آہ بے چاروں کے اعصاب پہ۔۔۔

محمد علم اللہ اصلاحی
’’علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں قوم کے دانشوروں کے ذہنی حصار پر افسوس کرتے ہوئے ایک بہت لطیف اِشارہ کیا تھا ”آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار“ اِقبال نے جس سوز اور درد کے ساتھ یہ شعر کہا ہوگا اس کا اندازہ کلامِ اِقبال سے مناسبت رکھنے والے اصحاب بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اقبال نے جس ذہنی حصار اور اخلاقی پستی کا ذکر کیا ہے وہ تقریباً ہر زمانے میں موجود رہی ہے۔ اور انسانی نفسیات اس بات کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ انسان جنس مخالف کی طرف مائل ہو۔ دور حاضر کی ذہنی پستی اور اخلاقی زوال کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو خود کو اہل ایمان کہتے ہیں وہ بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔جب سے بزم اردو (یہ انٹر نیٹ پربزم اردو ڈاٹ نیٹ کے نام سےفیس بک کی طرح ایک اردو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہے) کی شروعات ہوئی ہے میں نے گوگل اینالیٹکس دیکھنا شروع کیا ہے گوگل اینالیٹکس کی مدد سے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ آپ کی ویب سائٹ پر ٹریفک کہاں سے آ رہی ہے اور کون سا لفظ لوگوں کو آپ کی ویب سائٹ پر لانے میں معاون بن رہا ہے۔

وہ وقت میرے لیے انتہائی حیرت و تعجب کا تھا جب میں نے یہ محسوس کیا کہ نئے وزیٹرس میں تقریباً 40 فیصد وہ وزیٹرس ہوتے ہیں جو صرف اورصرف وقتی تلذز کی تلاش میں ویب سائٹ کی خاک چھانتے ہیں۔ فحش سائٹ بنانے والوں نے جنس کے بھوکے نیٹیزن(شہر کا باسی سٹی زن، بعینہ اسی طرح انٹر نیٹ کا باسی نیٹی زن) کی ان سائٹس تک رسائی اس قدر آسان بنا دی ہے کہ انگریزی آلفابیٹ کا محض ایک حرف سرچ انجن میں داخل کرتے ہی سیکڑوں سائٹس کے پتے آن کی آن میں نظر کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ کسی شخص کے ذہن و مزاج ، وجدان و فکر اور قلبی میلانات پر لسانی و تہذیبی اثرات کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔بزم اردو کی تشکیل کے پیچھے یہ ہی مقاصد کار فرما تھے کہ جدید نسل کا ناطہ زبان و صلح ادب سے جوڑا جائے اور مشرقی اقدا رکے تحفظ کا دفاع اس انداز میں کیا جائے کہ جدید ذہن بھی اسے قبول کریں۔

لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ سیکس کے یہ متلاشی انگریزی الفاظ کو ذریعہ نہیں بناتے بلکہ اردو کلیدی الفاظ( کی ورڈس) تلاش کرتے ہوئے بزم تک پہنچتے ہیں۔مجھے سوءادب معلوم ہوتا ہے کہ میں سرچ کیے جانے والے ان حروف /الفاظ/ فقروں کو یہاں تحریر کروں۔ تلا ش کیے جانے والے فقروں اور الفاظ میں بنیادی جنسی سوالات کے علاوہ اس قدر غلاظت بھری باتیں ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر ایک سلیم الفطرت شخص کو اس ذہنی پستی پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ انسان اور خاص طور پرمشرق کا رہنے والا ، خدا اور یومِ جزاءپر ایمان رکھنے والا انسان بھی قعر مذلت میں اس قدر گر سکتا ہے ؟چونکہ بزم کے ” کی ورڈز “ میں تصاویر ، ویڈیوز موجود ہیں اور فورم ا ور بلاگ بزم اردو میں کچھ قلم کاروں کی ایسی تحریریں بھی جن میں وہ کی ورڈس یا کلیدی الفاظ شامل ہیں۔ اس لیے گوگل ان ہوس کے بھوکے لوگوں کا رخ بزم کی طرف موڑ دیتا ہے۔جب ہماری ادبی و یب سائٹ کا یہ حال ہے تو جو ویب سائٹس خالص فحش مواد فراہم کرتی ہیں ان پر ان جنس کے بھوکے افراد کی آمد ورفت کتنی ہوتی ہوگی؟‘‘

یہ میرے ایک عزیز دوست اور بزم اردو کے منتظم ڈاکٹر سیف قاضی کا تجزیہ ہے جسے انہوں نے انتہائی کرب کا اظہار کرتے ہوئےمجھے انٹرنیٹ رابطہ میں بتایا۔واضح رہے کہ ڈاکٹر سیف قاضی پیشہ ورانہ لحاظ سے ایک ہومیو پیتھی ڈاکٹر ہیں لیکن ان میں اردو کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور اسی محبت نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اردو حلقہ کے لئے فیس بک کا متبادل کوئی سوشل نیٹ ورک بشکل سائٹ یا فورم بنائیں ،” بزم اردو “ ان کی اسی محنت اور محبت کا ثمرہ ہے جہاں آج اندرونِ ملک و بیرون ملک ہزاروں کی تعداد میں محبان اردو خوشہ چینی میں مصروف ہیں۔

میں واقعی یہ بیان نہیں کر سکتا کہ ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے او پر کیا گذری۔میں سوچ رہا تھا کہ ہم کتنے گر گئے ہیں اورہمارا معاشرہ کتنا زوال پذیر ہو گیا ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں علم و ادب کے خزانے دفن ہیں ہم اُنہیں چھوڑ کر گندگی اور آلودگی کو تلاش کرنے اور اپنے ذہن و اخلاق کو آلودہ کرنے پر جان بوجھ کر آمادہ ہیں۔مجھے یہ معلوم کر کے اور بھی حیرت ہوئی کہ اب اس قسم کی گھٹیا چیزیں اہلِ اردو بھی، جو خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور بہترین زبان والا قرار دیتے ہیں، تلاش کر رہے ہیں۔ظاہر ہے میٹر اور مواد یقینا موجود ہوگا تبھی تو لوگ اس طرح کی چیزیں تلاش کر رہے ہیں۔اور اگر نہیں بھی ہو گا تو اس مغربی تہذیب نے اس قدر یلغار کی ہے کہ اب اس سے اہل ایمان اور خود کو مسلمان کہنے والے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔حالانکہ دینِ اِسلام ” ستر“ و” بصر “کے معیار ات کی مفصل اور بخوبی وضاحت کرچکا ہے۔ مغرب تو مادر پدر آزاد ہے جس کی ساری تگ و دَو اور کوشش دُنیا تک ہی محدود ہے انھوں نے اصل زندگی دنیا کو ہی تصور کر لیا ہے ۔جب کے ہمارے یہاں معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے ، اس کے باوجود بھی ہم اپنی آنکھیں چرائے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بعض نوجوان اسے درست قرار دے کر دلائل فراہم کرنے لگ گئے ہیں جو ایک غلط بات ہے۔ بے حیائی ہر درجے میں قابل مذمت ہے صرف آخری درجے کی باتوں کو برا بھلا کہہ کر ہم اسی مغربی قافلے میں شامل ہو رہے ہیں جن کے نزدیک باقی سب کچھ جائز ہے۔

اسلام نے صرف زناکو ہی حرام قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس جیسے خیالات اور اس کی جانب لے جانے والے اقدامات بھی اس زمرے میں شامل ہیں اللہ تعالی نے فرمایا”اور تم زنا کے قریب بھی مت جاؤ۔ بلاشبہ وہ ایک بے حیائی کا کام ہے اور برا راستہ ہے۔“ (بنی اسرائیل 32)۔یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ زنا کے قریب جانے سے مراد وہ تمام راستے اور ذرائع ہیں جو زنا کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں لہٰذا ان ذرائع کا استعمال بھی حرام ہے جو زنا سے قریب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”پس آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے۔اور ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑناہے۔ اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے۔ اور ہونٹ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا بوسہ لینا ہے۔ اور دل گناہ کی طرف مائل ہوتاہے اور اس کی خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔“(مسند احمد :جلد2، ص 343'موسسۃ قرطبہ القاھرہ)

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد مجھے امام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی ایک بات ذہن میں آئی جس میں انھوں نے شرک کی تعریف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شرک محض خدا کے انکار کا نام نہیں ہے بلکہ شرک یہ بھی ہے کہ ہم وہ کام کریں جس سے اللہ نے ہمیں منع کیا ہے اور ہم جانتے بوجھتے وہ کام کرتے ہیں گویا خدا سے نہیں ڈرتے اور خدا سے نہ ڈرنا بھی شرک ہے۔اب جو لوگ بھی اس طرح کی برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں انھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ کہیں شرک تو نہیں کر رہے ہیں۔جو لوگ بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اپنے ذہنوں کو آلودہ کرتے ہیں وہ اسی زمرے میں شامل ہوں گے اس لئے بہرحال اس طرح کی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے اور حتی الامکان اس بات کی کوشش ہونی چاہئے کہ ذہن ادھر نہ بھٹکے۔

اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم چاہیں گے،اور برائی کو برائی تصور کریں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام صحیح معنوں میں حکومتوں کے کرنے کا ہے کہ وہ اس طرح کی چیزوں پر لگام لگائے اور ایسا سسٹم بنائے کہ ایسی سائٹس کھل ہی نہ سکیں ۔لیکن ہماری حکومت بار بار یاد دلانے کے باوجود اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی انٹرنیٹ پر پیش کی جا نے والی فحش سائٹس پر پابندی لگانےکے حوالے سے مرکزی حکومت کو چار ہفتے کا نوٹس جاری کیا تھا۔ خبروں کے مطابق کیرالا کے کملیش واسوان نامی ایک شخص کی درخواست کے پیش نظرسپریم کورٹ نے انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔لیکن ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکلا۔حیرت ہے کہ ہماری ملیّ تنظیمیں بھی اس جانب دھیان نہیں دیتیں انھیں تو صرف مذہبی بیان جاری کرنا آتا ہے۔انھیں دہشت گردی ،کرپشن اور اسی طرح کی چیزوں پر بیان بازی سے فرصت نہیں ملتی۔

حالانکہ یہ اتنا خطرناک ہے کہ ہم اس کا اندازہ تک نہیں کر سکتے ۔ معاشرے میںشیطانیت کی حد تک پھیلتی ہوئی گمراہی،ہم جنس پرستی ،زنا، عصمت دری ،لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے یہ سب اسی کے نتائج ہیں۔جس طرح دہشت گردی، بد عنوانی اور بے ایمانی جیسی معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔ٹھیک اسی طرح فحش سائٹس بھی سماج کے لئے انتہائی خطرناک اور ناسور کی مانند ہیں جو میٹھے زہر کی طرح انسان کو تباہ کر دیتی ہیں چاہے وہ کسی بھی زبان یا لنگویج میں ہوں۔بلکہ یہ تو جنگ کا ایک حصہ ہے جسے سائبر وار کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہیں نہ کہیں ہمارے بچے یہ دیکھ کر اخلاقی باختگی کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ عملی طور پر اس کی انسدادی تدابیر کے لئے کچھ نہیں کریں گے۔

مسلم والدین ، ملیّ تنظیمیں اور این جی اوز کو اس جانب دھیان دینا چاہیےاور اس طرح کی چیزوں کو بلاک کیےجانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی اس بات کی تربیت دینی چاہیے کہ وہ کس طرح کی چیزیں دیکھیں اور کن سائٹس سے پرہیز کریں۔ کچھ سال قبل ملیشیا نے اس طرح کی برائیوں سے بچنے اور مسلمانوں کو انٹرنٹ پر بڑھتے ہوئے فحش مواد سے روکنے کے لیے دُنیا کا اولین ’حلال‘ سرچ انجن شروع کیا تھا اس طرح کی سائٹوں کوبھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔بعض جگہوں پر فیس بک اور یو ٹیوب پر بھی پابندی ہے۔خود ہندوستان کی معروف دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صرف اکیڈمک سائٹس ہی کھلتی ہیں بعض پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں بھی ایسا ہو رہا ہے لیکن اس سے کام نہیں بنے گا کلی طور پر اس کے تدارک کے لئے اقدامات کرنے پڑیں گے۔تبھی بچوں کو اس بات سے روکا جا سکتا ہے کہ ایسے سائٹس تک ان کی رسائی نہ ہو۔

کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ساری انسانیت اس کی زد میں آ رہی ہے اور اس کے اثرات سب پر یکساں طور پر پڑ رہے ہیں۔اس لئے بھی نہ صرف بطور مسلمان، بلکہ بحیثیت ایک انسان ، اسکی روک تھام کیلئے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔اور ایک جمہوری ملک میں آواز اٹھانے کی چونکہ آزادی ہو تی ہے تو ہم اس کے خلاف آواز اٹھا کر حکومت کو اس بات پر مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اس پر پابندی لگائے۔ جہاں تک اردو میں اس طرح کے مواد ہونے کی بات ہے تو حکومت کو اس بارے میں پتہ ہی نہیں ہے ارباب حل و عقد اور اس طرح کی چیزوں کا ادراک رکھنے والے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے منتظمین کو روشناس کرائیں اورمطالبہ کریں کہ اس پر پابندی لگائی جائے۔ خبروں کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت نے556 سائٹس کو بند کر نے کا فیصلہ لے لیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اہلِ اردو کو چاہئے کہ وہ بھی اس طرح کی گندگی سے حکومت کو واقف کرائیں تاکہ اس پر بھی نکیل ڈالی جا سکے۔انسان آئند ہ نسلوں کا مقروض ہوتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کہ آئندہ نسلوں کے قرض کو چکانے کے لئے مستقبل کی اچھی طرح نشاندہی اور منصوبہ بندی کرکے ان کے لئے بہتر راہیں ہموا ر کر کے جائے۔
 
بہت اچھی بات کہی علم بھائی آپ نے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
ایک حل اس کا یہ بھی ہے کہ قرآن و حدیث میں جو وعدے اور وعیدیں ہیں ہم انھیں ایک دوسرے کو خوب سنیں اور سنائیں، اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے اور دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ دنیا کی مختصر سی زندگی کی فانی لذتوں کے بدلے آخرت کی ابدی حیات کی لافانی لذتوں کو قربان کردینا حد درجے نادانی کی بات ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی من جملہ نعمتوں کے حور مقصورات فی الخیام جیسی نعمتوں کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دین ، ایمان ، جذبات اور اخلاق کی حفاظت فرمائے۔
نظریات کا اختلاف تو ہوتا ہے ، میرا ذہن یہ ہے کہ برائی کا بہت زیادہ تذکرہ بھی بعض اوقات مزید برائی کو جنم دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے، مثال کے طور پر نیٹ کی یہ برائیاں اگرکسی کو معلوم ہی نہ ہو تو وہ الانسان حریص فیما منع اور الناس اعداء لماجہلوا کے تحت ٹؤہ میں لگ جائے گا کہ یہ آخر ہے کیا بلا، دوسری طرف نہی عن المنکر بھی بقدر استطاعت واجب ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ حل صرف یہ نہیں کہ ان برائیوں تک رسائی کو ناممکن بنادیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر نیک جذبات اور درد دل رکھنے والا مجمع فردا فردا اپنی طاقت کے مطابق لوگوں پر اس طرح محنت بھی شروع کردے کہ خود لوگوں کے دلوں میں ان برائیوں سے بچنے کا جذبہ بیدار ہوجائے تو پہلی صورت کی ضرورت ان لوگوں کے حق میں نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ وسائلِ بدی کے سد باب کے ساتھ ساتھ برائی سے بچنے کا جذبہ بھی پھیلانے کی محنت کی جائے تو ان دونوں کے نتیجے میں حوصلہ افزا صورتِ حال وجود میں آئے گی۔ نیز اگر ہدایت کے طلبگار اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ ہدایت دینا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے ہم صرف محنت کے مکلف ہیں تو داعیانِ حق حوصلوں کی شکستگی سے محفوظ رہیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب!
 
بہت بہت شکریہ بھائی جان آپ نے یہ کب لکھا تھا اور میں آج دیکھا ۔جزاکم اللہ خیر
بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے توجہ سے پڑھا بھی اور قیمتی رائے سے بھی نوازا ۔اللہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے۔
 
بہت اچھی بات کہی علم بھائی آپ نے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
ایک حل اس کا یہ بھی ہے کہ قرآن و حدیث میں جو وعدے اور وعیدیں ہیں ہم انھیں ایک دوسرے کو خوب سنیں اور سنائیں، اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے اور دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ دنیا کی مختصر سی زندگی کی فانی لذتوں کے بدلے آخرت کی ابدی حیات کی لافانی لذتوں کو قربان کردینا حد درجے نادانی کی بات ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی من جملہ نعمتوں کے حور مقصورات فی الخیام جیسی نعمتوں کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دین ، ایمان ، جذبات اور اخلاق کی حفاظت فرمائے۔
نظریات کا اختلاف تو ہوتا ہے ، میرا ذہن یہ ہے کہ برائی کا بہت زیادہ تذکرہ بھی بعض اوقات مزید برائی کو جنم دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے، مثال کے طور پر نیٹ کی یہ برائیاں اگرکسی کو معلوم ہی نہ ہو تو وہ الانسان حریص فیما منع اور الناس اعداء لماجہلوا کے تحت ٹؤہ میں لگ جائے گا کہ یہ آخر ہے کیا بلا، دوسری طرف نہی عن المنکر بھی بقدر استطاعت واجب ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ حل صرف یہ نہیں کہ ان برائیوں تک رسائی کو ناممکن بنادیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر نیک جذبات اور درد دل رکھنے والا مجمع فردا فردا اپنی طاقت کے مطابق لوگوں پر اس طرح محنت بھی شروع کردے کہ خود لوگوں کے دلوں میں ان برائیوں سے بچنے کا جذبہ بیدار ہوجائے تو پہلی صورت کی ضرورت ان لوگوں کے حق میں نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ وسائلِ بدی کے سد باب کے ساتھ ساتھ برائی سے بچنے کا جذبہ بھی پھیلانے کی محنت کی جائے تو ان دونوں کے نتیجے میں حوصلہ افزا صورتِ حال وجود میں آئے گی۔ نیز اگر ہدایت کے طلبگار اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ ہدایت دینا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے ہم صرف محنت کے مکلف ہیں تو داعیانِ حق حوصلوں کی شکستگی سے محفوظ رہیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب!


متفق
 
بہت بہت شکریہ بھائی جان آپ نے یہ کب لکھا تھا اور میں آج دیکھا ۔جزاکم اللہ خیر
بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے توجہ سے پڑھا بھی اور قیمتی رائے سے بھی نوازا ۔اللہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے۔

جس دن دھاگا وجود میں آیا تھا اسی دن میں نے یہ لکھا تھا۔:)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
السلام علیکم
نہایت ہی عمدہ !بہت اچھی اصلاحی تحریر۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ ملت کو آپ جیسے ہی ادیبوں، صحافیوں کی ضرورت ہے۔
ہم تو آپ کی ذات میں مستقبل کا ایک عظیم صحافی اور ادیب دیکھتے ہیں۔ جہدمسلسل جاری رکھیے۔
کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ان شاء اللہ
 
فارقلیط رحمانی بھائی جان آپ کی تعریف کے بعد :yell: اسطرح سے پھول کے کپا ہو گئے ہیں ۔
اتنی تعریف نہ کیجئے۔کہ آئندہ منہ دکھانے لائق ہی نہ رہیں ۔
لیکن بھائی جان اتنا تو کہ ہی سکتا ہوں آپ لوگوں کی امیدوں پر کھرا اترنے کی کوشش کروں گا انشائ اللہ ۔بس دعا کی درخواست ہے۔
 

عبدالحسیب

محفلین
بھائی جان تحریر واقعی جاندار ہے ۔لیکن میں اس موضوع پر تھوڑی مختلف رائے رکھتا ہوں۔ میرے مطابق آج انفارمیشن ٹیکنولوجی کی جس سطح پر ہم کھڑیں ہیں اس مقام پر پوری طرح اس بے حیائی پر قابو پانا خصوصاً انٹرنٹ کی حد تک نا ممکن کے قریب ہے۔ کتنی ہی تعداد میں 'پورن سیکورٹی ٹول' ، حلال سرچ انجن موجود ہیں لیکن انٹرنٹ ایک ایسا جال ہے جس میں کتنی ہی پابندی لگانے پر بھی فرار کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ہمیں زیادہ توجہ اخلاقی تعلیم پر دینے کی ضرورت ہے۔ کتنی ہی پابندی آپ اپنی لختِ جگر پر ، گوشہ چشم دختر پر لگا لیں، کسی نا کسی جگہ وہ اس بے حیائی سے روشناس ہو ہی جاتے ہیں۔ ہمیں ابتداء سے ہی وہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ بچے، جوان، بزرگ چاہتے ہوئے بھی اس نا پاکی کی طرف نہ جائیں۔ جس طرح ایک مسلمان سور کے گوشت کو حرام تصور کرتا ہے اسی طرح وہ پورن کو بھی حرام تصور کرے یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ آپ چاہیں کتنی ہی خنزیر کے گوشت کی دکانیں لگا لیں ایک مومن اس راستہ سے بھی جانا پسند نہیں کرے گا جہاں وہ دوکان موجود ہو۔ ایک اور پہلو جو ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ پورن تک لے جانے والے ، یا پورن کی طرف متوجہ کرنے والے ذرائع کیا ہیں؟ کسی نیم برہنہ اداکارہ کا ناچ، اخبار کے صفحہ اول پر خواتین کی ضروریات کے سامان، ان کے زیر جامہ کے اشتہار یہ وہ ذرائع ہیں جو انسان کی شہوت کو بھڑکاتے ہیں اور تشنہ لب چھوڑ دیتے ہیں ۔پھر انسان کی نفسِ عمارہ اپنا کام دکھاتی ہے اور وہ اپنی تسکین کے لیے نکلتا ہے اور پورن تک پہنچ کر ہی سیراب ہوتا ہے۔ یہ تو ہو گئی عام انسانوں کی بات۔ اب جسے ہم اردو ادب کہہ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں کیا وہاں اس شہوت کو بھڑکانے کا مواد موجود نہیں؟ خواتین کے نام پر شائع ہونے والے رسالے دیکھ لیجئے ایسی ایسی بے ہودہ باتیں موجود ہیں کہ بس۔ میری نظر میں ان ذرائع کو بھی ختم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پورن اور دوسری بے حیائیوں کو۔ جیسا کہ اللہ کا حکم ہے زنا کے قریب بھی نہ بھٹکو۔ تو یہ ذرائع بھی اُسی قریب میں شمار ہیں۔ واللہ اعلم بی الصواب
 
Top