فرخ منظور
لائبریرین
ائیر ہوسٹس
شہر کی روشنیاں کِرمکِ آوارہ ہیں
نہ وہ ہوٹل کے دریچے نہ وہ بجلی کے ستون
نہ وہ اطراف نہ رفتار کا گمنام سکون
ہر گھڑی عشوۂ پرواز بنی جاتی ہے
سیکڑوں فیٹ تلے رینگ رہی ہو گی زمین
کہیں پٹرول کے مرکز، کہیں سڑکوں کا غبار
تار کے آہنی کھمبوں میں گھِری راہ گذار
صرف اِک دُور کی آواز بنی جاتی ہے
تیرے لہجے میں ہے ترغیب کی یہ کیفیت
کہ مشینوں کی فضا ساز بنی جاتی ہے
اے مرے دل کے دھڑکنے سے بظاہر غافل
تیری صورت تِری غمّاز بنی جاتی ہے
ہم سفر انجمنیں گرم کیے بیٹھے ہیں
تُو مرا سب سے بڑا راز بنی جاتی ہے
قبائے ساز
(مصطفیٰ زیدی)
شہر کی روشنیاں کِرمکِ آوارہ ہیں
نہ وہ ہوٹل کے دریچے نہ وہ بجلی کے ستون
نہ وہ اطراف نہ رفتار کا گمنام سکون
ہر گھڑی عشوۂ پرواز بنی جاتی ہے
سیکڑوں فیٹ تلے رینگ رہی ہو گی زمین
کہیں پٹرول کے مرکز، کہیں سڑکوں کا غبار
تار کے آہنی کھمبوں میں گھِری راہ گذار
صرف اِک دُور کی آواز بنی جاتی ہے
تیرے لہجے میں ہے ترغیب کی یہ کیفیت
کہ مشینوں کی فضا ساز بنی جاتی ہے
اے مرے دل کے دھڑکنے سے بظاہر غافل
تیری صورت تِری غمّاز بنی جاتی ہے
ہم سفر انجمنیں گرم کیے بیٹھے ہیں
تُو مرا سب سے بڑا راز بنی جاتی ہے
قبائے ساز
(مصطفیٰ زیدی)