فاخر
محفلین
آہ! امیر شریعت حضرت سیدمحمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
غرق ماہِ چرخ وگردوں ، مہر تاباں کردیا!
(قسط اول )
افتخاررحمانی فاخرؔ
جب شعورکی آنکھیں کھولیں ، اور اپنے پاس پڑوس کے احوال کی خبر ہونے لگی، تو اس وقت جو لفظ بار بار بصد عزت و احترام والدین کی زبانی سنتا تھا ،وہ لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ تھا۔جہاں کہیں بھی ،اور جب بھی لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ بولا جاتا ، اس سے مراد مونگیر والے حضرت صاحب ہوا کرتے تھے ۔حتیٰ کہ اگر غیر کی مجلسوںمیں بھی لفظ ’’حضرت صاحب‘‘ بولا گیا ، تو گنہ گار کے ذہن نے مونگیر والے حضرت صاحب کو ہی تصور کیا ۔ جب بھی یہ لفظ والدین یا دیگر رشتہ دار کی زبانی سنتا ، تو ذہن میں ایک عظیم ستودہ صفات ، فرشتہ رو اور شفیق شخصیت کا خاکہ ذہن میں ابھر کر آتا تھا، غرض کہ ایک ننھی سی عقیدت کی کل کائنات مونگیر والے’ حضرت صاحب‘ ہی تھے ۔لیکن ہائے ! آج ’’حضرت صاحب ‘‘ کو مدظلہ العالی کے بجائے ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ لکھ رہا ہوں ، توجگر پاش پاش ہورہا ہے ،حواس اڑ چکے ہیں ،دماغ متحیر اور ہوش مختل ہیں۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حضرت صاحب اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،آمین ۔
حسن ِ اتفاق کہہ لیں، اُسی زمانے میں غالباً 1993-94میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار میں کوئی اصلاحی یا مدرسہ کا سالانہ جلسہ تھا۔ اس جلسے کے بعد حضرت صاحب کا مختلف گاؤں، جس میں برداہا، کنہی، جمال پور ، للہول، سنگھیا ، وغیرہ میں دورہ بھی متعین تھا۔دورہ کی فہرست میں ہمارے چھوٹے سے گاؤں ’’سویا ‘‘(SIWAIYA)کو بھی میزبانی کے شرف سے نوازا گیا تھا۔ ایک صبح آنکھ کھلی ، تو گاؤں میں سنا کہ حضرت صاحب تشریف لانے والے ہیں ۔ اِس مسرت آمیز خبر سے گاؤں کے ہر شخص کے چہرے پر خوشی،مسرت اور انبساط جھلکنا لگا ۔ بچے بوڑھے ،مرد و خواتین گاؤں کے تمام لوگ حضرت صاحب کی تشریف آوری سے مسرور دیدہ ودل فرشِ راہ کئے، سراپا استقبال تھے ۔جیسا کہ یاد پڑتا ہے، اس خوشی میں گاؤں کے ہندو بھائی بھی شریک تھے ۔استقبال کی تیاریوں میں گاؤں کے وسیع و عریض میدان میں پنڈال لگایا گیا تھا، استقبالیہ بینر جس میں ’آنا تیرا مبارک ہو تشریف لانے والے ‘ جیسا مصرعہ جلی حرف میں لکھا گیا ۔ گاؤں کے صدر گیٹ پر ’’ خوش آمدید‘‘کئی رنگوں میں منقش لکھا گیا تھا ۔برقی روشنی کا انتظام کیا گیا تھا، گاؤں میں بڑی چہل پہل اور عید کی جیسی خوشی کا عالم تھا۔رات کب ہوئی اور کب ’حضرت صاحب‘ تشریف لائے ، ہمیں اس کا پتہ تو نہ چلا۔ البتہ جب صبح ہوئی، تو والدہ مرحومہ برداللہ مضجعہا نے جگاکر کہا’ اٹھو حضرت صاحب آگئے ہیں ،ہاتھ منھ دھوؤ،اور جاؤ فلاں جگہ حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں ، سلام مصافحہ کرآؤ‘۔اپنے کسی قریبی کی معیت میں حضرت صاحب سے ملاقات کیا ، اس وقت حضرت صاحب ایک صوفے پر مثل شمع تشریف رکھے ہوئے تھے ،اور عقیدت مند، ان کے ارد گرد حلقہ بنائے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ حضرت صاحب سے یہ باضابطہ ھماری پہلی ملاقات تھی۔ لفظ ’حضرت صاحب ‘سے ذہن نے جوعقیدت و محبت کا خاکہ بنایا تھا، اس خاکے سے اُنہیں بدرجہا افضل و برتر دیکھا ،اور محسوس کیا۔جب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام پیش کیا، تو حضرت صاحب نے ہمارا نام اور ولدیت پوچھی ۔ ہم نے سر جھکائے اپنا’’افتخار احمد‘‘ اور ابو کا نام ’مولانا نثار الحق قاسمی‘ ؔبتایا ۔ یاد پڑتا ہے حضرت صاحب ھمارے گاؤں میں تقریباً گیارہ بارہ بجے تک قیام فرما ہوئے تھے۔خواتین کی بیعت کے سلسلے میں ھمارے غریب خانہ کو بھی اپنے قدم کی عزت بخشی تھی،ھمار ے گھر پر ہی خواتین سے بیعت لیا تھا۔اصلاحی خطاب میں شریعت پر پابندی ،احکام پرعمل در آمد اور گناہوں سے اجتناب کی واضح تلقین فرمائی تھی ۔ یاد پڑتا ہے کہ ھمارے گاؤں کے اکثر جام و مینا کے دلدادہ شرابی جام شکستہ کرکے تائب ہوکر معتکف ِ منبر و محراب ہوگئے تھے، چہرے پر سنت نبوی داڑھی سجالی تھی۔خواتین میں نمازوں کی کثرت،لڑائی جھگڑے سے اجتناب ، اوراٹھتے بیٹھتے درودپاک کا ورد میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اورکانوں سے سنا ہے ،حضرت نے ھمارے گاؤں کے بدنام زمانہ شرابی سے توبہ کروائی اور کبھی نہ ’پینے ‘کا عہد بھی لیا تھا۔ حضرت صاحب کا پہلا اور گہرانقش مجھ پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوکر رہ گیا۔دل میں یہی خواہش رہتی کہ حضرت صاحب کے نقش قد م پر چلتا رہوں۔ والدین بالخصوص والدہ مرحومہ حضرت صاحب کی سچی عقیدت مند تھیں،بناء بریں اِسی عقیدت و محبت کے باعث جب کچھ سیپارے حفظ کرلئے اوراردو کی کچھ کتاب پڑھ لیں، تو جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگیر میں درجہ ٔحفظ میں داخل کرایا گیا، جہاں حضرت صاحب سے میری دوسری ملاقات ہوئی ،اور پھر یہ گناہ گار ہمیشہ کے لئے خانقاہ رحمانی اور جامعہ رحمانی کا ایک ادنیٰ فرد بن گیا ۔
جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی میں چار سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران گرچہ میں حفظ کاادنیٰ طالب علم تھا، لیکن وہاں کی علم دوست فضا اور خانقاہ کی برکت سے اردو زبان کی شناسائی، تذکیر و تانیث کا خیال، تقریر و خطاب اور، مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا ،دستی خط میں کمالِ مہارت جامعہ رحمانی کے طلبائے عزیز کی خصوصی شناخت ہے، دستی خط کی مشق کرکے اپنا خط درست کیا ۔وہاں منعقد ہونے والی طلبہ کی خصوصی بیت بازی سے’شاعری‘ سے دلچسپی ہوئی۔ یہیں حالی ؔ،اقبالؔ،غالبؔ ، حفیظؔ جالندھری،شیخ سعدی ؔاور مولانا رومؔ اور مولانا محمدعلی جوہر ؔ کوجانا۔یہیں مسدسِ حالی،کلیات ِ اقبال اور شاہنامہ اسلام کی شکل دیکھی ۔ گرچہ راقم اپنی بزدلی کی وجہ سے کبھی کسی مسابقہ کا مساہم تو نہ بن نہ سکا،لیکن خانقاہ کی بابرکت فضاکے باعث اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی ۔گویا افتخار رحمانی فاخر ؔ کی تخم ریزی خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوچکی تھی ، البتہ اس کا اظہار جامعہ رحمانی کے سطح پر نہ ہوسکاتھا، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔ گنا ہ گار جامعہ رحمانی خانقاہ، مونگیر میں ایک گمنام طالب علم ہی رہا، سوائے استا د خاص قاری عبد القادر صاحب زید مجدہ اور مولانا حافظ اکرام الحق رحمانی صاحب زید مجدہ اور اپنے چند ہم شرارت دوست کے ،کوئی مجھے وہاں جانتا نہیں تھا، (یہ الگ با ت ہے سوشل میڈیا کے توسط سے کہ اب کئی لوگ جاننے لگے ہیں)۔جب دارالعلوم وقف دیوبند میں شعبہ تفسیر کا طالب علم تھا، تو اُس وقت2013-14 میں فارغ وقت میں استاد مکرم حضرت مولانا فضیل احمد ناصری مدظلہ استادحدیث جامعۃ ا لامام محمد انور شاہ ،دیوبند کی سرپرستی میں مستقل سیاسی موضوعات پر لکھنے لگا۔ میری تحریر ملک کے بیشتر اخبار ات میں شائع بھی ہونے لگی ۔ حضرت صاحب ؒ مستقل اخبارات دیکھتے تھے ، کئی بار ادارتی صفحہ میں ’’افتخاررحمانی‘ نام دیکھا ،تو افتخاررحمانی کو تلاش کیا ۔ خادم ِ خاص حافظ امتیاز رحمانیؔ صاحب کو حکم دیا کہ پتہ کیا جائے کہ ’افتخاررحمانی ‘کون ہے؟حضرت صاحب کا ’افتخار رحمانی‘ کے بارے میں پوچھنا ،اور تلاش کرنے کا حکم دینا ، میرے لئے عمر بھر کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت جلدی معلوم کرلیا گیا کہ افتخاررحمانی کون ہے ؟ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب اپنی مبارک زبان سے ’’افتخاررحمانی ‘‘ کا نام لے رہے ہیں ، تو ایسا لگا کہ دنیا کا سب سے بڑا عزاز میرے نام کردیا گیا ہے ۔
غرق ماہِ چرخ وگردوں ، مہر تاباں کردیا!
(قسط اول )
افتخاررحمانی فاخرؔ
جب شعورکی آنکھیں کھولیں ، اور اپنے پاس پڑوس کے احوال کی خبر ہونے لگی، تو اس وقت جو لفظ بار بار بصد عزت و احترام والدین کی زبانی سنتا تھا ،وہ لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ تھا۔جہاں کہیں بھی ،اور جب بھی لفظ ’’حضرت صاحب ‘‘ بولا جاتا ، اس سے مراد مونگیر والے حضرت صاحب ہوا کرتے تھے ۔حتیٰ کہ اگر غیر کی مجلسوںمیں بھی لفظ ’’حضرت صاحب‘‘ بولا گیا ، تو گنہ گار کے ذہن نے مونگیر والے حضرت صاحب کو ہی تصور کیا ۔ جب بھی یہ لفظ والدین یا دیگر رشتہ دار کی زبانی سنتا ، تو ذہن میں ایک عظیم ستودہ صفات ، فرشتہ رو اور شفیق شخصیت کا خاکہ ذہن میں ابھر کر آتا تھا، غرض کہ ایک ننھی سی عقیدت کی کل کائنات مونگیر والے’ حضرت صاحب‘ ہی تھے ۔لیکن ہائے ! آج ’’حضرت صاحب ‘‘ کو مدظلہ العالی کے بجائے ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ لکھ رہا ہوں ، توجگر پاش پاش ہورہا ہے ،حواس اڑ چکے ہیں ،دماغ متحیر اور ہوش مختل ہیں۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ حضرت صاحب اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،آمین ۔
حسن ِ اتفاق کہہ لیں، اُسی زمانے میں غالباً 1993-94میں مدرسہ رحمانیہ سوپول بہار میں کوئی اصلاحی یا مدرسہ کا سالانہ جلسہ تھا۔ اس جلسے کے بعد حضرت صاحب کا مختلف گاؤں، جس میں برداہا، کنہی، جمال پور ، للہول، سنگھیا ، وغیرہ میں دورہ بھی متعین تھا۔دورہ کی فہرست میں ہمارے چھوٹے سے گاؤں ’’سویا ‘‘(SIWAIYA)کو بھی میزبانی کے شرف سے نوازا گیا تھا۔ ایک صبح آنکھ کھلی ، تو گاؤں میں سنا کہ حضرت صاحب تشریف لانے والے ہیں ۔ اِس مسرت آمیز خبر سے گاؤں کے ہر شخص کے چہرے پر خوشی،مسرت اور انبساط جھلکنا لگا ۔ بچے بوڑھے ،مرد و خواتین گاؤں کے تمام لوگ حضرت صاحب کی تشریف آوری سے مسرور دیدہ ودل فرشِ راہ کئے، سراپا استقبال تھے ۔جیسا کہ یاد پڑتا ہے، اس خوشی میں گاؤں کے ہندو بھائی بھی شریک تھے ۔استقبال کی تیاریوں میں گاؤں کے وسیع و عریض میدان میں پنڈال لگایا گیا تھا، استقبالیہ بینر جس میں ’آنا تیرا مبارک ہو تشریف لانے والے ‘ جیسا مصرعہ جلی حرف میں لکھا گیا ۔ گاؤں کے صدر گیٹ پر ’’ خوش آمدید‘‘کئی رنگوں میں منقش لکھا گیا تھا ۔برقی روشنی کا انتظام کیا گیا تھا، گاؤں میں بڑی چہل پہل اور عید کی جیسی خوشی کا عالم تھا۔رات کب ہوئی اور کب ’حضرت صاحب‘ تشریف لائے ، ہمیں اس کا پتہ تو نہ چلا۔ البتہ جب صبح ہوئی، تو والدہ مرحومہ برداللہ مضجعہا نے جگاکر کہا’ اٹھو حضرت صاحب آگئے ہیں ،ہاتھ منھ دھوؤ،اور جاؤ فلاں جگہ حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں ، سلام مصافحہ کرآؤ‘۔اپنے کسی قریبی کی معیت میں حضرت صاحب سے ملاقات کیا ، اس وقت حضرت صاحب ایک صوفے پر مثل شمع تشریف رکھے ہوئے تھے ،اور عقیدت مند، ان کے ارد گرد حلقہ بنائے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ حضرت صاحب سے یہ باضابطہ ھماری پہلی ملاقات تھی۔ لفظ ’حضرت صاحب ‘سے ذہن نے جوعقیدت و محبت کا خاکہ بنایا تھا، اس خاکے سے اُنہیں بدرجہا افضل و برتر دیکھا ،اور محسوس کیا۔جب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام پیش کیا، تو حضرت صاحب نے ہمارا نام اور ولدیت پوچھی ۔ ہم نے سر جھکائے اپنا’’افتخار احمد‘‘ اور ابو کا نام ’مولانا نثار الحق قاسمی‘ ؔبتایا ۔ یاد پڑتا ہے حضرت صاحب ھمارے گاؤں میں تقریباً گیارہ بارہ بجے تک قیام فرما ہوئے تھے۔خواتین کی بیعت کے سلسلے میں ھمارے غریب خانہ کو بھی اپنے قدم کی عزت بخشی تھی،ھمار ے گھر پر ہی خواتین سے بیعت لیا تھا۔اصلاحی خطاب میں شریعت پر پابندی ،احکام پرعمل در آمد اور گناہوں سے اجتناب کی واضح تلقین فرمائی تھی ۔ یاد پڑتا ہے کہ ھمارے گاؤں کے اکثر جام و مینا کے دلدادہ شرابی جام شکستہ کرکے تائب ہوکر معتکف ِ منبر و محراب ہوگئے تھے، چہرے پر سنت نبوی داڑھی سجالی تھی۔خواتین میں نمازوں کی کثرت،لڑائی جھگڑے سے اجتناب ، اوراٹھتے بیٹھتے درودپاک کا ورد میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اورکانوں سے سنا ہے ،حضرت نے ھمارے گاؤں کے بدنام زمانہ شرابی سے توبہ کروائی اور کبھی نہ ’پینے ‘کا عہد بھی لیا تھا۔ حضرت صاحب کا پہلا اور گہرانقش مجھ پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہوکر رہ گیا۔دل میں یہی خواہش رہتی کہ حضرت صاحب کے نقش قد م پر چلتا رہوں۔ والدین بالخصوص والدہ مرحومہ حضرت صاحب کی سچی عقیدت مند تھیں،بناء بریں اِسی عقیدت و محبت کے باعث جب کچھ سیپارے حفظ کرلئے اوراردو کی کچھ کتاب پڑھ لیں، تو جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگیر میں درجہ ٔحفظ میں داخل کرایا گیا، جہاں حضرت صاحب سے میری دوسری ملاقات ہوئی ،اور پھر یہ گناہ گار ہمیشہ کے لئے خانقاہ رحمانی اور جامعہ رحمانی کا ایک ادنیٰ فرد بن گیا ۔
جامعہ رحمانی اور خانقاہ رحمانی میں چار سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران گرچہ میں حفظ کاادنیٰ طالب علم تھا، لیکن وہاں کی علم دوست فضا اور خانقاہ کی برکت سے اردو زبان کی شناسائی، تذکیر و تانیث کا خیال، تقریر و خطاب اور، مضمون نویسی کا شوق پیدا ہوا ،دستی خط میں کمالِ مہارت جامعہ رحمانی کے طلبائے عزیز کی خصوصی شناخت ہے، دستی خط کی مشق کرکے اپنا خط درست کیا ۔وہاں منعقد ہونے والی طلبہ کی خصوصی بیت بازی سے’شاعری‘ سے دلچسپی ہوئی۔ یہیں حالی ؔ،اقبالؔ،غالبؔ ، حفیظؔ جالندھری،شیخ سعدی ؔاور مولانا رومؔ اور مولانا محمدعلی جوہر ؔ کوجانا۔یہیں مسدسِ حالی،کلیات ِ اقبال اور شاہنامہ اسلام کی شکل دیکھی ۔ گرچہ راقم اپنی بزدلی کی وجہ سے کبھی کسی مسابقہ کا مساہم تو نہ بن نہ سکا،لیکن خانقاہ کی بابرکت فضاکے باعث اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی ۔گویا افتخار رحمانی فاخر ؔ کی تخم ریزی خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوچکی تھی ، البتہ اس کا اظہار جامعہ رحمانی کے سطح پر نہ ہوسکاتھا، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔ گنا ہ گار جامعہ رحمانی خانقاہ، مونگیر میں ایک گمنام طالب علم ہی رہا، سوائے استا د خاص قاری عبد القادر صاحب زید مجدہ اور مولانا حافظ اکرام الحق رحمانی صاحب زید مجدہ اور اپنے چند ہم شرارت دوست کے ،کوئی مجھے وہاں جانتا نہیں تھا، (یہ الگ با ت ہے سوشل میڈیا کے توسط سے کہ اب کئی لوگ جاننے لگے ہیں)۔جب دارالعلوم وقف دیوبند میں شعبہ تفسیر کا طالب علم تھا، تو اُس وقت2013-14 میں فارغ وقت میں استاد مکرم حضرت مولانا فضیل احمد ناصری مدظلہ استادحدیث جامعۃ ا لامام محمد انور شاہ ،دیوبند کی سرپرستی میں مستقل سیاسی موضوعات پر لکھنے لگا۔ میری تحریر ملک کے بیشتر اخبار ات میں شائع بھی ہونے لگی ۔ حضرت صاحب ؒ مستقل اخبارات دیکھتے تھے ، کئی بار ادارتی صفحہ میں ’’افتخاررحمانی‘ نام دیکھا ،تو افتخاررحمانی کو تلاش کیا ۔ خادم ِ خاص حافظ امتیاز رحمانیؔ صاحب کو حکم دیا کہ پتہ کیا جائے کہ ’افتخاررحمانی ‘کون ہے؟حضرت صاحب کا ’افتخار رحمانی‘ کے بارے میں پوچھنا ،اور تلاش کرنے کا حکم دینا ، میرے لئے عمر بھر کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت جلدی معلوم کرلیا گیا کہ افتخاررحمانی کون ہے ؟ جب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب اپنی مبارک زبان سے ’’افتخاررحمانی ‘‘ کا نام لے رہے ہیں ، تو ایسا لگا کہ دنیا کا سب سے بڑا عزاز میرے نام کردیا گیا ہے ۔
”ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے‘‘
(باقی آئندہ ، ان شا ء اللہ الرحمن)
آخری تدوین: