اسد قریشی
محفلین
کچھ وقفے کے بعد چند اشعار لے کر حاضر ہوں برائے اصلاح و تنقید۔۔۔۔۔۔
آگ میں جلتے مکانوں کا دھواں دیکھا ہے
ہم نے دیکھا ہےجو وہ تم نے کہاں دیکھا ہے
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اُڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
شاید اس آس پہ سویا ہے بلکتا بچّہ
اُس نے اُٹھتا جو انگیٹھی سے دھواں دیکھا ہے
دید کو ترسی ہوں آنکھیں بھی لہو بھی برسے
وسطِ صحرا میں کوئی دریا رواں دیکھا ہے
وہ محبت ہو، سیاست ہو، عداوت کچھ بھی
دل نے ہر رنگ میں نیرنگِ جہاں دیکھا ہے
تم کو معلوم کہاں درد کی شدّت اب تک
سانس لیتے ہوئے زخموں کو میاں دیکھا ہے
حق و باطل کی لڑائی میں کبھی ایسے بھی
سر کوئی تم نے سرِ نوکِ سناں دیکھا ہے