محمد بلال اعظم
لائبریرین
آینئہ کوئی شے ہے نہ صحرا مرے آگے
دم سادھ چکا رنگِ تماشا مرے آگے
آفاق کھُلے ،صورتِ اشیا مرے آگے
ہے رقص کناں عکسِ تمنا مرے آگے
“اعجازِ مسیحا ” پہ ٹِکے حضرتِ غالب؟
مبہوت ہے یاں ،باقی و یکتا مرے آگے
جس حُسن سے یہ ارض و سماوات بندھے ہیں
جلوہ ہے اسی حُسن کا ہر جا مرے آگے
آواز بھی میری ہے یہ خاموشی بھی میری
جز میرے یہاں کون ہے برپا مرے آگے
مابینِ دل و چشم توازن ہے کچھ ایسا
“کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے “
“ظاہر ” تو فقط حالتِ امکاں تھا سراسر
“باطن” بھی کوئی دیر ہی ٹھہرا مرے آگے
خود اپنی جھلک پاؤں تو پھر مانوں کہ میں ہوں
ہوتا تو بہت ہے مرا چرچا مرے آگے
میں اس کو سمجھنے کے لئے خاک ہوا تھا
یہ دشت بھلا کیسے نہ کھلتا مرے آگے
انسان ہوں ،مسجود – ملائک ہوں علی میں
جبریل سخن کیسے کرے گا مرے آگے ؟
علی زریون
دم سادھ چکا رنگِ تماشا مرے آگے
آفاق کھُلے ،صورتِ اشیا مرے آگے
ہے رقص کناں عکسِ تمنا مرے آگے
“اعجازِ مسیحا ” پہ ٹِکے حضرتِ غالب؟
مبہوت ہے یاں ،باقی و یکتا مرے آگے
جس حُسن سے یہ ارض و سماوات بندھے ہیں
جلوہ ہے اسی حُسن کا ہر جا مرے آگے
آواز بھی میری ہے یہ خاموشی بھی میری
جز میرے یہاں کون ہے برپا مرے آگے
مابینِ دل و چشم توازن ہے کچھ ایسا
“کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے “
“ظاہر ” تو فقط حالتِ امکاں تھا سراسر
“باطن” بھی کوئی دیر ہی ٹھہرا مرے آگے
خود اپنی جھلک پاؤں تو پھر مانوں کہ میں ہوں
ہوتا تو بہت ہے مرا چرچا مرے آگے
میں اس کو سمجھنے کے لئے خاک ہوا تھا
یہ دشت بھلا کیسے نہ کھلتا مرے آگے
انسان ہوں ،مسجود – ملائک ہوں علی میں
جبریل سخن کیسے کرے گا مرے آگے ؟
علی زریون