آ یےاپنےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سیکھیں!تبصرہ و تجاویز

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آ یےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سیکھیں!

محمد انیس الرحمن نے کہا:
میرا ارادہ ہے کہ ہم عربی سیکھنے سکھانے کے لیے کوشش کریں میں اس سلسلے میں اپنے آپ کو اس خدمت کے لیے پیش کرتا ہوں۔

السلام علیکم

محمد انیس الرحمن صاحب ، عربی کے حوالے سے آپ کی دلچسپی خوش آئند ہے ۔ امید ہے کہ یہاں عربی اسباق فورم آپ کی نظر سے گذر چکا ہو گا ۔ آپ سے درخواست ہے کہ سیکھنے سکھانے کے ضمن میں آپ اپنے خیالات کو تفصیل کے ساتھ شیئر کیجیئے ۔

شکریہ
۔
 
برادرم انیس الرحمن صاحب

سیکھنے سکھانے کا کام ہمیشہ دوطرفہ ہوتا ہے ۔ سکھانے والا جذبے سے کام شروع کرتا ہے ۔ سیکھنے والے جذبے سے سیکھنا شروع کرتے ہیں مگر خرابی کہاں ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر مندرجہ ذیل نکات پر اٹک جاتا ہے ۔

1۔ انٹرنیٹ پر سیکھنے سکھانے کا کام اکثر وقت کی کمی ۔ اور ایک طے شدہ توقیت کے نہ ہونے سے بے ترتیبی کا شکار ہوجاتا ہے ۔

2۔ جس تعلیم میں ترتیب نہ ہو اس تعلیم میں بڑھنے پنپنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں ۔
3 ۔ صرف ترتیب اور منھج ہی نہیں بلکہ قراء کی دلچسپی کا سامان قائم رکھنے کا بھی بندوبست ہونا چاہیئے ۔ تاکہ طلاب اسی دلچسپی کے لئے آئیں اور سیکھتے سکھاتے رہیں ۔
4 ۔ یاد رہے کہ سیکھنے والے اور سکھانے والے دونوں ہی اپنی مرضی کے مالک ہیں جب چاہیں آئیں اور جب چاہیں جائیں نہ صرف یہ بلکہ کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ طے شدہ توقیت پر عمل کرے جب تک کہ اس کا اپنا رجحان اس طرف نہ ہو ۔


اگر ان مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ چیزیں طے کر لی جائیں کہ نمبر ایک
1۔ تعلیم کیسے اور کس منھج پر دی جائے گی ۔
2 ۔ تعلیم کون دے گا اور اسکا ٹائم فریم کیا ہوگا ۔
3 ۔ اگر تعلیم دینے والا مفوض کسی وجہ سے اس تعلیم دینے کے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتا تو اسکا بدیل کون ہوگا جو کہ اس عمل کو اسی منھج پر اسی انداز سے جاری و ساری رکھے ۔تاکہ طلاب کا حرج نہ ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فیصل عظیم نے کہا:
برادرم انیس الرحمن صاحب

سیکھنے سکھانے کا کام ہمیشہ دوطرفہ ہوتا ہے ۔ سکھانے والا جذبے سے کام شروع کرتا ہے ۔ سیکھنے والے جذبے سے سیکھنا شروع کرتے ہیں مگر خرابی کہاں ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر مندرجہ ذیل نکات پر اٹک جاتا ہے ۔

1۔ انٹرنیٹ پر سیکھنے سکھانے کا کام اکثر وقت کی کمی ۔ اور ایک طے شدہ توقیت کے نہ ہونے سے بے ترتیبی کا شکار ہوجاتا ہے ۔

2۔ جس تعلیم میں ترتیب نہ ہو اس تعلیم میں بڑھنے پنپنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں ۔
3 ۔ صرف ترتیب اور منھج ہی نہیں بلکہ قراء کی دلچسپی کا سامان قائم رکھنے کا بھی بندوبست ہونا چاہیئے ۔ تاکہ طلاب اسی دلچسپی کے لئے آئیں اور سیکھتے سکھاتے رہیں ۔
4 ۔ یاد رہے کہ سیکھنے والے اور سکھانے والے دونوں ہی اپنی مرضی کے مالک ہیں جب چاہیں آئیں اور جب چاہیں جائیں نہ صرف یہ بلکہ کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ طے شدہ توقیت پر عمل کرے جب تک کہ اس کا اپنا رجحان اس طرف نہ ہو ۔


اگر ان مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ چیزیں طے کر لی جائیں کہ نمبر ایک
1۔ تعلیم کیسے اور کس منھج پر دی جائے گی ۔
2 ۔ تعلیم کون دے گا اور اسکا ٹائم فریم کیا ہوگا ۔
3 ۔ اگر تعلیم دینے والا مفوض کسی وجہ سے اس تعلیم دینے کے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتا تو اسکا بدیل کون ہوگا جو کہ اس عمل کو اسی منھج پر اسی انداز سے جاری و ساری رکھے ۔تاکہ طلاب کا حرج نہ ہو

فیصل عظیم بھائی

بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا، بلکہ آپ سے امید اور درخواست ہے کہ مزید نکات پر بھی روشنی ڈالیں گے

شکریہ
 
مشاہدے میں آیا ہے کہ بچوں کو ایک درسی کتاب دے دی جائے اگر پڑھنے کو تو انہیں نیند آنے لگتی ہے ۔ جبکہ انہی بچوں کو ایک ناول دینے سے انہیں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ آخر کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

نہ صرف یہ آپ میں سے کتنے ہوں گے جنہیں درسی کتابوں میں سے پڑھے گئے مضامین کے نام یا انکی تفاصیل آج بھی یاد ہونگی ۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ 1981 میں پہلی جماعت کے قاعدے پر پہلے صفحے پر کیا پڑھایا جاتا تھا ۔ یا 1989 میں اردو کی نویں کتاب کے پہلے سبق کا نام “اسوہ کامل“ ہوا کرتا تھا جو کہ علامہ سلیمان ندوی کی تحریر تھا ۔ یا 1988 میں اردو کی آٹھویں کتاب میں ایک مضمون ہوا کرتا تھا “ چچا چھکن نے تصویر ٹانکی“ تو اسی طرح کے مختلف اسباق یاد رکھنے مشکل ہوتے ہیں بہ نسبت اسی دور میں پڑھے جانے والے ناولوں کے ۔ جب ہم ان حقائق کو نظر میں رکھتے ہیں تو ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنا بہت ہی آسان کام ہے ۔ مگر ہر سکھانے والا ناول نگار نہیں ہوسکتا اسکے ساتھ ساتھ ہر اچھا لکھاری اچھا استاد نہیں ہوسکتا تو تعلیم ایسی چیز ہے کہاگر اس میں قاری کی دلچسپی قائم رکھی جائے ۔ چاہے مزاح کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی ربط قائم رکھنے کے لئے ہر ممکن وسیلہ استعمال کیا جائے ۔ ان سے سوال پوچھے جائیں ۔ انہیں اس تعلیمی عمل میں فعال کردار ادا کرنے کو دیا جائے تو معلم و متعلم دونوں سیکھیں گے ۔

یاد رہے کہ جتنی زیادہ دلچسپی ہوگی اتنی ہی متعلم کے لاشعور تک رسائی حاصل ہوگی اور لاشعور کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔
 

عبدالرحمٰن

محفلین
اللغۃ العربیۃ

محمد انیس الرحمن نے کہا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد للہ رب العلمیں والعاقبۃُ لِل٘متقین والصّلٰوۃُ والسلام علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد
عربی زبان جو قرآن مجید کی زبان ہے انتہائی آسان ہے بالخصوص اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے تو یہ زبان اور بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو زبان میں بولے جانے والے 80 فیصد الفاظ عربی ہی کے ہیں صرف ایک سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہوئے ان میں کچھ تغیر واقع ہو گیا ہے ۔ لہذا اگر ہم صرف اس تبدیلی کو سمجھ لیں تو نصف سے زائد عربی زبان کے بارے میں آگاہی حاصل ہو جاتی ہے ۔
عربی زبان میں حروف الہجاء کو بنیادی حیثیت حاصل ہے عربی میں حروف الہجاء 28 یا 29 ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ ہمزہ اور الف کو ایک ہی حرف گنتے ہیں ان کے نزدیک ان حروف کی تعداد 28 ہے اور دوسروں کے نزدیک 29 ہے اور الف اور ہمزہ میں فرق یہ ہے کہ جب الف پر حرکت (زبر، زیر ، پیش یا سکون) آجائے تو اب یہ ہمزہ کہلاتا ہے الف نہیں ۔
عربی کے حروف درج ذیل ہیں ۔
ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ ی
حروف کے ملنے سے الفاظ وجود میں آتے ہیں جو بے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور بامعنی بھی ۔
ہر با معنی لفظ کَلِمَۃ کہلاتا ہے ۔
عربی میں کلمہ کی تین قسمیں ہیں ۔ جو درج ذیل ہیں ۔
اسم
فعل
حرف
اِسم:

وہ کلمہ ہے جو کسی شخص ‘جگہ ‘ چیز یا کام کا نام ہے ۔ اس تعریف میں پہلی تین یعنی شخص جگہ اور چیز کا نام تو بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے لیکن۔۔’’ کام کا نام‘‘ سمجھ میں نہیں آتا۔ دراصل عرب ’مصدر‘‘ کو اسم میں شامل کرتے ہیں ۔
فعل:

وہ کلمہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا یا واقع ہونا زمانے کی قید کے ساتھ پایا جائے ۔ ’’ زمانے کی قید‘‘ فعل کو اپنے مصدر سے ممتاز کرتی ہے ۔ جیسے ’’آنا‘‘ ایک مصدر ہے اس لئے کہ ’’آنے‘‘ کے ’’عمل‘‘ کا نام ہے جبکہ’ ’آیا‘‘ ایک فعل ہے جس میں زمانے ماضی میں آنے کا عمل واقع ہونے کی خبر ہے ۔
حرف:

حرف وہ کلمہ ہے جس کے کچھ معنی ہوتے ہیں تو لیکن جب تک یہ کسی اسم یا فعل کے ساتھ استعمال نہ ہو اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا جیسے اردو میں ’’پر ‘‘ ایک بامعنی لفظ ہے لیکن ۱۰۰ مرتبہ بھی ’’ پر پر پر ‘‘ کی رَٹ لگائی جائے تو کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا جبکہ ایک ہی مرتبہ’’سر پر ’’یا‘‘ ٹرین پر‘ کہنے سے مطلب سمجھ میں آگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جس طرح اردو زبان میں کسی اسم کو جملے میں استعمال کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دو باتوں کا علم ہونا ضروری ہے ایک یہ کہ آیا وہ اسم واحد ہے یا جمع اور دوسرے یہ کہ اس اسم کا اردو میں استعمال مذکر ہے یا مونث۔
مثلا کتاب کی اچھائی ظاہر کرنے کے لئے اگر ہم کوئی ایسا جملہ بنانا چاہیں کہ جس میں کتاب کو اچھا ظاہر کیا جائے تو سوال ہو گا کہ کتاب کو ’’اچھا ‘‘ کہا جائے ’اچھی ‘‘ اور پھر فعل بھی مناسب استعمال کرنا ہوگا جیسے
کتاب اچھی ہے اور کتب اچھی ہیں
قلم اچھا ہے اور قلم اچھے ہیں
دوسری مثال کے اندر پہلے جملے میں قلم واحد ہے اور دوسرے جملے میں قلم جمع ہیں جملہ بنانے سے پہلے ہم پر واضح ہونا چاہیی کہ ہم جس ’’قلم ‘‘ کو جملے میں استعمال کرنے چلے ہیں وہ واحد ہے یا جمع اور یہ بات تو ہمیں معلوم ہی ہونی چاہیی کہ قلم اردو زبان میں مذکر استعمال ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
عربی زبان میں استعمال ہونے والے کسی اسم کے بارے میں چار باتوں کا علم ضروری ہے اس کے بغیر نہ وہ لفظ سمجھ میں آسکتا ہے اور نہ اس کو کسی جملے میں استعمال ہی کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے بارے میں وہ چار باتیں درج ذیل ہیں ۔

1) اِسم کا’’معرفہ‘‘ یا’’نکرہ‘‘ ہونا ۔ (قِسم)

2) اِسم کا ’’واحد‘‘ ’’مثّٰنی‘‘ یا ’’ جمع ‘‘ ہونا۔ (عَدَد)

3) اِسم کا ’’مذکر‘‘ یا ’’مونث‘‘ ہونا۔ (جنس)

اِسم کا ’’اعراب ‘‘ یعنی جملے یا ترکیب میں اس کا مقام ۔
مندرجہ بالا چار باتوں میں سے پہلے تین سے چونکہ ہم لوگ کسی درجہ میں مانوس ہیں جبکہ چوتھی بالکل نئی ۔ لہذا ہم سب سے پہلے اسی کو بیان کرتے ہیں ۔
بہت بہت شکریہ انیس بھائی۔۔۔
ایک ضروری بات:- آپکی تحریر میں‌جگہ جگہ پر ڈبے نظر آرہے ہیں‌۔ پتہ نہیں‌کیا سبب ہے۔ :?:
 

شمشاد

لائبریرین
ڈبے میں نے ٹھیک کر دیئے ہیں۔ یہ حرف “ آ “ لکھنے پر آتے ہیں۔
آپ ماؤس کی مدد سے “ آ “ کے لیے تصویری کی-بورڈ استعمال کر لیا کریں۔
 

موجو

لائبریرین
عربی اسباق کے متعلق

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ لوگ ان اسباق سے مستفید ہورہے ہوں گے۔ اصل میں یہ اسباق ڈاکٹر عبد السمیع صاحب جن کا تعلق تنظیم اسلامی پاکستان سے ہے ان کے تیار کردہ ہیں۔ اور ان اسباق کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہوچکی ہے وہ بھی عنقریب پیش کی جائے گی ڈاکٹر صاحب بہت شفیق اور علم دوست انسان ہیں۔ میں نے ان سے تھوڑا عرصہ بے قاعدگی سے یہ کورس کیا ہے اصل میں‌مکمل کورس کا دورانیہ تین ماہ کا ہے لیکن تب یہ صرف 40 ایام پر مشتمل تھا مجھے الحمد للہ اس سے بہت فائدہ ہوا امید واثق ہے کہ آپ بھی اس سے بہترین طریقے سے مستفیذ ہونگے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبارکۃ!
میرے ایک عزیز نے مجھے عربی سیکھانے والی کتاب بلکہ کتابوں کا مجموعہ دیا۔ یہ ایک پورا سیٹ تھا کتابوں کا جس میں سلسلہ وار عربی سیکھائی جاتی ہے اور وہ بھی اردو زبان میں۔ آپ لوگو بھی ان کتب کو بلکل مفت حاصل کرسکتےہے ۔ بس ایک ٹاک کا خرچ آئے گا۔ یہ کتابیں مصر کے شہر قاہرہ سے ملتی ہے جن کا مقصد عربی زبان کو عام کرناہے ۔ ان کا پتہ درج ذیل ہے
عرب جمھوریہ مصر کی نشرگاہ قاہرہ
ریڈیو کے ذریعہ عری سیکھئے
پوسٹ - بکس نمبر: 325
القاہرہ - 11511
جناب میں نے کافی دن پہلے یہ بات ایک پوسٹ میں کہی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ اس کا وقت اب آیا ہے اس پوسٹ کی جگہ یہاں پر تھی۔۔۔۔۔۔ ذرا اوپر والے ایڈریس کو بھی دیکھ لیجیے انشاءاللہ عزوجل ضرور کام آئے گا۔
 
Top