بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العلمیں والعاقبۃُ لِل٘متقین والصّلٰوۃُ والسلام علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد
عربی زبان جو قرآن مجید کی زبان ہے انتہائی آسان ہے بالخصوص اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے تو یہ زبان اور بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو زبان میں بولے جانے والے 80 فیصد الفاظ عربی ہی کے ہیں صرف ایک سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہوئے ان میں کچھ تغیر واقع ہو گیا ہے ۔ لہذا اگر ہم صرف اس تبدیلی کو سمجھ لیں تو نصف سے زائد عربی زبان کے بارے میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہے ۔
عربی زبان میں حروف الہجاء کو بنیادی حیثیت حاصل ہے عربی میں حروف الہجاء 28 یا 29 ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ ہمزہ اور الف کو ایک ہی حرف گنتے ہیں ان کے نزدیک ان حروف کی تعداد 28 ہے اور دوسروں کے نزدیک 29 ہے اور الف اور ہمزہ میں فرق یہ ہے کہ جب الف پر حرکت (زبر، زیر ، پیش یا سکون) آجائے تو اب یہ ہمزہ کہلاتا ہے الف نہیں ۔
عربی کے حروف درج ذیل ہیں ۔
ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ی
حروف کے ملنے سے الفاظ وجود میں آتے ہیں جو بے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور بامعنی بھی ۔
ہر با معنی لفظ کَلِمَۃ کہلاتا ہے ۔
عربی میں کلمہ کی تین قسمیں ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں ۔
اسم
فعل
حرف
اِسم:
وہ کلمہ ہے جو کسی شخص ‘جگہ ‘ چیز یا کام کا نام ہے ۔ اس تعریف میں پہلی تین یعنی شخص جگہ اور چیز کا نام تو بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے لیکن۔۔’’ کام کا نام‘‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ دراصل عرب ’مصدر‘‘ کو اسم میں شامل کرتے ہیں ۔
فعل:
وہ کلمہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا یا واقع ہونا زمانے کی قید کے ساتھ پایا جائے ۔ ’’ زمانے کی قید‘‘ فعل کو اپنے مصدر سے ممتاز کرتی ہے ۔ جیسے ’’آنا‘‘ ایک مصدر ہے اس لئے کہ ’’آنے‘‘ کے ’’عمل‘‘ کا نام ہے جبکہ’ ’آیا‘‘ ایک فعل ہے جس میں زمانے ماضی میں آنے کا عمل واقع ہونے کی خبر ہے ۔
حرف:
حرف وہ کلمہ ہے جس کے کچھ معنی ہوتے ہیں تو لیکن جب تک یہ کسی اسم یا فعل کے ساتھ استعمال نہ ہو اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا جیسے اردو میں ’’پر ‘‘ ایک بامعنی لفظ ہے لیکن ۱۰۰ مرتبہ بھی ’’ پر پر پر ‘‘ کی رَٹ لگائی جائے تو کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا جبکہ ایک ہی مرتبہ’’سر پر ’’یا‘‘ ٹرین پر‘ کہنے سے مطلب سمجھ میں آگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح اردو زبان میں کسی اسم کو جملے میں استعمال کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دو باتوں کا علم ہونا ضروری ہے ایک یہ کہ آیا وہ اسم واحد ہے یا جمع اور دوسرے یہ کہ اس اسم کا اردو میں استعمال مذکر ہے یا مونث۔
مثلا کتاب کی اچھائی ظاہر کرنے کے لئے اگر ہم کوئی ایسا جملہ بنانا چاہیں کہ جس میں کتاب کو اچھا ظاہر کیا جائے تو سوال ہو گا کہ کتاب کو ’’اچھا ‘‘ کہا جائے ’اچھی ‘‘ اور پھر فعل بھی مناسب استعمال کرنا ہوگا جیسے
کتاب اچھی ہے اور کتب اچھی ہیں
قلم اچھا ہے اور قلم اچھے ہیں
دوسری مثال کے اندر پہلے جملے میں قلم واحد ہے اور دوسرے جملے میں قلم جمع ہیں جملہ بنانے سے پہلے ہم پر واضح ہونا چاہیی کہ ہم جس ’’قلم ‘‘ کو جملے میں استعمال کرنے چلے ہیں وہ واحد ہے یا جمع اور یہ بات تو ہمیں معلوم ہی ہونی چاہیی کہ قلم اردو زبان میں مذکر استعمال ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی زبان میں استعمال ہونے والے کسی اسم کے بارے میں چار باتوں کا علم ضروری ہے اس کے بغیر نہ وہ لفظ سمجھ میں آسکتا ہے اور نہ اس کو کسی جملے میں استعمال ہی کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے بارے میں وہ چار باتیں درج ذیل ہیں ۔
1) اِسم کا’’معرفہ‘‘ یا’’نکرہ‘‘ ہونا ۔ (قِسم)
2) اِسم کا ’’واحد‘‘ ’’مثّٰنی‘‘ یا ’’ جمع ‘‘ ہونا۔ (عَدَد)
3) اِسم کا ’’مذکر‘‘ یا ’’مونث‘‘ ہونا۔ (جنس)
اِسم کا ’’اعراب ‘‘ یعنی جملے یا ترکیب میں اس کا مقام ۔
مندرجہ بالا چار باتوں میں سے پہلے تین سے چونکہ ہم لوگ کسی درجہ میں مانوس ہیں جبکہ چوتھی بالکل نئی ۔ لہذا ہم سب سے پہلے اسی کو بیان کرتے ہیں ۔