محب علوی
مدیر
کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔يہ آباديوں ميں جنگلوں ميں، مولوی اسمعيل ميرٹھي کي کتاب ميں غرض يہ کہ ہر جگہ پايا جاتا ہے ۔کبوتر کي دو بڑي قسميں ہيں۔ نيلے کبوتر ۔سفيد کبوتر ، نيلے کبوتر کي بڑي پہچان يہ ہے کہ وہ نيلے رنگ کا ہوتا ہے سفيد کبوتر بالعموم سفيد ہي ہوتا ہے۔کبوتروں نے تاريخ ميں بڑے بڑے کارنامے انجام ديئے ہيں۔ شہزادہ سليم نے مسماۃ مہر النساء کو جب کہ وہ ابھي بے بي نورجہان تھيں ۔کبوتر ہي تو پکڑايا تھا جو اس نے اڑا ديااور پھر ہندوستان کي ملکہ بن گئي۔يہ فيصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے ميں زيادہ فائدے ميں کون رہا؟ شہزادہ سليم؟ نورجہاں؟ يا وہ کبوتر؟ رعايا کا فائدہ ان دنوں کبھي معرض بحث ميں نہ آتا تھا۔پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہي استعمال کرتے تھے۔اس ميں بڑي مصلحتيں تھيں۔بعد ميں آدميوں کو قاصد بنا کر بھيجنے کا رواج ہواتو بعض اوقات يہ نتيجہ نکلا کہ مکتوب اليہ يعني محبوب قاصد ہي سے شادي کر کے بقيہ عمر ہنسي خوشي بسر کر ديتا تھا۔چند سال ہوئے ہمارے ملک کي حزب مخالف نے ايک صاحب کو الٹي ميٹم دے کر وائي ملک کے پاس بھيجا تھا۔الٹي ميٹم تو راستے ميں کہيں رہ گيا۔دوسرے روز ان صاحب کے وزير بننے کي خبر اخباروں ميں آ گئي۔طوطے کے ہاتھ يہ پيغام بھيجا جاتا تو يہ صورت حال پيش نہ آتي۔