محمد علم اللہ
محفلین
وسیم احمد تیاگی
نواز آئے اور چلے گئے مگر آنکھوں کی زمین کو نم کرنے والا یہ شخص اب ہمارا نہیں تھا ۔ یہ پاکستان کا تھا اسی پاکستان کا جس کے نام پر ہم جیسوں کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے ۔ کیسی عجیب ستم ظریفی ہے اب سے تین نسل پہلے ہم ایک تھے مگر اب ہم تین ہیں ، جن میں پاکستان کوہندوستان کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اربوں روپیہ حدود کی نگہبانی پر پھونکا جاتا ہے ۔ مگر ہنسی آتی ان چڑیوں کو دیکھ کر جو ان پہرہ داروں کے سامنے ہی ان کا منہ چڑھاتی ہوئی کبھی سرحد پار تو کبھی اس پار آسانی سے گھوم آیا کرتی ہیں ۔ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی کسی پرندے سے کہ وہ پاکستانی ہے یا ہندوستانی ؟ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی کسی ہوا کے جھونکے سے کہ وہ سرحد کی حفاظت کو درکنارکرتے ہوئے ہندوستان میں کیوں داخل ہوا ؟ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی چاند سے کہ وہ پاکستان سے ہو کرہندوستان کی سرحد میں کیوں داخل ہوا ؟ نہیں کیا اور ہمارے معلوم کرنے پر بھی وہ بھلا کیا جواب دیں گے ۔ کیونکہ دشمنی ہماری ہے ان کی نہیں ؟ ملک ہمارا ہے ان کا نہیں ، دشمنی ہماری ہے ان کی نہیں ، ان کی تو ساری دنیا ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں یہ انسان نام کا مخلوق ہی ایک دوسرے کا دشمن ہے باقی تو سب اس کے دوست ہیں ۔ اسی نے سرحدیں بنائیں، سرحدوں پر پہرے لگائے ، کتنا اچھا ہوتا کہ کراچی میں بننے والے حلوے کی مہک کو لکھنؤ میں محسوس میں کی جاتی ۔ بنارس کا پان ، جس کے لئے لاہور والے گزشتہ 67 سالوں سے لڑ رہے ہیں ، اور پان کی پتی کے بجائے شہتوت کے پتے چبا رہے ہیں اسے بے روک ٹوک وہاں پہنچایا جاتا ۔ سرحدیں کھل جاتیں، بھلے ہی ہفتے بھر کے لئے كھلتی ، تاكہ انسانوں کی آنکھوں میں جمع نمکین پانی تو باہر آتا جس کے باہر نہ آنے کی وجہ سے وہ ایسی لاشیں بن گئے ہیں جن کا پوسٹ مارٹم دنیا کا کوئی ڈاکٹر نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ اس کے لئے سانسوں کا ، دھڑکنوں ، کا بند ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ایسے لاکھوں لوگ آج بھی بڑی تعداد میں سرحد کے دونوں پار رہتے ہیں جن کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ زندہ لاش بن گئے ہیں۔
میری بھی تمنا ایک بار پاکستان جانے کی ہے میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں وہاں کے لوگوں کو ، دیکھوں گا کہ کیا ان کی زبان ، ان کے پوشاک ، ہندوستان کے لوگوں سے کتنی مختلف ہے ۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اب بھی اپنے پرکھوں کی یادوں کو سینے لگائےہوئے سرحدوں کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ بھی میری طرح روزانہ پاکستان سے منہ اٹھا کر بھارت کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید آج سرحد کھل جائے۔ اور ان پرکھوں کی یادوں کو اس کے حوالے کر دیا جائے جس نے انہیں ہماری جھولی میں ڈالا تھا ۔
میرے ایک دوست کے ہندی بلاگ سے