آیا ہوں در پہ تیرے یا رب ہوں اک سوالی----برائے اصلاح

الف عین
یاسر علی
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
------------------
آیا ہوں در پہ تیرے یا رب ہوں اک سوالی
جھولی مری کو بھر دے جاؤں نہ ہاتھ خالی
------------------
رکھے خیال سب کا ، اپنا نہ صرف سوچے
یا رب ہمیں عطا کر ، ایسا چمن کا مالی
---------------
چھوڑوں جو در میں تیرا ،جاؤں گا کس کے در پر
میں ہوں حقیر بندہ ،رتبہ ہے تیرا عالی
---------------
دل میں ہے اک تمنّا آؤں میں کام سب کے
کچھ مشکلیں ہیں حائل ، اکثر ہیں ان میں مالی
------------
مجھ پر کبھی کسی کی انگلی بھی اٹھ نہ پائے
یا رب مجھے عطا کر کردار اک مثالی
----------------
دنیا میں دین غالب میں پھر سے دیکھتا ہوں
کہتے ہیں لوگ مجھ سے تیری ہے خوش خیالی
--------------
ہے اک سوال یا رب گر تُو بُرا نہ مانے
کب تک رہے گی ہم پر غم کی یہ رات کالی
------------
تیرا فقیر بننا ہی چاہتا ہے ارشد
غیروں کے در پہ جائے بن کر نہ وہ سوالی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
ارشد بھائی آپ کو اس قسم کے مصرعے نہ جانے کیوں پسند ہیں، کیا آپ کی نظر میں رواں ہیں؟
جھولی مری کو بھر دے....
جھولی کو میری بھر دے... سامنے کا مصرعہ ہے، اسے چھوڑ کر یہ مجہول شکل پسند آتی ہے؟ اور یہی اس کا ثبوت ہے کہ آپ اتنی بار کہنے پر بھی اس پر عمل نہیں کر رہے کہ ہر ممکن شکل پر غور کریں اور جو بہترین، نثر کے قریب ترین، محسوس ہو، اسے مصرع کے طور پر قبول کر کے پوسٹ کریں۔
اسے خود روائز کریں۔
مالی مشکلیں ویسے تو درست ہیں لیکن قریب قریب ہوں تو، '... ہیں ان میں مالی' میں مالی مشکل سے بہت دور ہو گیا ہے
 

یاسر علی

محفلین
------------
آیا ہوں در پہ تیرے یا رب ہوں اک سوالی
جھولی مری کو بھر دے جاؤں نہ ہاتھ خالی
پہلے مصرعے میں ۔ہوں کا دو بار اچھا نہیں لگ رہا
اس کو یوں سوچ کر دیکھیں۔
آیا ہوں در پہ تیرے،یارب میں اک سوالی
دوسرے مصرعے میں «کو» ٹھیک نہیں لگ رہا
جھولی مری تُو بھر دے ،۔۔۔۔۔۔۔

رکھے خیال سب کا ، اپنا نہ صرف سوچے
یا رب ہمیں عطا کر ، ایسا چمن کا مالی
---------------
اگر پہلے مصرعے میں۔خیال رکھنا واضح ہو جائے تو بہتر رہے گا ۔مثلا پھولوں کا خیال رکھنا ۔یا اس طرح سے کوئی سوچیں۔


چھوڑوں جو در میں تیرا ،جاؤں گا کس کے در پر
میں ہوں حقیر بندہ ،رتبہ ہے تیرا عالی
---------------

پہلے حصے کی روانی بہتر ہو سکتی ہے
چھوڑوں ترا جو در میں،۔۔

دل میں ہے اک تمنّا آؤں میں کام سب کے
کچھ مشکلیں ہیں حائل ، اکثر ہیں ان میں مالی
------------
دوسرا مصرع کی سمجھ نہیں أئی۔۔
مجھ پر کبھی کسی کی انگلی بھی اٹھ نہ پائے
یا رب مجھے عطا کر کردار اک مثالی
----------------
پہلا مصرع میں محاورہ درست نہیں ۔
انگلی اٹھ پائے نہیں۔انگلی اٹھنا ہوتا ہے۔۔

دنیا میں دین غالب میں پھر سے دیکھتا ہوں
کہتے ہیں لوگ مجھ سے تیری ہے خوش خیالی
--------------
کونسا دین غالب ہوگا واضح نہیں۔
اس طرح سوچیں۔
دنیا میں دین احمد، غالب میں دیکھتا ہوں۔

ہے اک سوال یا رب گر تُو بُرا نہ مانے
کب تک رہے گی ہم پر غم کی یہ رات کالی
------------
یارب سوال ہے اک ۔۔
مزید یہ کہ کون سوال کر رہا ہے۔واضح نہیں۔
دوسرے مصرعے میں یہ شاید اضافی ہے۔
کب تک رہے گی ہم پر غم ہی کی رات کالی

تیرا فقیر بننا ہی چاہتا ہے ارشد
غیروں کے در پہ جائے بن کر نہ وہ سوالی

پہلا مصرعہ مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔
ارشد فقیر بننا تیرا ہی چاہتا ہے
مزید یہ کہ شاید صیغوں کا بھی مسئلہ ہے۔
 
آخری تدوین:
الف عین
یاسر علی
----------
(ایک بار پھر )
---------
آیا ہوں در پہ تیرے یا رب میں اک سوالی
جھولی مری تو بھر دے جاؤں نہ ہاتھ خالی
-------------
ہر پھول اس چمن کا جس کے لئے اہم ہو
یا رب ہمیں عطا کر ایسا چمن کا مالی
-------------
یا رب معاف کر دے میری سبھی خطائیں
میں ہوں حقیر ، عاجز ، تیرا مقام عالی
-------------
لوگوں کی مفلسی میں ، آؤں میں کام ان کے
لیکن کروں میں کیسے اپنی ہے جیب خالی
------------
چھوڑوں جو در میں تیرا ،جاؤں گا کس کے در پر
میں ہوں حقیر عاجز تیرا مقام عالی
----------
دل چاہتا ہے یا رب پوچھوں سوال تجھ سے
کب تک رہے گی ہم پر غم کی یہ رات کالی
------------
ارشد فقیر بننا تیرا ہی چاہتا ہے
غیروں کے در پہ جائے بن کر نہ وہ سوالی
 

الف عین

لائبریرین
آیا ہوں در پہ تیرے یا رب میں اک سوالی
جھولی مری تو بھر دے جاؤں نہ ہاتھ خالی
------------- دوسرا مصرع مجھے وہی بہتر لگ رہا ہے
جھولی کو میری بھر دے
پہلے میں بھی 'بن کر سوالی' آنا چاہئے تھا، یون یو تو
آیا ہوں در پہ بن کر یا رب میں اک سوالی

ہر پھول اس چمن کا جس کے لئے اہم ہو
یا رب ہمیں عطا کر ایسا چمن کا مالی
------------- درست

یا رب معاف کر دے میری سبھی خطائیں
میں ہوں حقیر ، عاجز ، تیرا مقام عالی
------------- واہ، روانی بہترین

لوگوں کی مفلسی میں ، آؤں میں کام ان کے
لیکن کروں میں کیسے اپنی ہے جیب خالی
------------ یہ بھی مزاحیہ لگتا ہے، لیکن اگر رکھا بھی جائے تو یوں کہا جائے کہ میں چاہتا تو بہت ہوں کہ سب کی مدد کروں مگر مجبور ہوں

چھوڑوں جو در میں تیرا ،جاؤں گا کس کے در پر
میں ہوں حقیر عاجز تیرا مقام عالی
---------- ایک مصرع رپیٹ ہو گیا! ویسے پہلے مصرع میں در دو جگہ نہ یو تو یہ مصرع مفہوم کے لحاظ سے بہتر ہے
چھوڑوں جو تیری چوکھٹ،... ایک تجویز

دل چاہتا ہے یا رب پوچھوں سوال تجھ سے
کب تک رہے گی ہم پر غم کی یہ رات کالی
------------ اولی مصرع درست ربط نہیں دے رہا

ارشد فقیر بننا تیرا ہی چاہتا ہے
غیروں کے در پہ جائے بن کر نہ وہ سوالی
.. ویسے ٹھیک ہے لیکن یہ الفاظ ہوں کہ تیرا فقیر 'بن کر رہنا چاہتا ہے' تو بہتر ہوتا
 
Top