الف نظامی
لائبریرین
ٹیلوں کے آس پاس وہ غاروں کے درمیاں
بھڑکی ہوئی ہے آگ چناروں کے درمیاں
بھڑکی ہوئی ہے آگ چناروں کے درمیاں
راہِ ظفر گذرتی ہے لاشوں کے بیچ بیچ
جیسے یہ کہکشاں ہو ستاروں کے درمیاں
جیسے یہ کہکشاں ہو ستاروں کے درمیاں
ہر تیزِ زخم دل میں گرفتار ہوگیا
صیاد آگھرا ہے شکاروں کے درمیاں
صیاد آگھرا ہے شکاروں کے درمیاں
دل ہے عجیب چیز نزاکت کے باوجود
رقصاں ہے خنجروں کی قطاروں کے درمیاں
رقصاں ہے خنجروں کی قطاروں کے درمیاں
شاداب جوئے خونِ شہادت سے آرزو
ہے چشمہِ حیات مزاروں کے درمیاں
ہے چشمہِ حیات مزاروں کے درمیاں
سرمایہ تبسمِ شیریں ہے زہرِ درد
رنگین پھول کھلتے ہیں خاروں کے درمیاں
رنگین پھول کھلتے ہیں خاروں کے درمیاں
اس سے بڑی نہیں کوئی عشرتِ جہاد
مقصد کی رہ میں موت ہو یاروں کے درمیاں
مقصد کی رہ میں موت ہو یاروں کے درمیاں
منزل پکارتی رہی اک عمر سے مگر
ہم کھو گئے تھے راہگزاروں کے درمیاں
ہم کھو گئے تھے راہگزاروں کے درمیاں
کیا جانیں کیا ہے لطف تپیدن بہ کارزار
آرام سے جو بیٹھے ہیں پیاروں کے درمیاں
آرام سے جو بیٹھے ہیں پیاروں کے درمیاں
محصور کاشمیر کے ہیں زعفران زار
شعلوں کے درمیان ، شراروں کے درمیاں
شعلوں کے درمیان ، شراروں کے درمیاں
تم ڈھونڈتے ھو گنبد و محراب میں جسے
شاید ملے وہ خون کے دھاروں کے درمیاں
از نعیم صدیقی