فرحان محمد خان
محفلین
آ کاش کے ماتھے کی اُجلی تحریریں سجدہ کرتی ہیں
آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں
وہ جال ہوں کالی، زلفوں کے تار ہوں سونے چاندی کے
دیوانے ہیں ہم دیوانوں کو زنجیریں سجدہ کرتی ہیں
ان نازک نازک پوروں سے سنگین لکیریں ڈالی ہیں
تدبیر کے زانو پر اکثر تقدیریں سجدہ کرتی ہیں
مے رنگ لہو کے دانوں کی مالا پہنائی جاتی ہے
بیباک گُلو کی عظمت کو شمشیریں سجدہ کرتی ہیں
پلکوں پہ لرزتے اشکوں کی توقیر نہ جانے کیا ہوگی
کہتے ہیں سُلگتے آہوں کو تاثیریں سجدہ کرتی ہیں
کس آس یہ اپنے شانوں پر ہم بوجھ اٹھائیں محلوں کے
یہ شوخِ کَلَس جھک جاتے ہیں تعمیریں سجدہ کرتی ہیں
آداب وہی ہیں الفت کے ترتیب نے پہلو بدلے ہیں
جب رانجھے سجدہ کرتے تھے اب ہیریں سجدہ کرتی ہیں
شکیب جلالی
جنوری 1954ء
آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں
وہ جال ہوں کالی، زلفوں کے تار ہوں سونے چاندی کے
دیوانے ہیں ہم دیوانوں کو زنجیریں سجدہ کرتی ہیں
ان نازک نازک پوروں سے سنگین لکیریں ڈالی ہیں
تدبیر کے زانو پر اکثر تقدیریں سجدہ کرتی ہیں
مے رنگ لہو کے دانوں کی مالا پہنائی جاتی ہے
بیباک گُلو کی عظمت کو شمشیریں سجدہ کرتی ہیں
پلکوں پہ لرزتے اشکوں کی توقیر نہ جانے کیا ہوگی
کہتے ہیں سُلگتے آہوں کو تاثیریں سجدہ کرتی ہیں
کس آس یہ اپنے شانوں پر ہم بوجھ اٹھائیں محلوں کے
یہ شوخِ کَلَس جھک جاتے ہیں تعمیریں سجدہ کرتی ہیں
آداب وہی ہیں الفت کے ترتیب نے پہلو بدلے ہیں
جب رانجھے سجدہ کرتے تھے اب ہیریں سجدہ کرتی ہیں
شکیب جلالی
جنوری 1954ء
مدیر کی آخری تدوین: