رضوان

محفلین
کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا

ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے چھوٹيں محفليں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا
 

رضوان

محفلین
لب پر کسي کا بھي ہو، دل ميں تيرا نقشا ہے
اے تصوير بنانے والي، جب سے تجھ کو ديکھا ہے

بے ترے کيا وحشت ہم کو، تجھ بن کيسا صبر و سکوں
تو ہي اپنا شہر ہے جاني تو ہي اپنا صحرا ہے

نيلے پربت، اودي دھرتي، چاروں کوٹ ميں تو ہي تو
تجھ سے اپنے جي خلوت، تجھ سے من کا ميلا ہے

آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
يوسف تو بازار وفا ميں ايک ٹکے کو بکتا ہے

لے جاني اب اپنے من کے پيراہن کي گرہيں کھول
لے جاني اب آدھي شب ہے چار طرف سناٹا ہے

طوفانوں کي بات نہيں ہے، طوفاں آتے جاتے ہيں
تو اک نرم ہواکا جھونکا، دل کے باغ ميں ٹھہرا ہے

ياتو آج ہميں اپنالے يا تو آج ہمارا بن
ديکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جيتا ہے

فردا محض فسوں کا پردا، ہم تو آج کے بندے ہيں
ہجر و وصل وفا اور دھوکا سب کچھ آج پہ رکھتا ہے
 

رضوان

محفلین
دل درد کي شدت سے خون گشتہ و سي پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ

دروازہ کھلا رکھنا

سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
پھاگن کا نہيں ہے بادل جو چار گھڑي بر سے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، جو برسے تو بڑی برسے

دروازہ کھلا رکھنا

ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري

دروازہ کھلا رکھنا
 

رضوان

محفلین
انشا جي اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جي کو لگانا کيا
وحشي کو سکوں سےکيا مطلب، جوگي کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس وقت کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہي سوچو تو سہي
جس جھولي ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولي کا پھيلانا کيا

شب بيتي، چاند بھي ڈوب چلا، زنجير پڑي دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجني سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کي لمبي رات مياں، سنجوگ کي تو يہي ايک گھڑي
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس حسن کے سچے موتي کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا


جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بَن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کي سي نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
 

قیصرانی

لائبریرین
اب نہ محمل نہ گرد محمل ہے
اب نہ محمل نہ گرد محمل ہے
اے جنوں دشت ہے کہ منزل ہے

اب تمہی راہ سے بھٹک جاؤ
دل کو سمجھانا سخت مشکل کام ہے

نا خدا کو ڈبو دیا ہم نے
اب کسے آرزوئے ساحل ہے


اے دل والو گھر سے نکلو، دیتا دعوت عام ہے چاند
اے دل والو گھر سے نکلو، دیتا دعوت عام ہے چاند
شہروں شہروں، قریوں قریوں وحشت کا پیغام ہے چاند

تو بھی ہرے دریچے والی، آجا برسر بام ہے چاند
ہر کوئی جگ میں خود سا ڈھونڈے، تجھ بن بے آرام ہے چاند

سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں
ہم سے نہیں تو اس سے کہ دے، کرتا کہاں کلام ہے چاند

جس جس سے اسے ربط رہا ہے اور بھی لوگ ہزاروں ہیں
ایک تجھی کو بے مہری کا دیتا کیوں‌الزام ہے چاند

وہ جو تیرا داغ غلامی ماتھے پر لئے پھرتا ہے
اس کا نام تو انشاء ٹھہرا، ناحق کو بدنام ہے چاند

ہم سے بھی دو باتیں کر لے کیسی بھیگی شام ہے چاند
سب کچھ سن لے آپ نہ بولے، تیرا خوب نظام ہے چاند

ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں
دیکھ کسی دن آ مل ہم سے، ہم کو تجھ سے کام ہے چاند

اپنے تو دل کے مشرق و مغرب اس کے رخ سے منور ہیں
بے شک تیرا روپ بھی کامل، بےشک تو بھی ہے چاند

تجھ کو تو ہر شام فلک پر گھٹتا بڑھتا دیکھتے ہیں
اس کو دیکھ کے عید کریں گے، اپنا اور اسلام ہے چاند

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
اے من والی، بدلی کالی، روپ کا رس برساتی جا

اے من والی، بدلی کالی، روپ کا رس برساتی جا
دل والوں کی اجڑی کھیتی، سونا دھام برساتی جا

دیوانوں کا روپ نہ دھاریں، یا دھاریں؟ بتلاتی جا
ماریں یا ہمیں اینٹ نہ ماریں، لوگون سے فرماتی جا

اور بہت سے رشتے تیرے، اور بہت سے تیرے نام
آج تو ایک ہمارے رشتے، محبوبہ کہلاتی جا

پورے چاند کی رات وہ ساگر، جس ساگر کا اور نہ چھور
یا ہم آج ڈبو دیں تجھ کو، یا تو ہمیں بچاتی جا

ہم لوگوں کی آنکھیں پلکیں راہ میں ہیں، کچھ اورنہیں
شرماتی گھبراتی گوری، اتراتی اٹھلاتی جا

دل والوں کو دور پہنچ ہے، ظاہر کی اوقات نہ دیکھ
ایک نظر بخشش میں دے کر، لاکھ ثواب کماتی جا

اور تو فیض نہیں کچھ تجھ سے، اے بے حاصل، اے بے مہر
انشاء سے نظمیں، غزلیں، گیت کبت لکھواتی جا

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے ماروں کا

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک کرستاروں کا

جھوٹے سکوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہے ان بنجاروں کا

اپنی زبان سے کچھ نہ کہیں چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا

جس جپسی کا ذکر ہے تم سے دل سے دل کو اس کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا نگاروں کا

انشاء جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوٹی نام نہ لو ان پیاروں کا

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک لڑکا
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں‌جا پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شئے پرمگر
جیب خالی تھی کچھ مول نہ لے سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکٹروں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تواک اک دکان مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں‌مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں؟
پر وہ چھوٹا سا، الھڑ سالڑکا کہاں؟

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
بستی میں دیوانے آئے
بستی میں دیوانے آئے
چھب اپنی دکھلانے آئے
دیکھ ترے درشن کے لوبھی
کر کے لاکھ بہانے آئے
پیت کی ریت نبھانی مشکل
پیت کی ریت نبھانے آئے
اٹھ اور کھول جھروکا گوری
سب اپنے بیگانے آئے
طعنے، مہنے، اینٹیں، پتھر
ساتھ لئے نذرانے آئے
سب تجھ کو سمجھانےوالے
آج انہیں سمجھانے آئے
اب لوگوں سے کیسی چوری؟
اٹھ اور کھول جھروکا گوری
درشن کی برکھا برسا دے
ان پیاسوں کی پیاس بجھا دے
اور کسی کے دوار نہ جاویں
یہ جو انشاء جی کہلاویں
تجھ کو کھو کر دنیا کھوئے
ہم سے پوچھ کتنا روئے
جگ کے ہوں دھتکارے ساجن
تیرے تو ہی پیارے ساجن
گوری روکے لاکھ زمانا
ان کو آنکھوں‌میں بٹھلانا
بجھتی جوگ جگانے والے
اینٹیں پاتھر کھانے والے
اپنے نام کو رسوا کرکے
تیرا نام چھپانے والے
سب کچھ بوجھے، سب کچھ جانے
انجانے بن جانے والے
تجھ سے شرمانے والے
کر کے لاکھ بہانے آئے
دیکھ نہ ٹوٹے پیت کی ڈوری
اٹھ اور کھول جھروکا گوری

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھ ہمارے ماتھے پریہ دشت طلب کی دھول میاں
دیکھ ہمارے ماتھے پریہ دشت طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ، دیکھ ہمیں مت بھول میاں

اہل وفا سے بات نہ کرنا، ہوگا تیرا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کا معمول میاں

یونہی تو دشت میں‌نہیں پہنچے، ہونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پھول پھول میاں

یہ تو کہوکبھی عشق کیا ہے؟‌جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں، باقی بات فضول میاں

نصب کریں محراب تمنا، دیدہ دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں

سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں


کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی، کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں

اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی، شہر سے نکلیں، رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا، باتیں ‌کر لیں، محنت ہوئی وصول میاں

انشاء جی کیا عذر ہے تم کو، نقدئ دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے، شام کا چاند پدید ہوا
تو نے انکار کیا تھا، دل کب نا امید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے، تجھ کو بھی توفیق ہوئی؟
لب پر اس کے نام تھا تیرا، جب بھی درد شدید ہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی، ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی، عالم اک شہید ہوا
تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا، عرض وفا کے سنتے ہی
پہلے کون سا قریب تھا ہم سے، اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کارج چھوڑے، نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے؟ تیرا عشق مزید ہوا

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہے
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہے
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو یہ کیونکر ہو

اک بھیک کے دونو کاسے ہیں، ایک پیاس کے دونوں پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں، تم بادل ہو، ہم ندیا ہیں تم ساگر ہو

یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، ایک درد کا پھوڑا، الھڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے، کوئی مرہم کوئی نشتر ہو

ہم سانجھ سمے کی چھایاں ہیں، تم چڑھتی رات کے چندر ماں
ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو

اب حسن کا رتبہ عالی ہے، اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو

جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے، جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہو، وہ ہیرا ہو، وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشاء جی کو بلانا کیا، اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں، جب دن اور رات برابر ہو

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دکھ کا سورج سر پر ہو

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
دوستو فرصت دلدارئ دنیا تھی کہاں
دوستو فرصت دلدارئ دنیا تھی کہاں
اپنے شعروں کےتو ممدوح تھے موزوں بدناں
یوں ملا اس کا صلہ، شان وفا کے شایاں
عشق مہجورو تپاں، وصل نصیب دگراں
ہاں ہمیں دعویٰ زباں‌کا ہے، مگر اس کا عنواں
اپنی دلی یہ جہاں، اپنی محبت ہے زباں
تم سے پہلے ہی میاں، عشق کے قدموں کے نقوش
ماہ و مریخ کے ہاں، زہرہ سے کاہکشاں
تم نے کس مصر کے بازار میں کیا مول لیا؟
یوسف سل ہے یہاں سینئہ انشاء میں‌نہاں
آج ہم منزل مقصود سے مایوس ہوئے
ہر طرف راہبراں، راہبراں، راہبراں
وحشت دل کے خریدار بھی ناپید ہوئے
کون اب عشق کے بازار میں کھولے گا دکاں

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور کے چھوڑا ہاتھ
خوب ہمارا ساتھ نبھایا، بیچ بھنور کے چھوڑا ہاتھ
ہم کو ڈبو کر خود ساحل پر جا نکلے ہو، اچھی بات

شام سے لے کر پو پھٹنے تک کتنی رتیں‌بدلتی ہیں
آس کی کلیاں، یاس کی پت جھڑ،صبح کے اشکوں کی برسات

اپنا کام تو سمجھانا ہے اے دل رشتے جوڑ کہ توڑ
ہجر کی راتیں لاکھوں‌کروڑوں، وصل کے لمحے پانچ کہ سات

ہم سے ہمارا عشق نہ چھینو، حسن کی ہم کو بھیک نہ دو
تم لوگوں کے دور ٹھکانے، ہم لوگوں‌کی کیا اوقات

روگ تمہارا اور ہے انشاء، بیدوں سے کیوں چہل کرو
درد کے سودے کرنے والے، درد سے پا سکتے ہیں نجات؟

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لئے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارہ ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے ک
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں‌یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں‌یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

ہاں بزم شبانہ تیری میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا، جن میں بیان یاد رہے گا

جان بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاں یاد رہے گا

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
فرض کرو
فرض کروہم اہل وفا ہوں،فرض کرودیوانے ہوں
فرض کرویہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرویہ جی کی بپتا، جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کروابھی اور ہو اتنی، آدھی ہم نے چھپائی ہو

فرض کروتمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرویہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں

فرض کرویہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرواس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو

فرض کرویہ جوگ بجوگ ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کروبس یہی حقیقت باقی سب کچھ مایا ہو

دیکھ مری جاں کہ گئے باہو، کون دلوں کی جانے “ہو“
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں‌کریں دیوانے “ہو“

جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بولی بول کے من کو ہرتے ہیں
بنجارے جو اونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں‌کنکر پتھر بھی
ان میں اتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچا، “ہو“
ڈوبنے والی ڈوب گئی، وہ گھڑا تھا جس کا کچا “ہو“

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
گوری اب تو آپ سمجھ لے، ہم ساجن یا دشمن ہیں
گوری اب تو آپ سمجھ لے، ہم ساجن یا دشمن ہیں
گوری تو ہے جسم ہمارا، ہم تیرا پیرہن ہیں

نگری نگری گھوم رہےہیں، سخیو اچھا موقع ہے
روپ سروپ کی بھکشا دے دے، ہم اک پھیلا دامن ہیں

تیرے چاکر ہو کر پایا درد بہت رسوائی بہت
تجھ سے تجھے جو ٹکے کمائے، آج تجھی کو ارپن ہیں

لوگو میلے تن من دھن کی ہم کو سخت مناہی ہے
لوگو ہم اس چھوت سے بھاگیں، ہم تو کھرے برہمن ہیں

پوچھو کھیل بنانے والے، پوچھو کھیلنے والے سے
ہم کیا جانیں کس کی بازی، ہم جو پتے باون

صحرا سے جو پھول چنے تھے، ،ان سے روح‌معطر ہے
اب جو خار سمیٹنا چاہیں، بستی بستی گلشن ہیں

دو دو بوند کو اپنی کھیتی ترسے ہے اور ترسے گی
کہنے کو تو دوست ہمارے بھادوں ہیں اور ساون ہیں

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں، کیا دوش ہمارا ہے
ہم ان سے اگر مل بیٹھے ہیں، کیا دوش ہمارا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ ان کا اشارہ ہوتاہے

کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں، دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر
یا شام غریباں کا جگنو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے

ہم دل کو لئے ہر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک نہ مل سکے
اے بنجارو، ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارہ ہوتا ہے

دفتر سے اٹھے، کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے، کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاء جی یوں اپنا گذارا ہوتا ہے

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں‌اور شام کہاں

ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ، ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پشیمان ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں

سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر ابنر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہ تمام کہاں

دل پہ جو بیتے سہ لیتے ہیں اپنی زباں میں‌کہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم لوگ کہاں اور میر کا رنگ کلام کہاں

اک بات کہیں گے انشاء جی تمھیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے، کوئی میر سا شعر بھی کہا تم نے

قیصرانی
 
Top