آیا ہے یار میرا ، دل کو مرے لبھانے---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
@سیّد عاطف علی
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
آیا ہے یار میرا ، دل کو مرے لبھانے
یہ بھی پتہ نہیں ہے ، آیا ہو دل جلانے
-----------------
ملنے تو آ گیا ہے ، مجھ سے وہ آج ظالم
آیا نہ ہو خدایا ، مجھ کو وہ پھر رُلانے
------------
بیتے دنوں کی باتیں ، آتی ہیں یاد مجھ کو
بھولا نہیں کبھی بھی ، دن تھے بڑے سہانے
-----------
راتوں کی چاندنی میں ، ملنا ہے یاد مجھ کو
آتے تھے یار تجھ کو ، ملنے کے سب بہانے
---------
وہ دوستی ہماری ، دنیا نہ دیکھ پائی
ہم کو دیا نہ اپنا ، لوگوں نے گھر بسانے
---------------
اب تو ملے ہوئے بھی مدّت ہی ہو گئی ہے
آیا ہے آج مجھ کو بیتی ہوئی سنانے
--------------
ارشد کے دل میں اب بھی ، تیرے لئے جگہ ہے
مانے گا بات تیری ، آؤ اگر منانے
---------------
 

الف عین

لائبریرین
آیا ہے یار میرا ، دل کو مرے لبھانے
یہ بھی پتہ نہیں ہے ، آیا ہو دل جلانے
دو لخت بھی ہے 'شاید' کے بغیر دوسرا مصرع بے ربط ہو جاتا ہے۔ مفہوم میں بھی یہ کہا جائے کہ معلوم نہیں کہ وہ دل لبھانے آیا ہے یا دل جلانے؟ تو بات بن سکتی ہے

پھر رُلانے
میں تنافر ہے

بھولا نہیں کبھی بھی ، دن تھے بڑے سہانے
---------- کبھی وہ کیا جا سکتا ہے-
 
الف عین
1---آیا ہے یار میرا ، دل کو مرے لبھانے
ممکن مگر ہے یہ بھی ، آیا ہو دل جلانے
-------------یا
شاید وہ آج آیا ہو دل مرا جلانے
--------------
2--- ملنے تو آ گیا ہے ، مجھ سے وہ آج ظالم
آیا نہ ہو خدایا ، میرا وہ دل دکھانے
-----------
3--- بھولا نہیں کبھی وہ ، دن تھے بڑے سہانے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
1---آیا ہے یار میرا ، دل کو مرے لبھانے
ممکن مگر ہے یہ بھی ، آیا ہو دل جلانے
-------------یا
شاید وہ آج آیا ہو دل مرا جلانے
--------------
2--- ملنے تو آ گیا ہے ، مجھ سے وہ آج ظالم
آیا نہ ہو خدایا ، میرا وہ دل دکھانے
-----------
3--- بھولا نہیں کبھی وہ ، دن تھے بڑے سہانے
پہلے شعر میں بات اب بھی وہی ہے۔ آپ پہلے میں ایک بات کہہ رہے ہیں جو آپ کو معلوم ہے کہ وہ دل لبھانے آیا ہے، پھر دوسرے مصرعے میں اس کی نفی کیوں؟
باقی ٹھیک ہے
 
Top