شمشاد
لائبریرین
بادام کھانے کا طریقہ واردات کیا تھا؟دیکھا نا غلطی اپنی اور دھری آپ نے معصوم باداموں پر
میں نے پہلے ہی بتایا اپیا کہ بہت ہی تسلسل کے ساتھ کھائے تھے بادام میں نے ثابت قدمی شرط ہے
بادام کھانے کا طریقہ واردات کیا تھا؟دیکھا نا غلطی اپنی اور دھری آپ نے معصوم باداموں پر
میں نے پہلے ہی بتایا اپیا کہ بہت ہی تسلسل کے ساتھ کھائے تھے بادام میں نے ثابت قدمی شرط ہے
بادام کھانے کا طریقہء واردات یہ تھا کہ اپنی لائبریری میں چھپا کر رکھے ہوئے تھے جب کوئی کتاب پڑھی ساتھ کچھ بادام چٹ کر لیئےبادام کھانے کا طریقہ واردات کیا تھا؟
جی وہاں جانا سب کو منع ہے کسی کو کوئی کتاب چاہیئے ہو تو میں خود نکال کر دیتی ہوںاور لائبریری دوسروں کے لیے علاقہ ممنوعہ تھی کیا؟
۔۔۔ ۔ اور وہ بھی بغیر باداموں کے۔
اچھا طریقہ ہے بادام چُھپانے کا۔
اب تو جاری نہیں ہے بھیااب بھی یہ کاروائی جاری ہے یا قصہ پارینہ ہوئی؟
اللہ تعالی آپ کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے،،،آپ اپنے لیئے نہیں اپنوں کےلیئے جی رہے ہیں ۔پردیس بھی اور تنہائی بھینومبر 2011ء میں یہاں آنا ہوا۔ سال کا آغاز یوں کہوں تو تبھی شروع ہوا۔ ایکسائٹمنٹ بہت تھی۔ پردیس میں آنا اور کام کرنا، اپنی فیملی سے دور یہ سوچ کر کہ اُن کے لیے کچھ کرنے کا موقع مل رہا ہے اور اسے پوری طرح سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔
پہلے چند دن تو ہیلو ہائے میں نکل گئے۔ پھر کام سے زور پکڑا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ہمیں گھماتا رہا۔
دسمبر میں پہلی خوش خبری ملی جب آیان پیدا ہوا۔ ایک بیٹے کے باپ ہونے پہ بہت فخر محسوس ہوتا ہے ایسا لگا مجھے۔ کل 15 دسمبر کو وہ ایک سال کا ہوجائے گا۔ اب تک صرف سکائیپ پہ دیکھا یاں تصویروں میں۔
والد کی طبعیت 26 دسمبر کو خراب ہوئی، مجھے آئے ایک ماہ ہوا اور یہ خبر، دل کرتا تھا واپس لوٹ جاؤں ایسے طرح طرح کے خیالات نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔
سال کی پہلی تنخواہ جب بیک ٹرانسفر ہوئی تب بھی بہت خوش ہوا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ میری پہلی تنخواہ میرے والد کی بیماری میں کام آئی، والدہ کی دعائیں رنگ لائیں۔ والد صحتیاب ہوئے پر ڈائلاسس کا ایک پراسس شروع ہوگیا جو اب تک چل رہا ہے۔
14 فروری 2011ء میں یہاں انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی سالگرہ منانے کے لیے سب لوگ پھر زور لگانے لگے۔ بڑا شوق ہوا کہ دیکھیں کہ انقلاب آتا کیسے ہے پر کچھ نہ ہوا، ساری ایکسائیٹمنٹ دھری کی دھری رہ گئی۔
مارچ اپریل مئی یہ تین ماہ بہت مشکل گزارے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے واقف ہونگے کہ کمپنی جب تنخواہ کسی وجہ سے روک لیتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان تین ماہ میں پیسوں کی قدر کرنا سیکھا۔ دو کی بجائے ایک روٹی پہ گزارا کرنا سیکھا۔ یہی سوچتے تھے کہ کمیٹی ڈالی ہوئی ہے کسی نہ کسی ماہ تو نکلے گی۔
جون میں کہیں تنخوائیں ملنا بحال ہوئیں۔ انابیہ کی تیسری سالگرہ 9 جون کو تھی سکائیپ پہ بیٹھ کہ سب کو دیکھا ۔ آیان بڑا ہو رہا تھا۔ بہت خوش ہوتا تھا دیکھ کر۔۔۔
جولائی -اگست میں اپنی ایک خواہش پوری کی، ایک لیپ ٹاپ جو میرے اپنے پیسوں کا تھا اپنی پسند کا۔
ستمبر زیادہ دیر کام میں ہی مصروف رہے، ستمبر کے آخر میں پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر دی اس طرح اور مصروف ہوگیا۔ چار پیسے اور جُڑنے لگے۔ والد کا فون آیا کہ میرا ریڈیو خراب ہوگیا ہے میں نے لبیک کہا اور بجوا دیا۔ والد کی ایک ننھی خواہش پورا کرنا بیٹے کو کیسا لگتا ہے وہ محسوس کیا۔
اکتوبر میں بھائی کہ ایک خواہش اصلی رےبن گلاسس کہ جب وہ دفتر پہن کے جائے تو کئی یہ نہ کہے کہ چائنا کی ہے وہ بھجوائی۔ انٹرل آڈٹر ہے ہیرو لگ رہا تھا پہن کے، ایک بھائی کو دوسری بھائی کو دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہ محسوس کی۔
نومبر میں چھوٹی بہن کے لیے ایک لیپ ٹاپ بھجوایا جو اسے ابھی ملا نہیں کہ اُس کے پیپرز ختم ہو جائیں تو پھر ملے۔
دسمبر ابھی گزر رہا ہے ۔ چھٹیاں بہت ہوتی ہیں سرکاری محکموں میں یہاں۔ اور پھر چھٹیوں کی کمپنسیشن وہ الگ۔ بور ہی گزر جاتی ہیں۔
عیدیں گھروالوں کے بغیر گزار دیں۔
میں نے اس سال بہت کچھ سیکھا اور اللہ کا شکر گزار ہوں۔ والد اور والدہ کی دعائیں میرے ساتھ رہیں، بیوی بچوں کا پیار ساتھ رہا، بھائی بہنوں کی حوصلہ افزائی میرے ساتھ رہی۔
انشاءاللہ ارادہ ہے۔ ضرور۔اللہ تعالی آپ کے لیئے آسانیاں پیدا فرمائے،،،آپ اپنے لیئے نہیں اپنوں کےلیئے جی رہے ہیں ۔پردیس بھی اور تنہائی بھی
جو آپ کر رہے ہو یہ بھی ایک عبادت ہے اگلے سال پاک جایئے گاضرور
گُڈانشاءاللہ ارادہ ہے۔ ضرور۔
گُڈ ۔۔
جب والدین ، بھائیوں بہنوں اور گھر والوں کی دعائیں اور پیار ساتھ ہو تو اور کیا چاہیےنومبر 2011ء میں یہاں آنا ہوا۔ سال کا آغاز یوں کہوں تو تبھی شروع ہوا۔ ایکسائٹمنٹ بہت تھی۔ پردیس میں آنا اور کام کرنا، اپنی فیملی سے دور یہ سوچ کر کہ اُن کے لیے کچھ کرنے کا موقع مل رہا ہے اور اسے پوری طرح سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔
پہلے چند دن تو ہیلو ہائے میں نکل گئے۔ پھر کام سے زور پکڑا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ہمیں گھماتا رہا۔
دسمبر میں پہلی خوش خبری ملی جب آیان پیدا ہوا۔ ایک بیٹے کے باپ ہونے پہ بہت فخر محسوس ہوتا ہے ایسا لگا مجھے۔ کل 15 دسمبر کو وہ ایک سال کا ہوجائے گا۔ اب تک صرف سکائیپ پہ دیکھا یاں تصویروں میں۔
والد کی طبعیت 26 دسمبر کو خراب ہوئی، مجھے آئے ایک ماہ ہوا اور یہ خبر، دل کرتا تھا واپس لوٹ جاؤں ایسے طرح طرح کے خیالات نے دماغ خراب کر رکھا تھا۔
سال کی پہلی تنخواہ جب بیک ٹرانسفر ہوئی تب بھی بہت خوش ہوا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ میری پہلی تنخواہ میرے والد کی بیماری میں کام آئی، والدہ کی دعائیں رنگ لائیں۔ والد صحتیاب ہوئے پر ڈائلاسس کا ایک پراسس شروع ہوگیا جو اب تک چل رہا ہے۔
14 فروری 2011ء میں یہاں انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی سالگرہ منانے کے لیے سب لوگ پھر زور لگانے لگے۔ بڑا شوق ہوا کہ دیکھیں کہ انقلاب آتا کیسے ہے پر کچھ نہ ہوا، ساری ایکسائیٹمنٹ دھری کی دھری رہ گئی۔
مارچ اپریل مئی یہ تین ماہ بہت مشکل گزارے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے واقف ہونگے کہ کمپنی جب تنخواہ کسی وجہ سے روک لیتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان تین ماہ میں پیسوں کی قدر کرنا سیکھا۔ دو کی بجائے ایک روٹی پہ گزارا کرنا سیکھا۔ یہی سوچتے تھے کہ کمیٹی ڈالی ہوئی ہے کسی نہ کسی ماہ تو نکلے گی۔
جون میں کہیں تنخوائیں ملنا بحال ہوئیں۔ انابیہ کی تیسری سالگرہ 9 جون کو تھی سکائیپ پہ بیٹھ کہ سب کو دیکھا ۔ آیان بڑا ہو رہا تھا۔ بہت خوش ہوتا تھا دیکھ کر۔۔۔
جولائی -اگست میں اپنی ایک خواہش پوری کی، ایک لیپ ٹاپ جو میرے اپنے پیسوں کا تھا اپنی پسند کا۔
ستمبر زیادہ دیر کام میں ہی مصروف رہے، ستمبر کے آخر میں پارٹ ٹائم جاب بھی شروع کر دی اس طرح اور مصروف ہوگیا۔ چار پیسے اور جُڑنے لگے۔ والد کا فون آیا کہ میرا ریڈیو خراب ہوگیا ہے میں نے لبیک کہا اور بجوا دیا۔ والد کی ایک ننھی خواہش پورا کرنا بیٹے کو کیسا لگتا ہے وہ محسوس کیا۔
اکتوبر میں بھائی کہ ایک خواہش اصلی رےبن گلاسس کہ جب وہ دفتر پہن کے جائے تو کئی یہ نہ کہے کہ چائنا کی ہے وہ بھجوائی۔ انٹرل آڈٹر ہے ہیرو لگ رہا تھا پہن کے، ایک بھائی کو دوسری بھائی کو دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہ محسوس کی۔
نومبر میں چھوٹی بہن کے لیے ایک لیپ ٹاپ بھجوایا جو اسے ابھی ملا نہیں کہ اُس کے پیپرز ختم ہو جائیں تو پھر ملے۔
دسمبر ابھی گزر رہا ہے ۔ چھٹیاں بہت ہوتی ہیں سرکاری محکموں میں یہاں۔ اور پھر چھٹیوں کی کمپنسیشن وہ الگ۔ بور ہی گزر جاتی ہیں۔
عیدیں گھروالوں کے بغیر گزار دیں۔
میں نے اس سال بہت کچھ سیکھا اور اللہ کا شکر گزار ہوں۔ والد اور والدہ کی دعائیں میرے ساتھ رہیں، بیوی بچوں کا پیار ساتھ رہا، بھائی بہنوں کی حوصلہ افزائی میرے ساتھ رہی۔
دعاگو رہیں۔جب والدین ، بھائیوں بہنوں اور گھر والوں کی دعائیں اور پیار ساتھ ہو تو اور کیا چاہیے
دوسروں کےلیے جینا ہی اصل جینا ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے۔ آمین۔