ائے کاش یہ سرحدیں نہ ہوتیں!!

75114899_75114894.jpg


وسیم احمد تیاگی
نواز آئے اور چلے گئے مگر آنکھوں کی زمین کو نم کرنے والا یہ شخص اب ہمارا نہیں تھا ۔ یہ پاکستان کا تھا اسی پاکستان کا جس کے نام پر ہم جیسوں کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے ۔ کیسی عجیب ستم ظریفی ہے اب سے تین نسل پہلے ہم ایک تھے مگر اب ہم تین ہیں ، جن میں پاکستان کوہندوستان کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اربوں روپیہ حدود کی نگہبانی پر پھونکا جاتا ہے ۔ مگر ہنسی آتی ان چڑیوں کو دیکھ کر جو ان پہرہ داروں کے سامنے ہی ان کا منہ چڑھاتی ہوئی کبھی سرحد پار تو کبھی اس پار آسانی سے گھوم آیا کرتی ہیں ۔ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی کسی پرندے سے کہ وہ پاکستانی ہے یا ہندوستانی ؟ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی کسی ہوا کے جھونکے سے کہ وہ سرحد کی حفاظت کو درکنارکرتے ہوئے ہندوستان میں کیوں داخل ہوا ؟ کیا ہم نے معلوم کیا کبھی چاند سے کہ وہ پاکستان سے ہو کرہندوستان کی سرحد میں کیوں داخل ہوا ؟ نہیں کیا اور ہمارے معلوم کرنے پر بھی وہ بھلا کیا جواب دیں گے ۔ کیونکہ دشمنی ہماری ہے ان کی نہیں ؟ ملک ہمارا ہے ان کا نہیں ، دشمنی ہماری ہے ان کی نہیں ، ان کی تو ساری دنیا ہے۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں یہ انسان نام کا مخلوق ہی ایک دوسرے کا دشمن ہے باقی تو سب اس کے دوست ہیں ۔ اسی نے سرحدیں بنائیں، سرحدوں پر پہرے لگائے ، کتنا اچھا ہوتا کہ کراچی میں بننے والے حلوے کی مہک کو لکھنؤ میں محسوس میں کی جاتی ۔ بنارس کا پان ، جس کے لئے لاہور والے گزشتہ 67 سالوں سے لڑ رہے ہیں ، اور پان کی پتی کے بجائے شہتوت کے پتے چبا رہے ہیں اسے بے روک ٹوک وہاں پہنچایا جاتا ۔ سرحدیں کھل جاتیں، بھلے ہی ہفتے بھر کے لئے كھلتی ، تاكہ انسانوں کی آنکھوں میں جمع نمکین پانی تو باہر آتا جس کے باہر نہ آنے کی وجہ سے وہ ایسی لاشیں بن گئے ہیں جن کا پوسٹ مارٹم دنیا کا کوئی ڈاکٹر نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ اس کے لئے سانسوں کا ، دھڑکنوں ، کا بند ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ایسے لاکھوں لوگ آج بھی بڑی تعداد میں سرحد کے دونوں پار رہتے ہیں جن کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ زندہ لاش بن گئے ہیں۔

میری بھی تمنا ایک بار پاکستان جانے کی ہے میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں وہاں کے لوگوں کو ، دیکھوں گا کہ کیا ان کی زبان ، ان کے پوشاک ، ہندوستان کے لوگوں سے کتنی مختلف ہے ۔ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اب بھی اپنے پرکھوں کی یادوں کو سینے لگائےہوئے سرحدوں کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ بھی میری طرح روزانہ پاکستان سے منہ اٹھا کر بھارت کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید آج سرحد کھل جائے۔ اور ان پرکھوں کی یادوں کو اس کے حوالے کر دیا جائے جس نے انہیں ہماری جھولی میں ڈالا تھا ۔

میرے ایک دوست کے ہندی بلاگ سے
 

حسینی

محفلین
اچھی شراکت اصلاحی بھائی۔
پاکستان حاصل تو اسلام کے نام پر اور اسلام کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانےکی خاطر کیا گیا تھا۔
اب اس میں نام کے سوا اسلام کہیں نہیں۔
واقعا اگر ایسا ہی ہونا تھا تو شاید ان سرحدوں کی لکیروں کے کھینچنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
یہ بھی اک مفروضہ ہے کہ اگر ہند تقسیم نہ ہوتا تو آج وہاں مسلمان شاید کافی اکثریت میں ہوتے۔۔ اور کافی بڑی طاقت ہوتی۔
 

arifkarim

معطل
یہ بھی اک مفروضہ ہے کہ اگر ہند تقسیم نہ ہوتا تو آج وہاں مسلمان شاید کافی اکثریت میں ہوتے۔۔ اور کافی بڑی طاقت ہوتی۔
1947 میں جو ایک لخت تاریخی ہندوستان کا بٹوارا ہوا اس میں کونسی آبادی سب سے زیادہ تقسیم ہوئی؟ ہندو، سکھ، عیسائی یا مسلمان؟ یقیناً مسلمان! پہلے پاکستان اور بھارت میں۔ پھر کشمیر، بھارت اور پاکستان میں۔ پھر کشمیر، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ اور آجکل حالات ایسے ہیں کہ حالیہ فوجی آپریشن کے بعد وزیرستان کو بھی پاکستان سے آزاد کر دیا جائے گا۔ 1947 سے لیکر ابتک بھارت نے کتنے علاقے گنوائے؟ ایک بھی نہیں۔ بلکہ انہوں نے تو ان علاقوں پر بھی جبراً قبضہ کیا جو آزادی کے وقت خودمختار تھے جیسے نظام حیدر آباد، گووا کی پرتگالی کالونی، کارگل کشمیر وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی عرصہ میں پاکستان نے کتنے علاقے گنوائے اور کتے قومی بٹوارے کروائے؟ بھارتی آج بھی 1 ارب آبادی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی کرپٹ ہی سہی لیکن قائم جمہوریت ہیں۔ اسکے مقابلہ میں پاکستانی جمہوریت، بنگالی جمہوریت ایسی نہیں کہ اسے سنہری حروف میں لکھا جائے۔ پاکستان سے آزادی کی جنگ کر کے آزاد کروانے پاکستانی مجیب الرحمان کیساتھ کیا ہوا؟ خود اسی کی فوج نے اسکے اور اسکے خاندان کے گلے نہیں کاٹے جبکہ وہ اپنے آزاد کردہ جمہوری ملک کا صدر تھا!
http://en.wikipedia.org/wiki/Assassination_of_Sheikh_Mujibur_Rahman

کیا یہ ہیں وہ مسلمان جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود؟ کیا یہودی ریاست ہائے اسرائیل میں جو آپکے محبوب شیعہ لیڈر نصراللہ کا سب سے بڑا دشمن ہے میں کبھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں؟ کہ ملک کے بانیوں، صدور، وزراء کو اس بے دردی کیساتھ خود اس ملک کی فوج IDF نے قتل کیا ہو؟ کیا وہ یہودی ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں سے بہتر عملی اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتے ؟ کیا وہ اپنے ایک قیدی کو چھڑانے کیلئے ہزاروں اسلامی دہشت گردوں کو ،جن پر نہتے اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنے کا مقدمہ ثابت ہو چکا ہو،کو صدق دل سے رہا نہیں کرتے؟
کیا ہندو بھارتی اندرا گاندھی نے بذریعہ مذاکرات پاکستان کے 90،000 قیدی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے زیادہ بڑی تعداد میں جنگی قیدی تھے کو رہا نہیں کیا؟ کیا بھارت نے 1971 کی جنگ میں جیتے ہوئے مفتوح علاقے صدق دل سے پاکستان کو واپس نہیں کئے؟
یقیناً برصغیر کے بٹوارے سے سب سے بڑا نقصان یہاں کے مسلمانوں کو ہوا ہے۔ ایک جمہوریہ ہندوستان میں آج مسلمانوں کی کُل آبادی ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوتی۔ اگر سکھ وہاں پر بڑے بڑے قومی اداروں تک پہنچ گئے ہیں تو مسلمانوں کو کیا تکلیف تھی؟ کچھ سال بعد حالات بہتر ہو جاتے۔ سکھوں نے بھی 80 کی دہائی تک کافی تکلیفیں برداشت کی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب حالات بھارت سے بغاوت تک پہنچ گئے۔ لیکن پھر حکومت کو ہوش آگیا اور آج سکھ آبادی بھارت میں ہندو اکثریت کی ٹکر پر ہے۔ اور ہر قسم کے تعصب سے آزاد ہے۔ ہر قومی ادارے خواہ وہ کھیل ہو، سرکار ہو، میڈیا ہو میں سکھ آبادی کا عنصر موجود ہے۔ جبکہ انکی آبادی بھارت کی کل آبادی کے صرف 2 فیصد ہے۔ جبکہ مسلمان 15 فیصد۔ اب بتائیں یہاں قصور بھارتی مسلمانوں کی نااہلی کا نہیں ہے تو کسکا ہے؟
 

arifkarim

معطل
یہ پاکستان کا تھا اسی پاکستان کا جس کے نام پر ہم جیسوں کو ذہنی طور پر پریشان کیا جاتا ہے ۔ کیسی عجیب ستم ظریفی ہے اب سے تین نسل پہلے ہم ایک تھے مگر اب ہم تین ہیں ، جن میں پاکستان کوہندوستان کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اسی نے سرحدیں بنائیں، سرحدوں پر پہرے لگائے۔
یہ تحریر یقیناً کسی ایسے بھارتی مسلمان نے لکھی جس نے کبھی مغربی اسکولز کی الف ب بھی نہیں پڑھی۔ ہمیں یہاں جغرافیہ اور معاشرتیات میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہ قومی سرحدیں ہیں سیاسی یا عسکری نہیں۔ مطلب ایک نارویجن قوم ہے۔ وہ صدیوں سے جہاں آباد ہے اسنے اپنے اور اپنے جیسی ایک اور قوم اسویڈن کے درمیان سرحد یں بنالیں۔ یعنی تم اپنے گھر میں خوش، ہم اپنے گھر میں خوش۔ مطلب مغربی مکتبہ الفکر کے مطابق سرحد ایک قومی حدود ہے۔ اور اس حد کے اندر رہنے والے اس ملک یا وطن کے جمہوری قوانین کے پابند ہیں۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسویڈش اور نارویجن بارڈرز پر 24 گھنٹے افواج تعینات ہوتی ہیں۔ یہاں پر بارڈرز چاروں اطراف سے کھلے ہیں۔ لوگوں کی آمدورفت پر کوئی پابندی نہیں۔ میں خود بغیر پاسپورٹ کے جب چاہے گاڑی پر سرحد کے اسپر سے سستی شاپنگ کرنے جاتا رہتا ہوں۔ وہ لوگ بھی جب چاہے اپنی بیروزگاری سے تنگ آکر ہمارے ہاں روزگار کی تلاش میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ جنکو شریک حیات یہیں مل جاتا ہے وہ اسی ملک کے ہو جاتے ہیں، باقی واپس چلے جاتے ہیں۔ کیا پاکستان اور ایران جیسے اسلامی برادر ممالک میں اس قسم کی دوستی اور پیار موجود ہے؟ :)
اب ان مثالوں کا یہ مطلب نہیں کہ ناروے اور اسویڈن ہمیشہ سے ہی ایسے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب ناروے ڈنمارک کے ساتھ 400 سالہ اتحاد کے بعد جمہوری طور پر آزاد ہوا تو ہمسائے اسویڈن سے یہ برداشت نہ ہوا اور وہ اپنی فوجیں لیکر یہاں چل دوڑا۔ جنگ ہارنے کے بعد اسویڈن نے ناروے کو زبردستی اپنا حصہ بنا لیا اور قریباً سو سال تک ایسا ہی رہا۔ اور 1905 میں حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ نوبت ایک اور جنگ تک پہنچ گئی جب نارویجن پارلیمنٹ نے خودساختہ طور پر اپنے تئیں ناروے کو اسویڈن سے آزاد قرار دے دیا۔ لیکن اسبار اسویڈن نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناروے کی آزادی کو تسلیم کیا اور وہاں کے بادشاہ نے اپنا ولی عہد پر امن انداز میں واپس اسٹاک ہوم بلوالیا۔ بس تب سے ناروے اور اسویڈن کے درمیان بھائیوں جیسا پیار اور محبت ہے۔
ذرا سوچئے اگر 1905 کی طرح 1970 میں مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کی الیکشن میں جیت کو تسلیم کر لیتا تو بنگالیوں کو پاکستان سے اپنی آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑنے کا کیا جواز بنتا؟ قوموں کے درمیان دائمی محبت اور پیار صدق دل سے ایک دوسرے کو تسلیم کرنےکے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ کسی ایک قوم کو طاقتور ہوتے ہوئے بھی بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور مقابل قوم کے گزشتہ گناہوں پر پردہ ڈالتے ہوئے گلے لگا لینا چاہئے۔ جیسے اسرائیل نے 1993 میں اپنی تمام تر عسکری ، اقتصادی، مالی و سیاسی طاقت کے باوجود فلسطینیوں کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہوئے ناروے کے کہنے پر گلے لگا لیا۔ جسکے جواب میں وہ اسلامی جہادی فلسطینی دہشت گرد تو ان یہودیوں کے گلے ہی پڑ گئے۔ :)

oslo1.gif
 
Top