اسامہ جمشید
محفلین
آپ کی سادگی بہانا ہے
تیر پھر آپ نے چلانا ہے
بارہا آپ نے ستم ڈھایا
بارہا ہم نے آزماناہے
اس قدر رازبن رہے ہوکیوں
ہم سے کیا آپ نے چھپانا ہے
دل پرانا مکان ہے اسکو
توڑ کر پھر نیا بنا نا ہے
آدمی پھنس گیا درندوں میں
آفتوں سے اسے بچانا ہے
بے وجہ ضد کیا نہیں کرتے
روح کو جسم سے تو جاناہے
انکی زلفوں میں سورہے ہونگے
شاعروں کا یہی ٹھکانا ہے