جگر آیا نہ راس نالۂ دِل کا اثر مجھے

طارق شاہ

محفلین
غزل
جگؔر مراد آبادی

آیا نہ راس نالۂ دِل کا اثر مجھے
اب تُم مِلے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

‎دِل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جِگر مجھے
‎یہ بات بُھولنے کی نہیں، عمر بھر مجھے

‎ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ، جلوہ گر مجھے
‎کیا کیا فریب، دیتی ہے میری نظر مجھے

مِلتی نہیں ہے لذّتِ دردِ جِگر مجھے
بُھولی ہُوئی نہ ہو نِگۂِ فِتنہ گر مجھے

‎ڈالا ہے بیخودی نے، عجب راہ پر مجھے
‎آنکھیں ہیں، اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

‎کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
‎مِل جائے دو گھڑی کو تمھاری نظر مجھے

‎مستانہ کر رہا ہُوں رَہِ عاشقی کو طے
‎لے جائے جذبِ شوق مِرا، اب جِدھر مجھے

‎ڈرتا ہُوں جلوۂ رُخِ جاناں کو دیکھ کر
‎اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے

‎یکساں ہے حُسن و عِشق کی سرمستِیوں کا رنگ
‎اُن کی خبر اُنھیں ہے، نہ اپنی خبر مجھے

‎مرنا ہے اُن کے پاؤں پہ رکھ کر سَرِ نیاز
‎کرنا ہے آج قِصّۂ غم مختصر مجھے

‎سِینے سے دِل عَزِیز ہے، دِل سے ہو تم عَزِیز
‎سب سے مگر عَزِیز ہے میری نَظر مجھے

‎میں دُور ہُوں تو روئے سُخن مجھ سے کِِس لیے
‎تم پاس ہو، تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے

‎کیا جانِیے، قَفَس میں رَہے کیا مُعاملہ
‎اب تک تو، ہیں عزیز مِرے بال و پر مجھے

‎(جگرؔ مراد آبادی)
 
Top