ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احباب ِ کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ یہ مسلسل غزل پاکستان سے ایک دوست کے خط کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔ ان کی اجازت سے یہاں پیش کررہا ہوں ۔ چونکہ یہ ایک ذاتی مراسلت کا حصہ ہے اور پورا پس منظر آپ کی نظر میں نہیں تو شاید کچھ ادھوری سی لگے ۔ اس میں کچھ یہاں کی باتیں ہیں اور کچھ وہاں کی ۔ شاید کوئی کام کی بات ہو ۔
آ کر قریب دیکھو نظاروں کے آس پاس
پت جھڑ چھپے ہیں کتنے بہاروں کے آس پاس
اب تک بھٹک رہے ہیں سرابوں کے بیچ میں
منزل کے پُرفریب اشاروں کے آس پاس
مایوسی اُگ رہی ہے جھلستی زمین پر
آکاش چھونے والے چناروں کے آس پاس
دریا ہنر کے ریگِ ضرورت میں کھو گئے
صحراکھڑے ہیں پیاسے کناروں کے آس پاس
پانی ہمارے دیس کا بے فیض ہوگیا
سبزہ جلا ہوا ہے پھواروں کے آس پاس
پاتال مفلسی کے ترستے ہیں دھوپ کو
اونچی حویلیوں کی قطاروں کے آس پاس
سوتی ہے بے گھری ابھی خیمے میں رات کے
بھوکا بدن بچھا کے دواروں کے آس پاس
چنگاریوں کے جگنو پکڑنے چلے ہیں دوست
ریشم کا جال لے کے شراروں کے آس پاس
دنیا سمجھ رہی ہے جسے کہکشاں ظہیر
تاریکیوں کے گھر ہیں ستاروں کے آس پاس
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۱
آ کر قریب دیکھو نظاروں کے آس پاس
پت جھڑ چھپے ہیں کتنے بہاروں کے آس پاس
اب تک بھٹک رہے ہیں سرابوں کے بیچ میں
منزل کے پُرفریب اشاروں کے آس پاس
مایوسی اُگ رہی ہے جھلستی زمین پر
آکاش چھونے والے چناروں کے آس پاس
دریا ہنر کے ریگِ ضرورت میں کھو گئے
صحراکھڑے ہیں پیاسے کناروں کے آس پاس
پانی ہمارے دیس کا بے فیض ہوگیا
سبزہ جلا ہوا ہے پھواروں کے آس پاس
پاتال مفلسی کے ترستے ہیں دھوپ کو
اونچی حویلیوں کی قطاروں کے آس پاس
سوتی ہے بے گھری ابھی خیمے میں رات کے
بھوکا بدن بچھا کے دواروں کے آس پاس
چنگاریوں کے جگنو پکڑنے چلے ہیں دوست
ریشم کا جال لے کے شراروں کے آس پاس
دنیا سمجھ رہی ہے جسے کہکشاں ظہیر
تاریکیوں کے گھر ہیں ستاروں کے آس پاس
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۱
آخری تدوین: