عرفان سعید
محفلین
آڈیو بکس: کتابیں جو پڑھنے کے بجائے سُنی جاتی ہیں
کریم الاسلام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ہے
یہ سوال یقیناً عجیب سا لگتا ہے کیونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک ہم سب ہی کتابیں 'پڑھتے' چلے آئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب لانگ ڈرائیو پر جاتے ہوئے ہم اپنے موبائل پر کرنل محمد خان کی کتاب لگائیں گے اور سفر کے اختتام تک پوری 'بجنگ آمد' ختم کر لیں گے۔
یہ انہونی ممکن ہوئی ہے ایک جدید ڈیجیٹل فارمیٹ سے جس کو 'آڈیو بک' کا نام دیا گیا ہے۔ اُردو زبان میں آڈیو بکس تیار کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں عثمان صدیقی اور جواد یوسف نے۔
تو آڈیو بکس ہیں کیا؟ یہ دراصل کسی بھی روایتی کتاب کو آواز کے ذریعے پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار صداکار پوری کتاب ابتدا سے اختتام تک تحت اللفظ میں پڑھتا ہے جسے ساؤنڈ سٹوڈیو میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔
یہ کتاب اپنی مکمل صورت میں مخصوص ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی موبائل فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔
روایتی کتاب کی طرح اِس صوتی کتاب کے بھی مختلف اسباق یا چیپٹرز ہوتے ہیں جن کو حسبِ ضرورت منتخب کیا جا سکتا ہے۔
'اُردو سٹوڈیو'
عثمان صدیقی اور جواد یوسف امریکہ میں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے اور وہیں انھوں نے پہلی بار آڈیو بکس کے بارے میں سُنا۔ عثمان صدیقی چاہتے تھے کہ وطن واپسی پر ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔
'اِسی دوران ہم نے روایتی کتابوں سے متعلق کچھ آن لائن سروسز بھی شروع کیں۔ ہم نے امریکہ میں انگریزی آڈیو بکس کا رواج دیکھا تھا تو سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ اُردو زبان میں شروع کیا جائے۔'
اِس طرح سنہ دو ہزار گیارہ میں 'اُردو سٹوڈیو' کی بنیاد پڑی۔
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے
اُردو آڈیو بکس
عثمان صدیقی اور جواد یوسف کے نزدیک اُردو آڈیو بکس کے سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا تھا۔
عثمان صدیقی کہتے ہیں کہ 'چونکہ موجودہ زمانے میں اُردو ادب پڑھنے کا رجحان کسی حد تک کم ہوا ہے تو ہم چاہتے تھے کہ اُسے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عوام تک پہنچایا جائے۔ اب لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور اُن کے لیے ادبی مواد کو دیکھنا یا سُننا زیادہ آسان ہے۔'
آڈیو بکس کیسے تیار کی جاتی ہیں؟
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے۔ عثمان صدیقی کے مطابق اِس طرح کتاب کے اصل مواد میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
'مثلاً صداکار تحریر میں اپنے تاثرات کا اضافہ کرتا ہے اور پھر پڑھنے کے مخصوص انداز سے بھی لکھی ہوئی عبارت کئی گنا زیادہ پُر اثر ہو جاتی ہے۔'
لیکن جواد یوسف کے بقول یہ ریکارڈنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ ایک طویل اور مہنگا مرحلہ ہے۔
'ایک گھنٹے کی صوتی کتاب کے لیے کئی کئی گھنٹے ریکارڈنگ کی جاتی ہے جس کے بعد ایڈیٹنگ کے ذریعے اصل مواد کو چھانٹا جاتا ہے۔ اِس طرح کئی دنوں اور اکثر کئی ہفتوں میں جا کر ایک کتاب تیار ہوتی ہے۔ آخر میں آڈیو فائلز کو دنیا بھر کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔'
عثمان صدیقی کے مطابق 'اُردو سٹوڈیو' نے اب تک اُردو ادب کی ایک سو سے زائد کتابیں کئی سو گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی صورت میں تیار کی ہیں۔
'اِن کتابوں میں فکشن، نان فکشن، بچوں اور بڑوں کا ادب شامل ہے۔ اِس کے علاوہ سفرنامے، ناول اور آپ بیتیاں بھی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کے کام کو بھی شامل کیا جائے۔ ساتھ ساتھ سُننے والوں کی پسند ناپسند کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔'
صوتی کتابوں کی مقبولیت
ماہرین کے مطابق آڈیو بکس کا استعمال جدید ٹیکنالوجی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز تک رسائی میں اضافے سے اب اِن پراڈکٹس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں صرف امریکہ میں چوالیس ہزار آڈیو بکس شائع ہوئیں جنھوں نے نو سو چالیس ملین ڈالر کا بزنس کیا۔
'اُردو سٹوڈیو' کے معاون بانی عثمان صدیقی پُرامید ہیں کہ آنے والے وقت میں آڈیو بکس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
'یہ درست ہے کہ اب بھی بہت سے لوگوں کو آڈیو بکس کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ میرے نزدیک بے شمار ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی موجودگی میں لوگوں کو آڈیو بکس کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔'
کتاب کی بدلی شکل
اُردو کے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ سمجھتے ہیں کہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتاب کی ہی توسیع ہیں۔
'میرے خیال میں اگر کوئی شخص آڈیو بک سُن رہا ہے تو وہ کتاب سے ہی محظوظ ہو رہا ہے۔ فرق صرف میڈیم کا ہے۔ کتاب جب چھپے گی تب ہی آڈیو بک کی صورت لے گی کیونکہ ظاہر ہے ایک ادیب خود تو اپنی کتاب کو تحت اللفظ میں نہیں ڈھالے گا۔'
مستنصر حسین تارڑ کے مطابق آڈیو بکس جیسے ماڈرن ٹولز کتاب پڑھنے کے تجربے کو دلچسپ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی کچھ کتابیں آڈیو بکس کی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔
'ہاں یہ ضرور ہے کہ جو شخص کتاب کی وائس اوور کرے وہ تحریر سے انصاف کرے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے والا لکھے جانے والے الفاظ کے معنی اور درست تلفّظ جانتا ہو اور کتاب کے مواد کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو۔'
آڈیو بکس کیسے حاصل کریں؟
'اردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف بتاتے ہیں کہ اُردو زبان میں آڈیو بکس حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔
'ایمازون کی آڈیو بکس سروس کا نام 'آڈیبل ڈاٹ کام' ہے جہاں ہماری کمپنی اُردو سٹوڈیو بھی موجود ہے۔ وہاں سے کوئی بھی کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے کسی بھی سمارٹ فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔'
اِن آڈیو بکس کی قیمت فی الحال روایتی کُتب سے کم نہیں تو کم از کم برابر ضرور ہے۔
جواد یوسف کہتے ہیں کہ 'بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چونکہ قیمت ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لحاظ سے یقیناً زیادہ ہے۔ ہمارا اگلا قدم یہ ہی ہوگا کہ قیمت کم کر کے اِن آڈیو بکس کو مقامی قارئین کی قوّتِ خرید کے اندر لایا جائے۔'
کتاب زندہ ہے
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں بائیس لاکھ کتابیں چھپتی ہیں جن میں سے تقریباً نصف امریکہ، چین اور برطانیہ سے شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد صرف چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا دعوی ہے کہ روایتی کتاب اب بھی زندہ ہے اور مستقبل میں بھی اپنی حالیہ شکل میں موجود رہے گی۔
'ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن کتاب تک رسائی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کتابوں کی اشاعت کم نہیں ہوئی۔ ہاں ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا جب ڈیجیٹل پراڈکٹس کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں کچھ کمی ہوئی تھی لیکن اب صورتِ حال بہت بہتر ہے۔'
پاکستان کے بیسٹ سیلر ادیب تصّور کیے جانے والے مستنصر حسین تارڑ کے بقول ایک زمانے میں لوگ سمجھا کرتے تھے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے آنے سے قارئین کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
'مغرب ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے لیکن وہاں آج بھی کتاب ایسے ہی چھپتی ہے جیسی پہلے چھپا کرتی تھی۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ کتاب پڑھی جا رہی ہے۔ ہر سال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے کُتب میلوں میں چند روز میں کئی کروڑ روپوں کی کتابیں فروخت ہو جاتی ہیں۔'
اِس سلسلے میں تارڑ اپنی مثال دیتے ہیں۔
'گذشتہ دنوں میری مقبول کتاب 'پیار کا پہلا شہر' کا پچھترواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ میری اکثر کتابوں کے تیس سے چالیس ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ یہ صرف میری کتابوں کی بات نہیں ہے۔ بے شمار ایسے ادیب ہیں جن کی کتابیں آج بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔'
پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز کے مالک افضال احمد اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
'آبادی بڑھنے کے ساتھ شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں کتاب کی مانگ بھی زیادہ ہوگی۔ ہمارے یہاں پبلشنگ کے شعبے میں توسیع کے بے شمار مواقع ہیں۔'
افضال احمد کے مطابق سنجیدہ قاری ڈیجیٹل میڈیمز پر کتاب سے متعارف ہونے کے بعد روایتی کتاب کا ہی رخ کرتے ہیں۔
'فیس بک، یوٹیوب یا ڈیجیٹل بکس صرف کتاب کا ذائقہ ہی چکھا سکتی ہیں۔ اصل مزا تو کاغذ کی کتاب کو ہاتھ میں تھام کر پڑھنے میں ہی ہے۔ ہمارے یہاں قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات میں سمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل گیجٹس کا رجحان اب بھی کم ہے لہذا وہاں روایتی کتاب ہی واحد آپشن ہے۔'
مستقبل کے چیلنجز
'اُردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا ماننا ہے کہ روایتی کتابوں کی فروخت اپنی جگہ لیکن ڈیجیٹل پراڈکٹس نے بھی قارئین میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
'ہمارے خیال میں مستقبل میں ای اور آڈیو بکس مقبول تو ہوں گی لیکن روایتی کتابوں کی مانگ بھی موجود رہے گی۔ یہ ضرور ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گذارتے ہیں اور اِن سے مقابلہ کرنا روایتی اور ڈیجیٹل کتاب دونوں کے لیے مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔'
ربط
کریم الاسلام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ہے
یہ سوال یقیناً عجیب سا لگتا ہے کیونکہ بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی سے بڑھاپے تک ہم سب ہی کتابیں 'پڑھتے' چلے آئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب لانگ ڈرائیو پر جاتے ہوئے ہم اپنے موبائل پر کرنل محمد خان کی کتاب لگائیں گے اور سفر کے اختتام تک پوری 'بجنگ آمد' ختم کر لیں گے۔
یہ انہونی ممکن ہوئی ہے ایک جدید ڈیجیٹل فارمیٹ سے جس کو 'آڈیو بک' کا نام دیا گیا ہے۔ اُردو زبان میں آڈیو بکس تیار کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں عثمان صدیقی اور جواد یوسف نے۔
تو آڈیو بکس ہیں کیا؟ یہ دراصل کسی بھی روایتی کتاب کو آواز کے ذریعے پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار صداکار پوری کتاب ابتدا سے اختتام تک تحت اللفظ میں پڑھتا ہے جسے ساؤنڈ سٹوڈیو میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔
یہ کتاب اپنی مکمل صورت میں مخصوص ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا میں کہیں بھی موبائل فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔
روایتی کتاب کی طرح اِس صوتی کتاب کے بھی مختلف اسباق یا چیپٹرز ہوتے ہیں جن کو حسبِ ضرورت منتخب کیا جا سکتا ہے۔
'اُردو سٹوڈیو'
عثمان صدیقی اور جواد یوسف امریکہ میں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے اور وہیں انھوں نے پہلی بار آڈیو بکس کے بارے میں سُنا۔ عثمان صدیقی چاہتے تھے کہ وطن واپسی پر ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔
'اِسی دوران ہم نے روایتی کتابوں سے متعلق کچھ آن لائن سروسز بھی شروع کیں۔ ہم نے امریکہ میں انگریزی آڈیو بکس کا رواج دیکھا تھا تو سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ اُردو زبان میں شروع کیا جائے۔'
اِس طرح سنہ دو ہزار گیارہ میں 'اُردو سٹوڈیو' کی بنیاد پڑی۔
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے
اُردو آڈیو بکس
عثمان صدیقی اور جواد یوسف کے نزدیک اُردو آڈیو بکس کے سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد اُردو ادب کے بیش بہا خزانے کو محفوظ کر کے آج کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا تھا۔
عثمان صدیقی کہتے ہیں کہ 'چونکہ موجودہ زمانے میں اُردو ادب پڑھنے کا رجحان کسی حد تک کم ہوا ہے تو ہم چاہتے تھے کہ اُسے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عوام تک پہنچایا جائے۔ اب لوگوں کے پاس وقت کم ہے اور اُن کے لیے ادبی مواد کو دیکھنا یا سُننا زیادہ آسان ہے۔'
آڈیو بکس کیسے تیار کی جاتی ہیں؟
آڈیو بکس جدید سٹوڈیو میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں ایک تربیت یافتہ وائس اوور آرٹسٹ کتاب کو اپنی آواز میں پڑھتا ہے۔ عثمان صدیقی کے مطابق اِس طرح کتاب کے اصل مواد میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
'مثلاً صداکار تحریر میں اپنے تاثرات کا اضافہ کرتا ہے اور پھر پڑھنے کے مخصوص انداز سے بھی لکھی ہوئی عبارت کئی گنا زیادہ پُر اثر ہو جاتی ہے۔'
لیکن جواد یوسف کے بقول یہ ریکارڈنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ ایک طویل اور مہنگا مرحلہ ہے۔
'ایک گھنٹے کی صوتی کتاب کے لیے کئی کئی گھنٹے ریکارڈنگ کی جاتی ہے جس کے بعد ایڈیٹنگ کے ذریعے اصل مواد کو چھانٹا جاتا ہے۔ اِس طرح کئی دنوں اور اکثر کئی ہفتوں میں جا کر ایک کتاب تیار ہوتی ہے۔ آخر میں آڈیو فائلز کو دنیا بھر کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔'
عثمان صدیقی کے مطابق 'اُردو سٹوڈیو' نے اب تک اُردو ادب کی ایک سو سے زائد کتابیں کئی سو گھنٹوں کی ریکارڈنگ کی صورت میں تیار کی ہیں۔
'اِن کتابوں میں فکشن، نان فکشن، بچوں اور بڑوں کا ادب شامل ہے۔ اِس کے علاوہ سفرنامے، ناول اور آپ بیتیاں بھی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کے کام کو بھی شامل کیا جائے۔ ساتھ ساتھ سُننے والوں کی پسند ناپسند کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔'
صوتی کتابوں کی مقبولیت
ماہرین کے مطابق آڈیو بکس کا استعمال جدید ٹیکنالوجی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز تک رسائی میں اضافے سے اب اِن پراڈکٹس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ دو ہزار اٹھارہ میں صرف امریکہ میں چوالیس ہزار آڈیو بکس شائع ہوئیں جنھوں نے نو سو چالیس ملین ڈالر کا بزنس کیا۔
'اُردو سٹوڈیو' کے معاون بانی عثمان صدیقی پُرامید ہیں کہ آنے والے وقت میں آڈیو بکس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔
'یہ درست ہے کہ اب بھی بہت سے لوگوں کو آڈیو بکس کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ میرے نزدیک بے شمار ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی موجودگی میں لوگوں کو آڈیو بکس کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔'
کتاب کی بدلی شکل
اُردو کے معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ سمجھتے ہیں کہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتاب کی ہی توسیع ہیں۔
'میرے خیال میں اگر کوئی شخص آڈیو بک سُن رہا ہے تو وہ کتاب سے ہی محظوظ ہو رہا ہے۔ فرق صرف میڈیم کا ہے۔ کتاب جب چھپے گی تب ہی آڈیو بک کی صورت لے گی کیونکہ ظاہر ہے ایک ادیب خود تو اپنی کتاب کو تحت اللفظ میں نہیں ڈھالے گا۔'
مستنصر حسین تارڑ کے مطابق آڈیو بکس جیسے ماڈرن ٹولز کتاب پڑھنے کے تجربے کو دلچسپ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی کچھ کتابیں آڈیو بکس کی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔
'ہاں یہ ضرور ہے کہ جو شخص کتاب کی وائس اوور کرے وہ تحریر سے انصاف کرے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے والا لکھے جانے والے الفاظ کے معنی اور درست تلفّظ جانتا ہو اور کتاب کے مواد کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو۔'
آڈیو بکس کیسے حاصل کریں؟
'اردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف بتاتے ہیں کہ اُردو زبان میں آڈیو بکس حاصل کرنا انتہائی آسان ہے۔
'ایمازون کی آڈیو بکس سروس کا نام 'آڈیبل ڈاٹ کام' ہے جہاں ہماری کمپنی اُردو سٹوڈیو بھی موجود ہے۔ وہاں سے کوئی بھی کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے کسی بھی سمارٹ فون یا کمپیوٹر پر سُنی جا سکتی ہے۔'
اِن آڈیو بکس کی قیمت فی الحال روایتی کُتب سے کم نہیں تو کم از کم برابر ضرور ہے۔
جواد یوسف کہتے ہیں کہ 'بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر چونکہ قیمت ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لحاظ سے یقیناً زیادہ ہے۔ ہمارا اگلا قدم یہ ہی ہوگا کہ قیمت کم کر کے اِن آڈیو بکس کو مقامی قارئین کی قوّتِ خرید کے اندر لایا جائے۔'
کتاب زندہ ہے
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں بائیس لاکھ کتابیں چھپتی ہیں جن میں سے تقریباً نصف امریکہ، چین اور برطانیہ سے شائع ہوتی ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد صرف چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا دعوی ہے کہ روایتی کتاب اب بھی زندہ ہے اور مستقبل میں بھی اپنی حالیہ شکل میں موجود رہے گی۔
'ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن کتاب تک رسائی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کتابوں کی اشاعت کم نہیں ہوئی۔ ہاں ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا جب ڈیجیٹل پراڈکٹس کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں کچھ کمی ہوئی تھی لیکن اب صورتِ حال بہت بہتر ہے۔'
پاکستان کے بیسٹ سیلر ادیب تصّور کیے جانے والے مستنصر حسین تارڑ کے بقول ایک زمانے میں لوگ سمجھا کرتے تھے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے آنے سے قارئین کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
'مغرب ٹیکنالوجی میں ہم سے بہت آگے ہے لیکن وہاں آج بھی کتاب ایسے ہی چھپتی ہے جیسی پہلے چھپا کرتی تھی۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ کتاب پڑھی جا رہی ہے۔ ہر سال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے کُتب میلوں میں چند روز میں کئی کروڑ روپوں کی کتابیں فروخت ہو جاتی ہیں۔'
اِس سلسلے میں تارڑ اپنی مثال دیتے ہیں۔
'گذشتہ دنوں میری مقبول کتاب 'پیار کا پہلا شہر' کا پچھترواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ میری اکثر کتابوں کے تیس سے چالیس ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ یہ صرف میری کتابوں کی بات نہیں ہے۔ بے شمار ایسے ادیب ہیں جن کی کتابیں آج بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔'
پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز کے مالک افضال احمد اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا دعوی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
'آبادی بڑھنے کے ساتھ شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں کتاب کی مانگ بھی زیادہ ہوگی۔ ہمارے یہاں پبلشنگ کے شعبے میں توسیع کے بے شمار مواقع ہیں۔'
افضال احمد کے مطابق سنجیدہ قاری ڈیجیٹل میڈیمز پر کتاب سے متعارف ہونے کے بعد روایتی کتاب کا ہی رخ کرتے ہیں۔
'فیس بک، یوٹیوب یا ڈیجیٹل بکس صرف کتاب کا ذائقہ ہی چکھا سکتی ہیں۔ اصل مزا تو کاغذ کی کتاب کو ہاتھ میں تھام کر پڑھنے میں ہی ہے۔ ہمارے یہاں قوتِ خرید کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے شہروں اور گاؤں دیہات میں سمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل گیجٹس کا رجحان اب بھی کم ہے لہذا وہاں روایتی کتاب ہی واحد آپشن ہے۔'
مستقبل کے چیلنجز
'اُردو سٹوڈیو' کے عثمان صدیقی اور جواد یوسف کا ماننا ہے کہ روایتی کتابوں کی فروخت اپنی جگہ لیکن ڈیجیٹل پراڈکٹس نے بھی قارئین میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
'ہمارے خیال میں مستقبل میں ای اور آڈیو بکس مقبول تو ہوں گی لیکن روایتی کتابوں کی مانگ بھی موجود رہے گی۔ یہ ضرور ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گذارتے ہیں اور اِن سے مقابلہ کرنا روایتی اور ڈیجیٹل کتاب دونوں کے لیے مستقبل کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔'
ربط