انیس الرحمن
محفلین
کہیں یہ "تانہ" "طعنہ" تو نہیں حضرت؟؟؟بہت خوب
بہت مزہ آیا
بہت ہی دوستانہ اور فلسفیانہ بلکہ حکایاتانہ، کچھ کچھ روایاتانہ، اور جتنے بھی ۔۔۔ "تانہ" ہیں، وہ سب اس میں تھے۔
مزہ آیا جناب۔
کہیں یہ "تانہ" "طعنہ" تو نہیں حضرت؟؟؟بہت خوب
بہت مزہ آیا
بہت ہی دوستانہ اور فلسفیانہ بلکہ حکایاتانہ، کچھ کچھ روایاتانہ، اور جتنے بھی ۔۔۔ "تانہ" ہیں، وہ سب اس میں تھے۔
مزہ آیا جناب۔
تھوڑا اوراور ہنس لو مقدس آپا
ارے نہیں منّا۔۔
کون ناراض ہوتا ہے؟
اصل میں ہمیں یہ باتیں اپنی بیگموں کی یاد دلا دیتی ہیں۔ وہ بھی ہمیں وقت سے پہلے بوڑھا کرنے کے چکر میں لگی رہتی ہیں۔۔
اس لیے ہمارا موڈ آف ہوتا ہے تھوڑا بہت۔۔۔
ایسی بات نہیں ہے بھیا۔ اصل میں انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، بس زندگی کی الجھنیں اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں ورنہ وہ تو ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔اصل میں ہمیں یہ باتیں اپنی بیگموں کی یاد دلا دیتی ہیں۔ وہ بھی ہمیں وقت سے پہلے بوڑھا کرنے کے چکر میں لگی رہتی ہیں۔۔
کہیں یہ "تانہ" "طعنہ" تو نہیں حضرت؟؟؟
تھوڑا اور
عاطف بٹ بھائیسال 2012ء میرے لئے کئی حوالوں سے بہت اچھا اور بعض حوالوں سے بہت برا رہا۔ جو کچھ اچھا ہوا اس پر میں اپنے مولا کا شکرگزار ہوں اور جو برا ہوا اس پر صبر اور استغفار کرتا ہوں۔ یوں تو ابھی اس برس کے ختم ہونے میں انیس دن باقی ہیں مگر اب تک اس سال میں کیا کھویا، کیا پایا، اس کی ایک جھلک یہ رہی:
سالِ رواں کا پہلا دن میرے لئے ایک خاص حوالے سے بہت تکلیف دہ تھا اور سال بھر وہ تکلیف کسی نہ کسی انداز میں ساتھ چلتی رہی۔
اس سال کا ایک ناخوشگوار حوالہ یہ بھی رہا کہ میری دونوں مائیں سال بھر اس بات پر مجھ سے ناراض ہی رہیں کہ میں انہیں وقت نہیں دے پاتا اور میں ہر بار ان کے شکوے کے جواب میں ایک جذباتی سی تقریر جھاڑ کر انہیں ’مطمئن‘ کردیتا!
پیشہ ورانہ اور مالی حوالے سے یہ سال بہت اچھا رہا اور پہلی بار سال کا کوئی بھی مہینہ ایسا نہیں گزرا جب میں باقاعدہ طور پر بیروزگار رہا ہوں ورنہ نشریاتی صحافت کے اداروں میں سما ٹی وی سے وقت نیوز تک اور اخبارات و جرائد میں ہفت روزہ ہم شہری اور ڈیلی دی پاک بینکر سے لے کر روزنامہ نئی بات تک میرے نام سے کئی داستانیں رقم ہیں۔
اس سال میری میرے محبوب شہر کراچی جانے کی شدید ترین اور دیرینہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
اسی برس کے آٹھویں مہینے میں محفل کی رکنیت حاصل کی جس کا میری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ملے جن کا ذکر کرنے لگوں گا تو بات بہت ہی طویل ہوجائے گی اور پھر یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ کسی دوست کا نام لکھنا بھول گیا تو اسے لگے گا کہ وہ میرے نزدیک کم اہم ہے۔ کچھ ایسے دوست بھی ملے یہاں جن سے پہلی ہی ملاقات یا گفتگو میں ایسا لگا کہ جیسے ان سے برسوں کی شناسائی ہے۔ محفل سے اتنا کچھ ملا کہ الفاظ میں اس سب کا اظہار ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر زندگی نے وفا کی اور میں نے کبھی آپ بیتی لکھنا چاہی تو یقیناً میری داستانِ حیات اردو محفل اور آپ سب لوگوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوگی!
آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے امتزاج کے ساتھ گزرنے والا 2012ء مجھے کئی حوالوں سے ہمیشہ یاد رہے گا!!!
تبھی پر ایک شاعر نے کہا ہے کہآپ کے لیئے ہی تو یہ گانا بنا ہے
"دل ہونا چاہیدا جوان تے عمراں چے کی رکھیا"
اور وصی شاہ کا نام آتے ہی مجھے فاتح بھائی یاد آجاتے ہیں۔۔۔منّا کا لفظ استعمال نہ کیا کریں، اس سے مجھے وصی شاہ آ جاتا ہے جس نے کیا خوب ۔۔۔ لکھا ہے کہ
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
کر کے منّا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
ایسی بات نہیں ہے بھیا۔ اصل میں انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، بس زندگی کی الجھنیں اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں ورنہ وہ تو ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے۔
یہ ہوئی نا بات۔۔۔سال 2012ء میرے لئے کئی حوالوں سے بہت اچھا اور بعض حوالوں سے بہت برا رہا۔ جو کچھ اچھا ہوا اس پر میں اپنے مولا کا شکرگزار ہوں اور جو برا ہوا اس پر صبر اور استغفار کرتا ہوں۔ یوں تو ابھی اس برس کے ختم ہونے میں انیس دن باقی ہیں مگر اب تک اس سال میں کیا کھویا، کیا پایا، اس کی ایک جھلک یہ رہی:
سالِ رواں کا پہلا دن میرے لئے ایک خاص حوالے سے بہت تکلیف دہ تھا اور سال بھر وہ تکلیف کسی نہ کسی انداز میں ساتھ چلتی رہی۔
اس سال کا ایک ناخوشگوار حوالہ یہ بھی رہا کہ میری دونوں مائیں سال بھر اس بات پر مجھ سے ناراض ہی رہیں کہ میں انہیں وقت نہیں دے پاتا اور میں ہر بار ان کے شکوے کے جواب میں ایک جذباتی سی تقریر جھاڑ کر انہیں ’مطمئن‘ کردیتا!
پیشہ ورانہ اور مالی حوالے سے یہ سال بہت اچھا رہا اور پہلی بار سال کا کوئی بھی مہینہ ایسا نہیں گزرا جب میں باقاعدہ طور پر بیروزگار رہا ہوں ورنہ نشریاتی صحافت کے اداروں میں سما ٹی وی سے وقت نیوز تک اور اخبارات و جرائد میں ہفت روزہ ہم شہری اور ڈیلی دی پاک بینکر سے لے کر روزنامہ نئی بات تک میرے نام سے کئی داستانیں رقم ہیں۔
اس سال میری میرے محبوب شہر کراچی جانے کی شدید ترین اور دیرینہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
اسی برس کے آٹھویں مہینے میں محفل کی رکنیت حاصل کی جس کا میری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ملے جن کا ذکر کرنے لگوں گا تو بات بہت ہی طویل ہوجائے گی اور پھر یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ کسی دوست کا نام لکھنا بھول گیا تو اسے لگے گا کہ وہ میرے نزدیک کم اہم ہے۔ کچھ ایسے دوست بھی ملے یہاں جن سے پہلی ہی ملاقات یا گفتگو میں ایسا لگا کہ جیسے ان سے برسوں کی شناسائی ہے۔ محفل سے اتنا کچھ ملا کہ الفاظ میں اس سب کا اظہار ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر زندگی نے وفا کی اور میں نے کبھی آپ بیتی لکھنا چاہی تو یقیناً میری داستانِ حیات اردو محفل اور آپ سب لوگوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوگی!
آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے امتزاج کے ساتھ گزرنے والا 2012ء مجھے کئی حوالوں سے ہمیشہ یاد رہے گا!!!
بہت شکریہ انیس بھائی!یہ ہوئی نا بات۔۔۔
اور یہ ہوئی وہی والی بات۔۔۔کسی اور وقت کے لئے بھی تو کچھ بچا رہنے دیں!
سال 2012ء میرے لئے کئی حوالوں سے بہت اچھا اور بعض حوالوں سے بہت برا رہا۔ جو کچھ اچھا ہوا اس پر میں اپنے مولا کا شکرگزار ہوں اور جو برا ہوا اس پر صبر اور استغفار کرتا ہوں۔ یوں تو ابھی اس برس کے ختم ہونے میں انیس دن باقی ہیں مگر اب تک اس سال میں کیا کھویا، کیا پایا، اس کی ایک جھلک یہ رہی:
سالِ رواں کا پہلا دن میرے لئے ایک خاص حوالے سے بہت تکلیف دہ تھا اور سال بھر وہ تکلیف کسی نہ کسی انداز میں ساتھ چلتی رہی۔
اس سال کا ایک ناخوشگوار حوالہ یہ بھی رہا کہ میری دونوں مائیں سال بھر اس بات پر مجھ سے ناراض ہی رہیں کہ میں انہیں وقت نہیں دے پاتا اور میں ہر بار ان کے شکوے کے جواب میں ایک جذباتی سی تقریر جھاڑ کر انہیں ’مطمئن‘ کردیتا!
پیشہ ورانہ اور مالی حوالے سے یہ سال بہت اچھا رہا اور پہلی بار سال کا کوئی بھی مہینہ ایسا نہیں گزرا جب میں باقاعدہ طور پر بیروزگار رہا ہوں ورنہ نشریاتی صحافت کے اداروں میں سما ٹی وی سے وقت نیوز تک اور اخبارات و جرائد میں ہفت روزہ ہم شہری اور ڈیلی دی پاک بینکر سے لے کر روزنامہ نئی بات تک میرے نام سے کئی داستانیں رقم ہیں۔
اس سال میری میرے محبوب شہر کراچی جانے کی شدید ترین اور دیرینہ خواہش بھی پوری ہوئی۔
اسی برس کے آٹھویں مہینے میں محفل کی رکنیت حاصل کی جس کا میری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا۔ یہاں بہت سے ایسے لوگ ملے جن کا ذکر کرنے لگوں گا تو بات بہت ہی طویل ہوجائے گی اور پھر یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ کسی دوست کا نام لکھنا بھول گیا تو اسے لگے گا کہ وہ میرے نزدیک کم اہم ہے۔ کچھ ایسے دوست بھی ملے یہاں جن سے پہلی ہی ملاقات یا گفتگو میں ایسا لگا کہ جیسے ان سے برسوں کی شناسائی ہے۔ محفل سے اتنا کچھ ملا کہ الفاظ میں اس سب کا اظہار ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر زندگی نے وفا کی اور میں نے کبھی آپ بیتی لکھنا چاہی تو یقیناً میری داستانِ حیات اردو محفل اور آپ سب لوگوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوگی!
آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے امتزاج کے ساتھ گزرنے والا 2012ء مجھے کئی حوالوں سے ہمیشہ یاد رہے گا!!!
چلیں، میں کوشش کرتا ہوں کہ عوام کے پُرزور اصرار پر ’دوسری قسط‘ تیار کی جائے!اور یہ ہوئی وہی والی بات۔۔۔
بہت شکریہ بلال!بہت خوب زبردست