آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا
غزل میں قوافی بہت عجیب سے ہیں، اور کہیں کہیں گنجلک۔ مطلع میں پہلا مصرع تو واضح ہے، لیکن دوسرے مصرع میں ’عدو تیز‘ سے مراد؟
سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا
//درست
اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا
//یہاں ‘پھر آن لیا ‘سے مراد؟ بیماری کے بعد ہی پرہیز ہوتا ہے، کیا بیماری سے پہلے پرہیز ہوتا ہے جو بیماری کے بعد دوبارہ ہو گیا؟؟ اس کے علاوہ ’ختم بیماری‘ سے بھی مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند بے ہوش کو لبریز نے پھر آن لیا
// عزیزم، لبریز صفت ہے اسم نہیں۔ ویسے زیادہ بہتر یوں ہو سکتا ہے
جام خالی بھی جو رہتا تو بہت بہتر تھا
رند کو پیالۂ لبریز نے۔۔۔۔
اسپ خاکی سے بچے جنگ میں فرصت پائی
موت لکھی تھی، تو شبدیز نے پھر آن لیا
//یہاں شبدیز بھی بطور اسم استعمال کیا گیا ہے، یہ بھی صفت ہے۔مطلب سیاہ فام ہوتا ہے، کیا تم کچھ اور سمجھتے ہو؟ پہلا مصرع سمجھ میں نہیں آیا۔
جان چھوٹی بڑی مشکل تھی ضیاء صاحب سے
آن کی آن میں پرویز نے پھر آن لیا
//یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ضیا اور پرویز کون صاحبان ہیں؟
پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا
۔۔ پہلے مصرع میں ’اب‘ سے کیا مراد ہے
پھر سے اظہر یہ طبیعت مری موزوں ہوئی ہے
کیسا رہے گا؟