ
 

فہد مقصود

محفلین
گزارش ہے كہ آپ وتر ميں پڑھى جانے والى دعاء قنوت ذكر كر ديں ؟



الحمد للہ :

اول:

دعاء قنوت وتر كى آخرى ركعت ميں ركوع كے بعد ہوگى، اور اگر ركوع سے قبل بھى پڑھ لى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ركوع كے بعد افضل ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ فتاوى ميں كہتے ہيں:

اور رہى قنوت: تو لوگ اس ميں دو فريق اور ايك وسط طبقہ ہے، ان ميں سے كچھ تو كہتے ہيں كہ قنوت صرف ركوع سے قبل ہے، اور كچھ يہ كہتے ہيں كہ: ركوع كے بعد ہے.

اور اہل حديث كے فقھاء مثلا امام احمد وغيرہ دونوں كو جائز قرار ديتے ہيں، كيونكہ سنت ميں يہ دونوں وارد ہيں، اگرچہ انہوں نے ركوع كے بعد قنوت كواختيار كيا ہے؛ كيونكہ يہ اكثر اور اقيس ہے. اھ۔

ديكھيں مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 23 / 100 ).

اور اس ميں وہ ہاتھ اٹھائے، عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے، جيسا كہ بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كى اور اسے صحيح كہا ہے.

ديكھيں: سنن بيھقى ( 2 / 210 ).

اور دعاء كے ليے سينہ كے برابر ہاتھ اٹھائے اس سے زيادہ نہيں، كيونكہ يہ دعاء ابتھال يعنى مباہلہ والى نہيں كہ انسان اس ميں ہاتھ اٹھانے ميں مبالغہ سے كام لے، بلكہ يہ تو رغبت كى دعاء ہے، اور وہ اپنے ہاتھوں كو اس طرح پھيلائے كہ اس كى ہتھيلياں آسمان كى جانب ہوں...

اور اہل علم كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اپنے ہاتھوں كو ملا كر ركھے جس طرح كہ كوئى شخص دوسرے سے كچھ دينے كا كہہ رہا ہو.

اور بہتر يہ ہے كہ وتر ميں قنوت مسقتل نہ كى جائے، بلكہ بعض اوقات كرے كيونكہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو قنوت وتر ميں دعاء كرنے كے ليے سكھائى تھى، جيسا كہ آگے بيان ہو گا.

دوم:

اور دعاء قنوت يہ ہے:

حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قنوت وتر ميں كہنے كے ليے كچھ كلمات سكھائے:

" اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، وَإِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، وَلا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ، ولا منجا منك إلا إليك "

اے مجھے ہدايت والوں ميں ہدايت نصيب فرما، اور مجھے عافيت دے، اور ميرا كارساز بن، اور تو نے جو مجھے ديا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور جو تو نے فيصلہ كيا ہے اس كے شر سے مجھے محفوظ ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، اور جس كا تو ولى بن جائے اسے كوئى ذليل نہيں كرسكتا، اور جس كے ساتھ تو دشمنى كرے اسے كوئى عزت نہيں دے سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند ہے، اور تيرے علاوہ كہيں جائے پناہ نہيں "

اور آخرى جملہ " ولا منجا منك الا اليك " ابن مندہ نے " التوحيد" ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن قرار ديا ہے، ديكھيں: ارواء الغليل حديث نمبر ( 426 ) اور ( 429 ).

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1425 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 464 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1746 ).

پھر اس دعاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے.

ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 14 - 52 ).

سوم:

وتر ميں سلام پھيرنے كے بعد اس كے ليے " سبحان الملك القدوس " تين بار كہنا مستحب ہے، اور تيسرى بار اس كى آواز بلند اور لمبى كرے.

ديكھيں: سنن نسائى حديث نمبر ( 1699 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور دار قطنى كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:

" رب الملائكۃ والرح "

ان دونوں روايتوں كى سند صحيح ہے.

ديكھيں: زاد العماد لابن قيم ( 1 / 337 ).

واللہ اعلم .

وتر ميں دعاء قنوت - اسلام سوال و جواب
 
Top