کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔يہ آباديوں ميں جنگلوں ميں، مولوی اسمعيل ميرٹھي کي کتاب ميں غرض يہ کہ ہر جگہ پايا جاتا ہے ۔کبوتر کي دو بڑي قسميں ہيں۔ نيلے کبوتر ۔سفيد کبوتر ، نيلے کبوتر کي بڑي پہچان يہ ہے کہ وہ نيلے رنگ کا ہوتا ہے سفيد کبوتر بالعموم سفيد ہي ہوتا ہے۔کبوتروں نے تاريخ ميں بڑے بڑے کارنامے انجام ديئے ہيں۔ شہزادہ سليم نے مسماۃ مہر النساء کو جب کہ وہ ابھي بے بي نورجہان تھيں ۔کبوتر ہي تو پکڑايا تھا جو اس نے اڑا ديااور پھر ہندوستان کي ملکہ بن گئي۔يہ فيصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے ميں زيادہ فائدے ميں کون رہا؟ شہزادہ سليم؟ نورجہاں؟ يا وہ کبوتر؟ رعايا کا فائدہ ان دنوں کبھي معرض بحث ميں نہ آتا تھا۔پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہي استعمال کرتے تھے۔اس ميں بڑي مصلحتيں تھيں۔بعد ميں آدميوں کو قاصد بنا کر بھيجنے کا رواج ہواتو بعض اوقات يہ نتيجہ نکلا کہ مکتوب اليہ يعني محبوب قاصد ہي سے شادي کر کے بقيہ عمر ہنسي خوشي بسر کر ديتا تھا۔چند سال ہوئے ہمارے ملک کي حزب مخالف نے ايک صاحب کو الٹي ميٹم دے کر وائي ملک کے پاس بھيجا تھا۔الٹي ميٹم تو راستے ميں کہيں رہ گيا۔دوسرے روز ان صاحب کے وزير بننے کي خبر اخباروں ميں آ گئي۔طوطے کے ہاتھ يہ پيغام بھيجا جاتا تو يہ صورت حال پيش نہ آتي۔
 
پیاسا کوا

ايک پياسا کوے کو ايک جگہ پاني کا مٹکا پڑا نظر آيا۔ بہت خوش ہوا ليکن يہ ديکھ کر مايوسي ہوئي کہ پاني بہت نيچے فقط مٹکے کي تہہ ميں تھوڑا سا ہے۔ سوال يہ تھا کہ پاني کو کيسے اوپر لائے اور اپني چونچ تر کرے۔
اتفاق سے اس نے حکايات لقمان پڑھ رکھي تھي پاس ہي بہت سے کنکر پڑے تھے اس نے اٹھا کر ايک ايک کنکر اس میں ڈالنا شروع کيا۔ کنکر ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئي۔ پياسا تو تھا ہي نڈھال بھی ہوگيا۔ مٹکے کے اندر نظر ڈالي تو کيا ديکھتا ہے کہ کنکر ہي کنکر ہيں۔ سارا پاني کنکروں نے پي ليا ہے۔ بے اختيار اس کي زبان سے نکلا ہت ترے لقمان کي۔ پھر بے سدھ ہو کر زمين پرگرگيا اور مرگيا۔ اگر وہ کوا کہیں سے ايک نلکي لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بيٹھا بيٹھا پاني کو چوس ليتا۔ اپنے دل کي مراد پاتا۔ہر گز جان سے نہ جاتا۔
 
اکبر

آپ نے حضرت ملا دو پيازہ اور بيربل کے ملفوظات ميں اس بادشاہ کا حال پڑھا ہوگا، راجپوت مصوري کے شاہکاروں ميں اس کي تصوير بھي ديکھي ہوگي، ان تحريروں اور تصويروں سے يہ گمان ہوتا ہے، کہ بادشاہ سارا وقت داڑھي گھٹوانے، مونچھيں تراشوائے، اکڑوں بيٹھا پھول سونگھتا رہتا تھا يا لطيفے سنتا رہتا تھا، يہ بات نہيں اور کام بھي کرتا تھا۔
اکبر قسمت کا دھني تھا، چھوٹا سا تھا کہ باپ بادشاہ ستارے ديکھنے کے شوق ميں کوٹھے سے گر کر جاں بحق ہو گيا، اور تاج و تخت اسے مل گيا، ايڈورڈ ہفتم کي طرح چونسٹھ برس ولي عہدي ميں نہيں گزارنے پڑے، ويسے اس زمانے ميں اتني لمبي ولي عہدي کا رواج بھي نہ تھا، ولي عہد لوگ جونہي باپ کي عمر کو معقول حد سے تجاوز کرتا ديکھتے تھے اسے قتل کرکے، يا زيادہ رحم دل ہوتے تو قيد کرکے، تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوجايا کرتے تھے، تاکہ زيادہ سے زيادہ دن رعايا کي خدمت کا حق ادا کر سکيں۔
 
بابر

بابر شاہ سمر قند سے ہندوستان آيا تھا، تاکہ يہاں خاندان مغليہ کي بنياد ڈال سکے، يہ کام تو وہ بحسن و خوبي اپنے وطن ميں بھي کرسکتا تھا، البتہ پاني پت کی پہلي لڑائي ميں اس کي موجودگي ضروري تھي، يہ نہ ہوتا تو وہ لڑائي ايک طرفہ ہوتي، ايک طرف ابراہيم لودھي ہوتا دوسري طرف کوئي بھي نہ ہوتا، لوگ اس لڑائي کا حال پڑھ پڑھ کر ہنسا کرتے۔
يہ بادشاہ تزک لکھتا تھا، ٹوٹے پھوٹے شعر بھي کہتا تھا، پيشنگوئياں بھي کرتا تھا، کہ عالم دوبارہ نيست اور دو آدميوں کو بغل ميں داب کر دوڑ بھي لگايا کرتا تھا، ظاہر ہے اتني مصروفيتوں ميں امور مملکت کيلئے کتنا وقت نکل سکتا تھا، شراب بھي پيتا تھا، ياد رہے، اس زمانے کے لوگوں کو مذہبي احکام کو ايسا پاس نہ تھا، جيسا ہميں ہے، کہ محرم کے عشرہ کے دوران ميں شراب کي دوکانيں بند رہتي ہيں، کسي کو پيني ہو تو گھر ميں بيٹھ کر پئيے، کابل کو بہت یاد کرتا تھا، وہيں دفن ھوا، اس زمانے ميں کابل شہر اتنا گندہ نہيں ہوتا تھا جتنا آجکل ہے۔

سوالات:
1۔ بابر نے خاندان مغليہ کي بنياد کيوں رکھي، خاندان تغلق يا خاندان موريا کي کيوں نہيں؟
2۔ اگر پاني پت کي پہلي لڑائي ميں بابر کے علاوہ ابراہيم لودھي بھي شريک نہ ہوتا تو اس کا کيا نتيجہ ہوتا؟
 
بھارت

يہ بھارت ہے، گاندھي جي يہي پيدا ہوئے تھے، لوگ ان کي بڑي عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چنانچہ مار کر ان کو يہیں دفن کر ديا اور سمادھي بنا دي، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہيں تو اس پر پھول چڑھاتے ہيں، اگر گاندھي جي نہ مرتے يعني نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان ميں عقيدت مندوں کيلئے پھول چڑھانے کي کوئي جگہ نہ تھي، يہي مسئلہ ہمارے يعني پاکستان والوں کے لئے بھي تھا، ہميں قائدِ اعظم کا ممنون ہونا چاہئيے کہ خود ہي مرگئے اور سفارتي نمائندوں کے پھول چڑھانے کي ايک جگہ پيدا کردي ورنہ شايد ہميں بھي ان کو مارنا ہي پڑتا۔
بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت يہ ہے کہ اکثر ہمسايہ ملکوں کے ساتھ اس کے سيز فائر کے معاہدے ہوچکے ھيں،١٩٦٥ ميں ہمارے ساتھ ہوا اس سے پہلے چين کے ساتھ ہوا۔
بھارت کا مقدس جانورگائے ہے ، بھارتي اس کا دودہ پيتے ہيں، اسي کے گوبر سے چوکا ليپتے ہيں، اور اس کو قصائي کے ہاتھ بيچتے ہيں، اس لئيے کيونکہ وہ خود گائے کو مارنا يا کھانا پاپ سمجھتے ہيں۔
آدمي کو بھارت ميں مقدس جانور نہيں گنا جاتا۔
بھارت کے بادشاہوں ميں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہيں۔ اشوک سے ان کي لاٹ اور دہلي کا شوکا ھوٹل يادگار ہيں، اور نہرو جي کي يادگار مسئلہ کشمير ہے جو اشوک کي تمام يادگاروں سے زيادہ مظبوط اور پائيدار معلوم ہوتا ہے ۔
راجہ نہرو بڑے دھر ماتما آدمي تھے، صبح سويرے اٹھ کر شير شک آسن کرتے تھے، يعني سر نيچے اور پير اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا ديکھنے کي عادت ہوگئي تھي، حيدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعايا کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ يوگ ميں طرح طرح کے آسن ہوتے ہيں، نا واقف لوگ ان کو قلابازياں سمجھتے ہيں، نہرو جي نفاست پسند بھي تھے دن ميں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔
 
پاکستان

حدود اربعہ پاکستان کے مشرق ميں سيٹو ہے، مغرب ميں سنٹو، شمال ميں تاشقند اور جنوب ميں پاني يعني جائے مفر کسي طرف نہيں۔
پاکستان کے دو حصے ہيں، مشرق پاکستان اور مغربي پاکستان يہ ايک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں، اس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔
دونوں کا اپنا اپناحدود اربعہ بھي ہے۔
مغربي پاکستان کے شمال ميں پنجاب ، جنوب ميں سندھ ، مشرق ميں ہندوستان اور مغرب ميں سرحد اور بلوچستان ہيں، يہاں پاکستان خود کہاں واقع ہے اور واقع ہے بھي نہيں اس پر آج کل ريسرچ ہورہي ہے۔مشرقی پاکستان کے چاروں طرف آج کل مشرقي پاکستان ہي ہے۔
 
دینِ الہی

دينيات کي طرف اکبر کے شغف کو ديکھتے ہوئے وزير با تدبير ابوالفضل نے اس کے ذاتي استعمال کيلئے دين الہي ايجاد کر ديا تھا، اور يہ کہنے کي ضرورت نہيں کہ اس کے پہلے خليفہ کي ذمہ دارياں خود سنبھال لي تھيں، چڑھتے سورج کي پوجا کرنا اس مذہب کا بنيادي اصول تھا، مريد اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الہي تو ايسا دانا و فرزانہ ہے کہ تجھ کو تاحيات سربراہ مملکت يعني بادشاہ وغيرہ رہنا چاہيئے، اس کے نام کا وظيفہ پڑھتے تھے، اور اس کي تعريف ميں وقت بے وقت بيانات جاري کرتے رہتے، پرسشتں کي ايسي رسميں آج کل بھي رائج ہيں، ليکن ان کو دين الہي نہيں کہتے۔
 
ایک دعا

يا اللہ
کھانے کو روٹي دے
پہننے کو کپڑا دے
رہنے کو مکان دے
عزت اور آسودگي کي زندگي دے

مياں يہ بھي کوئي مانگنے کي چيزیں ہيں؟
کچھ اور مانگا کر
بابا جي آپ کيا مانگتے ہيں؟
ميں؟
ميں يہ چيزيں نہيں مانگتا
ميں تو کہتا ہوں
اللہ مياں مجھے ايمان دے
نيک عمل کرنے کي توفيق دے

بابا جي آپ ٹھيک مانگتے ہيں
انسان وہي چيز تو مانگتا ہے
جو اس کے پاس نہيں ہوتي
 
ہمارا ملک

ايران ميں کون رہتا ہے؟
ايران ميں ايراني قوم رہتي ہے؟
انگلستان ميں کون رہتا ہے؟
انگلستان ميں انگريز قوم رہتي ہے؟
فرانس ميں کون رہتا ہے؟
فرانس ميں فرانسيسي قوم رہتي ہے؟
يہ کون سا ملک ہے؟
يہ پاکستان ہے
اس ميں پاکستاني قوم رہتي ہوگي؟
نہيں اس ميں پاکستاني قوم نہيں رہتي ؟
اس میں سندھي قوم رہتي ہے
اس میں پنجابي قوم رہتي ہے
اس میں بنگالي قوم رہتي ہے
اس ميں يہ قوم رہتي ہے
اس میں وہ قوم رہتي ہے
ليکن پنجابي تو ہندوستان ميں بھي رہتے ہيں؟
سندھي تو ہندوستان ميں بھي رہتے ہيں؟
بنگالي تو ہندوستان ميں بھي رہتے ہيں؟
پھر يہ ملک الگ کيوں بنايا تھا؟
غلطي ہوگئي معاف کرديجئے، آئندہ نہيں بنائيں گے؟
 
پانی پت

پاني پت ميں اس وقت تک صرف ايک لڑائي ہوئي تھي پاني پت والوں کا اصرار تھا ايک اور ہوني چاھئيے، چناچہ اکبر نے پہلي فرصت ميں بہيروبنگاہ کے ساتھ ادھر کا رخ کيا، ادھر سے ہيموں بقال لشکر جرار لے کر آيا، اس کے ساتھ توپيں بھي تھيں اور ہاتھي بھي تھے، ايک سے ايک سفيد گھوڑا ، گھسمان کا رن پڑا، ہيموں کي جمعيت زيادہ تھي، ليکن الکبري لشکر نے تابڑ توڑ حملے کرکے کھلبلي مچادي، بعض ہمدردوں نے اس کے جدي وطن سے پيغام بھجوايا کہ تم اور ہيموں دونوں يہاں تاشقند آئو، صلح کرائے ديتے ہيں، ليکن اکبر نہ مانا، ہيموں ايک ہاتھي کے ہودے ميں بيٹھا روپے آنے پائي کاحساب لکھ رہاتھا کہ اس لڑائي کا مال غنيمت فروخت کرکے کس کاروبار ميں پيسہ لگايا جائے، ناگہاں ايک تير قضا کا پيغام لے کر اس کي آنکھ ميں آن لگا اور وہ بے سدھ ہو کر گر گيا، بقال کو ہم تاريخ کا پہلا موشے دايان کہہ سکتے ہيں۔
 
ادب کی سرپرستی وغیرہ

انارکلي ايک کنيز تھي جس کي وجہ سے شہزادہ سليم کا اخلاق خراب ہونےکا انديشہ تھا،اکبر نے اسے ديوار ميں چنوا ديا، ايک مصلحت اس ميں يہ تھي کہ سيد امتياز علي تاج اپنا معرکہ آرا ڈرامہ لکھ سکيں اور اردو ادب کے ذخيرے ميں ايک قيمتي اضافہ ہوسکے، درباري شاعري نظيري نيشا پوري نے ايک بار کہا کہ ميں نے لاکھ روپے کا ڈھير بھي نہيں ديکھا، بادشاہ نے ايک لاکھ خزانے سے نکلوا کر ڈھير لگا ديا، جب نظير اچھي طرح ديکھ چکا توروپے واپس خزانے ميں بھجوا دئيے، نظيري ديکھتے کا ديکھتا رہ گيا، اصل ميں نظيري يہ حرکت خانخاناں کے ساتھ پہلے بھي کر چکا تھا، خانخاناں نے شاعر کي نيت کو بھانپ کر کہہ ديا تھا کہ اچھااب يہ ڈھير تم اپنے گھر لے جائو، ليکن اکبر ايسا کچا آدمي نہ تھا۔
 
اکبر کی حکمت عملی

اکبر ميں تعصب بالکل نہ تھا خصوصا شاديوں کے معاملہ ميں کچھ رياستيں فوجوں سے فتح کيں، باقي راجائوں کي بيٹيوں کواپنے حرم ميں اور ان کے علاقوں کو اپنے سلطنت ميں شامل کر ليا، آج کل کے سيٹھ اور مل مالک جو ايسا کرتے ہيں، تو يہ کوئي نئي بات نہيں۔
 
برکات حکومت غير انگلشيہ
عزيزو بہت دن پہلے اس ملک ميں انگريزوں کي حکومت ہوتي تھي اور درسي کتابوں ميں ايک مضمون برکات حکومت انگليشہ کے عنوان سے شامل رہتا تھا، اب ہم آزاد ہيں، اس زمانے کے مصنف حکومت کي تعريف کيا کرتے تھے، کيونکہ کے اس کے سوا کوئي چارہ بھي نہيں تھا، ہم اپنے عہد کي آزادي اور قومي حکومتوں کي تعريف کريں گے، اس کي وجہ بھي ظاہر ہے۔
عزيزو انگريزوں نے کچھ اچھے کام بھي کئے ہيں، ليکن ان کے زمانے ميں خرابياں بہت تھيں، کوئي حکومت کے خلاف بولتا تھا يا لکھتا تھا تو اس کو جيل بھيج ديتے تھے، اب نہيں بھيجتے، رشوت ستاني عام تھي، آج کل نہيں ہے، دکاندار چيزيں مہنگي بيچتے اور ملاوٹ بھي کرتے تھے، آج کل کوئي مہنگي چیزیں نہيں بيچتا، ملاوٹ بھي نہيں کرتا، انگريزوں کے زمانے ميں امير اور جاگيردار عيش کرتے تھے، غریبوں کو کوئي پوچھتا نہیں تھا اب پوچھتے ہیں تو وہ تنگ آجاتے ہيں، خصوصا حق رائے دہندگي بالغاں کے بعد سے ۔
تعليم اورصنعت و حرفت کو ليجئے، ربع صدي کے مختصر عرصے ميں ہماري شرح خواندگي اٹھارہ في صد ہوگئي، غير ملکي حکومت کے زمانے ميں ايسا ہوسکتا تھا؟
انگريز شروع شروع ميں ہمارے دستکاروں کے انگوٹھے کاٹ ديتے تھے، اب کارخانوں کے مالک ہمارے اپنےلوگ ہيں، دستکاروں کے انگھوٹے نہيں کاٹتے ہاں کبھي کبھي پورے دستکار کو کاٹ ديتے ہيں، آزادي سے پہلےہندو بنئيے اور سرمايہ دار ہميں لوٹا کرتے تھے، ہماري خواہش تھي، کہ يہ سلسلہ ختم ہو اور ہميں مسلمان بنئے اور سيٹھ لوٹيں،الحمد اللہ کہ يہ آرزو پوري ہوئي۔ جب سے حکومت ہمارے ہاتھ ميں آئي ہے ہم نے خاصی ترقی کی ہے۔ خاص برآمدات دو ہيں، وفود اور زرمبادلہ، درآمدات ہم گھٹاتے جارہے ہيں، ايک زمانہ ميں تو خارجہ پاليسی تک باہر سے درآمد کرتے تھے ، اب يہاں بننے لگي ہے۔
 
خانخاناں
خانخاناں کا خطاب ذولفقار الدولہ کا تھا، اکبر کا سب سے کم عمر وزير تھا، ذہين اور خوش تقرير، اکبر اسے بہت عزيز رکھنے لگا اور باہر کي ولايتوں سے ہر طرح کے معاملت اس کے سپرد کر رکھي تھي، ٹوڈر مل کو يہ بات پسندنہ آئي کيونکہ خانخاناں کاميلان مہاراجہ سام گڑھ کے بجائے فغفور چين کي طرف زيادہ تھا، آخر نورتنوں کے حلقے سے نکلوا کر دم ليا، کہتے ہيں کہ پاني پت کي دوسري لڑائي کے سلسلے ميں بھي بادشاہ سے خانخاناں کے اختلافات ہو گئے تھے، اکبر ہميوں بقال سے صلح پر آمادہ تھا، خانخاناں اس کا مخالف تھا، خانخاناں کو يہ بھي پسند نہ تھا کہ امراء بڑي بڑي جاگيروں پر قابض ہوں، يا علما جائداديں بنائيں، اس لئےدربار کے علما بھي اس سےناراض ہوگئے تھے، اور اس کے عقائد ميں نقص نکالنے لگے تھے۔
خانخانان نے بد دل ہو کر پرچم بغاوت بلند کيا تو لاکھوں لوگ اس سے آملے ليکن ان ميں روساء اور خانداني امير بہت کم تھے، زيادہ تر عام طبقے کے آدمي تھے، خانخاناں اپنا دربار پيپل کے ايک درخت کے نيچے لگاتا تھا، اس لئے اس کے حامي بھي پيپل والے مشہور ہوئے۔
 
رامائن
رامائن رامچندر جي کي کہاني ہے، يہ راجہ وسرتھ کے پرنس آف ويلز تھے،ليکن ان کي سوتیلي ماں کيکي اپنے بيٹےبھرت کو راجا بنانا چاھتي تھي اس کے بہکانے پر راجا وسرتھ نےرامچندر جي کوچودہ برس کے لئے گھر سے نکال ديا، ان کي راني سيتا کو بھي ان کے بھائي لچھمن بھي ساتھ ہو لئيے بن باس کے لئے نکلتے وقت رامچندر جي کے پاس کچہ نہ تھا، بس ايک کھڑاواں تھي، وہ بھي بھرت نے رکھوائي کہ آپ کي نشاني ہمارے پاس رہني چاہئيے، اس کھٹراواں کو بھرت تخت کے پاس بلکہ اوپر رکھتا تھا تاکہ رامچندر جي کا کوئي آدمي چرا کے نہ لے جائے۔
جنگل ميں رہنے کي وجہ سے ان کو گزارے ميں چنداں تکليف نہ ھوتي تھي رام جي تو آخر رام جي جي تھے، زيادہ کام ان کا لکشمن يعني برادر خود کيا کرتے تھے۔
يہ لوگ گن گن کر دن گزار رہےتھے، کہ کب بارہ برس پورے ہوں اور کب يہ واپس جاکر راج پاٹ سنبھاليں اور رعايا کي بے لوث خدمت کريں، ايک روز جب کہ رام اور لکشمن دونوں شکار کوگئے ھوئے تھے لنکا کا راجا آيا اور سيتا جي کو اٹھا کر لے گيا، اس پر رامچندر جي اور رادن ميں لڑائي ھوئي، گھمسان کا رن پڑا جيسا کہ دسہرے کے تہوار ميں پڑتا آپ نے ديکھا ہوگا۔
ہنومان جي اور ان کے بندروں نے رامچندر جي کا ساتھ ديا اور وہ راون اور اس کے راکشسوں کو مار کر جيت گئے اور پرانے خيال کے ہندو اسي لئے بندروں کي اتني عزت کرتے ہيں، ان کو انسانوں پر ترجيح ديتے ہيں۔
 
فعل ديگر​
فعل کي بنيادي قسميں دو ہيں، جائز فعل، ناجائز فعل، ہم صرف جائز فعل کے افعال سے بحث کريں گے، کيونکہ قسم دوئم پر پنڈت کو آنجہاني اور جناب جوش مليح آبادي مبسوط کتابيں لکھ چکے ہيں۔
فعل کي دو قسميں فعل لازم اور فعل متعدي بھي ہيں، فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو، مثلا افسر کي خوشامد، حکومت سے ڈرنا، بيوي سے جھوٹ بولنا وغيرہ۔
فعل متعدي عموما متعدي امراض کي طرح پھيل جاتا ہے ايک شخص کنبہ پروري کرتا ہے، دوسرے بھي کرتے ہيں، ايک رشوت ليتا ہے، دوسرے اس سے بڑھ کر ليتے ہيں، ايک بناسپتي گھي کا ڈبہ پچيس روپے ميں کرديتا ہے دوسرا گوشت کے ساڑھے بارہ روپے لگاتا ہے، لطف يہ ہے کہ دونوں اپنے فعل متعدي کو فعل لازم قرار ديتے ہيں، ان افعال ميں گھاٹے ميں صرف مفعل رہتا ہے، يعني عوام ، فائل کي شکايت کي جائے تو فائليں دب جاتي ہيں۔
 
فعل ماضي​
ماضي ميں کسي شخص نے جو فعل کيا ہو اسے فعل ماضي کہتے ہيں، کرنے والا عموما اسے بھولنے کي کوشش کرتا ہے، ليکن لوگ نہيں بھولتے۔
ماضي کي کئي قسميں مشہور ہيں، سب سے زيادہ شاندار ماضي ہے، جس قوم کو اپنا مستقبل ٹھيک نظر نہ آئے وہ اس صيغے کو بہت استعمال کرتي ہے۔
ايک ماضي شکيہ ہے جن لوگوں کا ماضي مشکوک ہو وہ ماضي شکيہ ذيل ميں آتے ہيں عموما ہاتھوں لئے جاتے ہيں۔
ماضي شرطي یا ماضي تمنائي جن لوگوں نے ريس ميں يا تاش پر شرطيں بدل بدل کر اپنا ماضي تباہ کيا ہو ان کے ماضي کو شرطي کہتے ہيں، چونکہ ان لوگوں کي تمنا ہوتي ہے کہ اور پيسے آئيں تو انکو بھي ريس ميں لگائيں اور اس لئے شرطي اور تمانئي دونوں ماضياں ساتھ ساتھ آتي ہيں۔
اس کي دو اور قسميں ہيں ماضي قريب اور ماضي بعيد ، ماضي کو حتمي الوسع قريب نہ آنے دينا چاہيئے، جتني بعيد رہے گي اور جتنے اس پر پردے پڑے رہيں گے، اتني ہي بھلي معلوم ہوتي ہے، ماضي کا بعيد رہنا مستقبل کيلئے بھي اچھا ہے۔
 
لفظ اور صيغے​
پرانے زمانے ميں تذکير و تانيث کے قاعدے مقرر تھے، قاعدہ ياد ہوتو
لباس اور بالوں وغيرہ سے پہچان ہوجاتي ہے، اب مخاطب سے پوچھنا پڑتا ہے، کہ تو مذکر ہے يا مونث اور بتا تيري رضا کيا ہے؟اس کے بعد اس سے صحيح صيغے ميں گفتگو کرتے ہيں يا ايران ہوتو اس کے ساتھ صيغہ کرتے ہيں۔
بہت سے واحد ايک جگہ اکھٹے ہوں تو جمع کے صيغے ميں آجاتے ہيں، جمع کے صيغے ميں تھوڑي احتياط ضروري ہے خصوصا جن دنوں شہرميں دفعہ ١٤٤ لگي ہوتي ہے، ان دنوں جمع نہيں ہونا چاہئيے، واحد رہنا ہي اچھا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ابن انشاء کے مضامین

کبوتر
کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ یہ آبادیوں‌میں، جنگلوں‌میں، مولوی اسمعیل مرٹھی کی کتاب میں غرض‌یہ کہ ہر جگہ پایا جاتاہے۔ کبوتر کی دو بڑی قسمیں ہیں۔1۔ نیلے کبوتر۔ 2 سفید کبوتر۔ نیلے کبوتر کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ سفید کبوتر بالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔ کبوتروں نے تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ شہزادہ سلیم نے مسماۃ مہرالنساء کو جب کہ وہ ابھی بےبی نورجہاں تھیں، کبوتر ہی پکڑایا تھا جو اس نے اڑا دیا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصے میں زیادہ فائدے میں کون رہا؟ شہزادہ سلیم‌؟ نورجہاں؟یا وہ کبوتر؟‌رعایا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث میں نہ آتا تھا۔ پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لئے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ بعد میں آدمیوں کو قاصد بنا کر بھیجنے کا رواج ہو تو بعض اوقات یہ نتیجہ نکلا کہ مکتوب الیہ یعنی محبوب قاصد سے ہی شادی کر کے بقیہ عمر ہنسی خوشی گزار دیتا۔ چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ایک صاحب کو الٹی میٹم دے کر والئی ملک کے پاس بھیجاتھا۔ الٹی میٹم تو راستے میں کہیں رہ گیا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزیر بننے کی خبر اخباروں میں آگئی۔ طوطے کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا جاتا تو یہ صورت حال پیش نہ آتی۔
پیاسا کوا
ایک پیاسے کوے کو ایک جگہ پانی کا مٹکا پڑا نظر آیا۔ بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پانی بہت نیچے فقط مٹکے کی تہہ میں تھوڑا سا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پانی کو کیسے اوپر لایا جائے اور اپنی چونچ تر کی جا سکے۔
اتفاق سے اس نے حکایات لقمان پڑھ رکھی تھی۔ پاس بہت سارے کنکر پڑے تھے۔ اس نے اٹھا کر ایک ایک کنکر اس میں ڈالنا شروع کیا۔ کنکر ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئی۔ پیاسا تو تھا ھی، نڈھال بھی ہو گیا۔ مٹکے کے اندر نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنکر ہی کنکر ہیں۔ سارا پانی کنکروں نے پی لیا ہے۔ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ہت ترے لقمان کی۔پھر بے سدھ ہو کر زمین پر گر گیا اور مر گیا۔ اگر وہ کوا کہیں سے ایک نلکی لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بیٹھا بیٹھا پانی کو چوس لیتا۔ اپنے دل کی مراد پاتا۔ ہرگز جان سے نہ جاتا۔
اکبر
آپ نے حضرت ملا دو پیازہ اور بیربل کے ملفوظات میں اس بادشاہ کا حال پڑھا ھوگا۔ راجپوت مصوری کے شاہکاروں میں اس کی تصویر بھی دیکھی ھوگی، ان تحریروں اور تصویروں سے یہ گمان ہوتا ہے کہ بادشاہ سارا وقت داڑھی گھٹوائے، مونچھیں ترشوائے، اکڑوں بیٹھا پھول سونگھتا رہتا تھا یا لطیفے سنتا رہتا تھا، یہ بات نہیں۔ اور کام بھی کرتا تھا۔
اکبر قسمت کا دھنی تھا، چھوٹا سا تھا کہ باپ ستارے دیکھنے کے شوق میں کوٹھے سے گر کر جاں بحق ہو گیا اور تاج و تخت اسے مل گیا۔ ایڈورڈ ہفتم کی طرح چونسٹھ برس ولی عہدی میں نہیں گزارنے پڑے۔ ویسے اس زمانے میں اتنی لمبی ولی عہدی کا رواج بھی نہ تھا۔ ولی عہد لوگ جونہی باپ کو عمر کی معقول حد سے تجاوز کرتا دیکھتے تو اسے قتل کرکے،یا زیادہ رحم دل ہوتے تو قید کر کے تخت حکومت پر جلوہ افروز ہو جایا کرتے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ دن رعایا کی خدمت کا حق ادا کر سکیں۔
بابر
بابر شاہ سمر قند سے ہندوستان آیا تاکہ یہاں خاندان مغلیہ کی بنیاد ڈال سکے۔ یہ کام تو وہ بخوبی اپنے وطن میں بھی کر سکتا تھا، البتہ پانی پت کی پہلی لڑائی میں اس کی موجودگی ضروری تھی۔ یہ نہ ہوتا تو وہ لڑائی ایک طرفہ ہوتی۔ایک طرف ابراہیم لودھی ہوتا اور دوسری طرف کوئی بھی نہ ہوتا۔ لوگ اس لڑائی کا حال پڑھ پڑھ کر ہنسا کرتے۔
یہ بادشاہ تزک لکھتا تھا، ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہتاتھا، پیشین گوئیاں بھی کرتا تھا کہ عالم دوبارہ نیست اور دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر دوڑ بھی لگایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے اتنی مصروفیتوں میں امور مملکت کے لئے کتنا وقت نکل سکتا تھا، شراب بھی پیتا تھا، یاد رہے، اس زمانے کے لوگوں کو مذہبی احکام کا ایسا پاس نہ تھا، جیسا ھمیں ہے کہ محرم کے عشرہ کے دوران میں شراب کی دوکانیں بند رہتی ہیں۔ کسی کو پینی ہو تو گھر میں بیٹھ کر پئے۔ کابل کو بہت یاد کرتا تھا، وہیں دفن ہوا۔ اس زمانے میں کابل شہر اتنا گندہ نہیں ہوتا تھا جتنا آج کل ہے۔
سوالات:
1۔ بابر نے خاندانی مغلیہ کی بنیاد کیوں رکھی، خاندان تغلق یا خاندان موریہ کی کیوں‌نہیں؟
2۔ اگر پانی پت کی پہلی لڑائی میں بابر کے علاوہ ابراہیم لودھی بھی شریک نہ ہوتا تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا؟
بھارت
یہ بھارت ہے۔ گاندھی جی یہیں پیدا ہوئےتھے۔ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کو مہاتما کہتے تھے، چناچہ مار کر ان کو یہیں دفن کر دیا اور سمادھی بھی بنا دی۔ دوسرے ملکوں‌کے بڑے لوگ آتے ہیں تو اس پر پھول چڑھاتے ہیں۔ اگر گاندھی جی نہ مرتے، یعنی نہ مارے جاتے تو پورے ہندوستان میں عقیدت منددوں کے لئے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہی مسئلہ ہمارے یعنی پاکستان والوں کے لئے بھی تھا۔ ہمیں قائد اعظم کا ممنون ہونا چاہئے کو خود ہی مر گئے اور سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کی ایک جگہ پیدا کر دی ورنہ ھمیں بھی ان کو مارنا پڑتا۔
بھارت بڑا امن پسند ملک ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ہمسائیہ ملکوں کے ساتھ اس کے سیز فائر کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ 1970 میں ھمارے ساتھ ہوا۔ اس سے پہلے چین کے ساتھ ھوا۔ بھارت کا مقدس جانور گائے ہے۔ بھارتی اس کا دودھ پیتے ہیں، اسی کے گوبر سے چوکا لیپتے ہیں، اور اس کو قصائی کے ہاتھ بیچتے ہیں، اس لیئے کیونکہ وہ خود گائے کو مارنا یا کھانا پاپ سمجھتے ہیں۔
آدمی کو بھارت میں مقدس جانور نہیں مانا جاتا۔
بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہیں۔ اشوک سے ان کی لاٹ اور دہلی کا اشوک ہوٹل یادگار ہیں۔ اور نہرو جی کی یادگار مسئلہ کشمیر ہے۔ جو اشوک کی تمام یادگاروں سے زیادہ مضبوط اور پائیدار معلوم ہوتا ہے۔
راجہ نہرو بڑے دھرماتما آدمی تھے۔ صبح سویرے اٹھ کر شیر شک آسن کرتے تھے، یعنی سر نیچے اور پیر اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا دیکھنے کی عادت ہو گئی تھی۔ حیدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعایا کے نقطہءنظر سےدیکھا اور کشمیر کو راجہ کے۔ یوگ میں طرح طرح کے آسن ہوتے ہیں، ناواقف لوگ ان کو قلابازیاں سمجھتے ہیں۔ نہرو جی نفاست پسند بھی تھے۔ دن میں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔
پاکستان
حدود اربعہ میں پاکستان کے مشرق میں سیٹو ہے، مغرب میں سنٹو، شمال میں تاشقند اور جنوب میں پانی، یعنی جائے مفر کسی طرف نہیں۔
پاکستان کے دو صوبے ہیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ یہ ایک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں۔ اس کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔
دونوں کااپنا اپنا حدود اربعہ بھی ہے۔
مغربی پاکستان کے شمال میں پنجاب، جنوب میں سندھ، مشرق میں ہندوستان اور مغرب میں سرحد اور بلوچستان ہیں۔ یہاں‌پاکستان خود کہا ں واقع ہے اور واقع ہے بھی کہ نہیں، اس پر آج کل ریسرچ ہو رہی ہے۔ مشرقی پاکستان کے چاروں طرف آج کل مشرقی پاکستان ہی ہے۔
دین الٰہی
دینیات کی طرف اکبر کا شغف دیکھتے ہوئے وزیر با تدبیر ابوالفضل نے اس کے ذاتی استعمال کے لیئے دین الٰہی ایجا کر دیا تھا، اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے پہلے خلیفہ کی ذمہ داریاں خود سنبھال لی تھیں۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا، مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا و فرزانہ ہےکہ تجھ کو تاحیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیرہ رہنا چاھئے۔ اس کے نام کا وظیفہ پڑھتے تھے اور اس کی تعریف میں وقت بے وقت بیانات جاری کرتے رہتے۔ پرستش کی ایسی رسمیں آج کل بھی رائج ہیں لیکن ان کو دین الٰہی نہیں کہتے۔
ایک دعا
یا اللہ
کھانے کو روٹی دے
پہننے کو کپڑا دے
رہنے کو مکان دے
عزت اور آسودگی کی زندگی دے
میاں یہ بھی کوئی مانگنے کی چیزیں ہیں؟
کچھ اور مانگا کر
بابا جی آپ کیا مانگتے ہیں؟
میں؟
میں یہ چیزیں‌نہیں مانگتا
میں تو کہتا ہوں
اللہ میاں مجھے ایمان دے
نیک عمل کرنے کی توفیق دے
بابا جی آپ ٹھیک مانگتے ہیں
انسان وہی چیز تو مانگتا ہے
جو اس کے پاس نہیں‌ہوتی
ہمارا ملک
ایران میں کون رہتا ہے؟
ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے۔
انگلستان میں کون رہتا ہے؟
انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے۔
فرانس میں کون رہتا ہے؟
فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔
یہ کون سا ملک ہے؟
یہ پاکستان ہے۔
اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟
نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی
اس میں سندھی قوم رہتی ہے
اس میں پنجابی قوم رہتی ہے
اس میں بنگالی قوم رہتی ہے۔
اس میں یہ قوم رہتی ہے
اس میں وہ قوم رہتی ہے
لیکں پنجابی تو ہندوستان میں‌بھی رہتے ہیں
سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں
ُپھر یہ ملک الگ کیوں بنایا تھا؟
غلطی ہو گئی، معاف کر دیجئے، آئیندہ نہیں بنایئں گے۔
پانی پت
پانی پت میں اس وقت تک صرف ایک لڑائی ہوئی تھی۔ پانی پت والوں کا اصرار تھا کہ ایک اور ہونی چاہئے۔ چناچہ اکبر نے پہلی فرصت میں بہیرو بنگاہ کے ساتھ ادھر کا رخ‌کیا۔ ادھر سے ہیموں بقال لشکر جرار لے کر آیا۔ اس کے ساتھ توپیں بھی تھیں اور ہاتھی بھی۔ ایک سے ایک سفید گھوڑا، گھمسان کا رن پڑا۔ ہیموں کی جمعیت زیادہ تھی۔ لیکن اکبری لشکر نے تابڑ توڑ حملے کر کے کھلبلی مچا دی۔ بعض ہمدردوں نے اس کے جدی وطن سے پیغام بھجھوایا کہ تم اور ہیموں دونوں‌یہاں تاشقند آو، صلح کرا ئے دیتے ہیں۔ لیکن اکبر نہ مانا۔ ہیموں ایک ہاتھی کے ہودے میں بیٹھا روپے آنے پائی کا حساب لکھ رہا تھا کہ اس لڑائی کا مال غنیمت فروخت کر کے کس کاروبار میں لگایا جائے۔ ناگہاں ایک تیر قضا کا پیغام لے کر اس کی آنکھ میں آن لگا اور وہ بےسدھ ہوکر گر گیا۔ بقال کو ہم تاریخ کا پہلا موشے دایان کہ سکتے ہیں۔
ادب کی سرپرستی
انار کلی ایک کنیز تھی۔ جس کی وجہ سے شہزادہ سلیم کا اخلاق خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔ اکبر نے اسے دیوار میں چنوا دیا۔ ایک محلحت اس میں‌یہ بھی تھی کہ سید امتیاز علی تاج اپنا معرکۃ لارا ڈرامہ لکھ سکیں اور اردو ادب کے ذخیرے میں ایک قیمتی اضافہ ہو سکے۔ درباری شاعر نظیری نیشاپوری نے ایک بار کہا کہ میں نے لاکھ روپے کا ڈھیر کبھی نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے ایک لاکھ روپے خزانے سے نکلوا کر ڈھیر لگوا دیا۔ جب نظیری اچھی طرح دیکھ چکا تو روپے واپس خزانے میں بھجوا دئے۔ نظیری دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا۔ اصل میں نظیری یہ حرکت خانخاناں کے ساتھ پہلے بھی کر چکا تھا۔ خانخاناں نے شاعر کی نیت بھانپ کر کہ دیا تھا کہ اچھا اب یہ ڈھیر تم اپنے گھر لے جاو۔ لیکن اکبر ایسا کچا آدمی نہیں تھا۔
اکبر کی حکمت عملی
اکبر میں تعصب بالکل نہ تھا۔ خصوصاًشادیوں کے معاملہ میں۔ کچھ ریاستیں فوجوں سے فتح کیں باقی راجاوں کی بیٹیوں کو اپنے حرم میں اور ان کے علاقوں‌کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ آج کل کے سیٹھ اور مل مالک جو ایسا کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔
برکات حکومت غیر انگلیشیہ
عزیزو بہت دن پہلے اس ملک میں انگریزوں کی حکومت ہوتی تھی اور درسی کتابوں میں ایک مضمون برکات حکومت انگلیشیہ کے عنوان سے شامل رہتا تھا۔ اب ہم آزاد ہیں۔ اس زمانے کے مصنف حکومت کی تعریف کیا کرتے تھےکیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہم اپنے عہد کی آزادی اور قومی حکومتوں کی تعریف کریں گے۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔
عزیزو انگریزوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔ لیکن ان کے زمانے میں خرابیاں بہت تھیں۔ کوئی حکومت کے خلاف بولتا تھا یا لکھتا تھا تو اس کو جیل بھیج دیتے تھے، اب نہیں بھیجتے۔ رشوت ستانی عام تھی، آج کل نہیں ہے۔ دوکاندار چیزیں مہنگی بیچتے اور ملاوٹ کرتے تھے، آج کل کوئی مہنگی چیزیں نہیں بیچتا، ملاوٹ بھی نہیں کرتا۔ انگریزوں کے زمانے میں امیر اور جاگیر دار عیش کرتے تھے، غریبوں کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ اس اتنا پوچھتے ہیں کہ وہ تنگ آجاتے ہیں۔ خصوصاًحق رائے دہندگی بالغان کے بعدسے۔
تعلیم اور صنعت و حرفت کو لے لیجئے۔ ربع صدی کے مختصر عرصے میں ہماری شرح خواندگی اٹھارہ فیصد ہو گئی ہے۔ غیر ملکی حکومت کے زمانے میں ایسا ہو سکتا تھا؟
انگریز شروع شروع میں ہمارے دستکاروں کے انگوٹھے کاٹ دیتے تھے، اب کارخانوں کے مالک ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ دستکاروں کے انگوٹھے نہیں کاٹتے، ہاں کبھی کبھار پورے دستکار کو کاٹ دیتے ہیں۔ آزادی سے پہلے ہندو بنئیے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے، ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئیےاور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد للہ کہ ہماری یہ آرزو پوری ہوئی۔ جب سے حکومت ہمارے ہاتھ آئی، ہم نے خاصی ترقی کی ہے۔ خاص برآمدات دو ہیں، وفود اور زر مبادلہ۔ درآمدات ہم گٹھاتے جا رہے ہیں۔ ایک زمانے میں تو خارجہ پالیسی تک باہر سے درآمد کرتے تھے۔ اب یہاں بننے لگی ہے۔
خانخاناں
خانخاناں کا خطاب ذوالفقار الدولہ تھا۔ اکبر کا سب سے کم عمر وزیر تھا۔ ذہین اور خوش تقریر۔ اکبر اسے بہت عزیز رکھنے لگا اور باہرکی ولائیتوں سے ہر طرح کے معاملت اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ ٹوڈرمل کو یہ بات پسند نہ آئی کیونکہ خانخاناں کا میلان مہاراجہ سام گڑھ کی بجائے فغفور چین کی طرف زیادہ تھا۔ آخر نورتنوں کے حلقے سے نکلوا کر دم لیا۔ کہتے ہیں کہ پانی پت کی دوسری لڑائی کے سلسلے میں بھی بادشاہ سے خانخاناں کے اختلافات ہو گئے تھے۔ اکبر ہیموں بقال سے صلح پر آمادہ تھا، خانخاناں اس کا مخالف تھا۔ خانخاناں کو یہ بھی پسند نہ تھا کہ امراء بڑی بڑی جاگیروں پر قابض ہوں، یا علماء جائیداد بنائیں، اس لئے دربار کے علماء اس سے ناراض ہو گئے تھے اور اس کے عقائد میں نقص نکالنے لگے تھے۔
خانخاناں نے بددل ہو کر پرچم بغاوت بلند کیا تو لاکھوں لوگ اس سے آن ملے۔ زیادہ تر عام طبقے کے آدمی تھے۔ خانخاناں اپنا دربار پیپل کے ایک درخت کے نیچے لگاتا تھا۔ اس لئے اس کے حامی بھی پیپل والے مشہور ہوئے۔
رامائن
رامائن رامچندر جی کی کہانی ہے۔ یہ راجہ وسرتھ کے پرنس آف ویلز تھے، لیکن ان کی سوتیلی ماں کیکی اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنانا چاہتی تھی۔ اس کے بہکانے پر راجہ وسرتھ نے رامچندر جی کو چودہ برس کے لئے گھر سے نکال دیا۔ ان کی رانی سیتا کو بھی اور ان کے بھائی لچھمن بھی ساتھ ہو لیئے۔ بن باس کے لئے نکلتے وقت رامچندر جی کے پاس کچھ نہ تھا۔ بس ایک کھڑاواں تھی، وہ بھی بھرت نے رکھوا لی تھی کہ آپ کی نشانی ہمارے پاس رہنی چاہئے۔ اس کھڑاواں کو بھرت تخت کے پاس بلکہ اوپر رکھتا تھا کو رامچندر جی کا کوئی آدمی چرا کے نہ لے جائے۔
جنگل میں رہنے کی وجہ سے ان کو گزارے میں‌چنداں‌تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ رام جی تو آخر رام جی تھے، ان کا زیادہ کام لکشمن یعنی برادر خورد کیا کرتے تھے۔ یہ لوگ گن گن کر دن گزار رہے تھے کہ کب بارہ برس پورے ہوں اور کب یہ جا کر راج پاٹ سنبھالیں اور رعایا کی بے لوث خدمت کریں۔ ایک روز جب رام اور لکشمن دونوں شکار پر گئے ہوئے تھے کہ لنکا کا راجہ آیا اور سیتا جی کو اٹھا کر لے گیا۔ اس پر رامچندر جی اور راون میں لڑائی ہوئی۔ گھمسان کا رن پڑا جیسا کہ دسہرے کے تہوار پر پڑتا آپ نے دیکھا ہوگا۔ ہنومان جی اور ان کے بندروں نے رامچندر جی کا ساتھ دیا اور وہ راون اور اس کے راکھشسوں کو مار کر جیت گئے۔ پرانے خیال کے ہندو اسی لئے بندروں کی اتنی عزت کرتے ہیں، ان کو انسانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
فعل دیگر
فعل کی بنیادی قسمیں دو ہیں۔ جائز فعل اور ناجائز فعل۔ ہم صرف جائز فعل کے افعال سے بحث کریں‌گے۔ کیونکہ قسم دوئم پرآنجہانی پنڈت کوک اور جناب جوش ملیح آبادی مسوط کتابیں لکھ چکے ہیں۔
فعل کی دو قسمیں فعل لازم اور فعل متعدی بھی ہیں۔ فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو، مثلا ًافسر کی خوشامد، حکومت سے ڈرنا، بیوی سے جھوٹ بولنا وغیرہ۔
فعل متعدی عموماًمتعدی امراض کی طرح پھیل جاتا ہے۔ ایک شخص کنبہ پروری کرتا ہے، دوسرے بھی کرتے ہیں۔ ایک رشوت لیتا ہے، دوسرے اس سے بڑھ کر لیتے ہیں۔ ایک بناسپتی گھی کا ڈبہ پچیس روپے کر دیتا ہے دوسرا گوشت کے ساڑھے بارہ روپے لگاتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ دونوں اپنے فعل متعدی کو فعل لازم قرار دیتے ہیں۔ ان افعال میں گھاٹے میں صرف مفعول رہتا ہے۔ یعنی عوام۔ فاعل کی شکایت کی جائے تو فائل دب جاتی ہے۔
فعل ماضی
ماضی میں کسی شخص نے جو فعل کیا ہو اسے فعل ماضی کہتے ہیں۔ کرنے والا عموماًبھولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لوگ نہیں بھولتے۔ ماضی کی کئی قسمیں مشہور ہیں۔ سب سےزیادہ شاندار ماضی ہے۔ جس قوم کو اپنا مستقبل ٹھیک نظر نہ آئے وہ اس صیغے کو بہت استعمال کرتی ہے۔
ایک ماضی شکیہ ہے۔ جن لوگوں کا ماضی مشکوک ہو وہ ماضی شکیہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ عموماً ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔
ماضی شرطیہ یا ماضی تمنائی، جن لوگوں نے ریس میں یا تاش کے پتوں پر شرطیں بدل بدل کر اپنا ماضی تباہ کیا ہو، ان کے ماضی کو ماضی شرطی کہتے ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کو اور پیسے آئیں تو ان کو بھی ریس میں لگائیں اور اس لئے شرطی اور تمنائی دونوں ماضیاں ساتھ ساتھ آتی ہیں۔
اس کی دو اور قسمیں ہیں۔ ماضی قریب اور ماضی بعید۔ ماضی کو حتی الوسیع قریب نہ آنے دینا چاہئے۔ جتنی بعید رہے گی اور جتنے اس پر پردے پڑے رہیں گے اتنی ہی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ ماضی کا بعید رہنا مستقبل کے لئے بھی اچھاہے۔
لفظ اور صیغے
پرانے زمانے میں تذکیر اور تانیث کے قاعدے مقرر تھے۔ قاعدہ یاد ہو تو لباس اور بالوں وغیرہ سے پہچان ہو جاتی ہے۔ اب مخاطب سے پوچھنا پڑتا ہے کو تو مذکر ہے یا مونث اور بتا تیرے رضا کیا ہے۔ اس کے بعد اس سے صحیح صیغے میں گفتگو کرتے ہیں یا ایران ہو تو اس کے ساتھ صیغہ کرتے ہیں۔
بہت سے واحد ایک جگہ جمع ہوں تو جمع کے صیغے میں آجاتے ہیں۔ جمع کے صیغے میں تھوڑی سی احتیاط ضروری ہے۔ خصوصاً جن دنوں شہر میں دفعہ 144 لگی ہو۔ ان دنوں میں جمع نہیں ہونا چاہئے، واحد رہنا ہی اچھاہے۔
قیصرانی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top