نور وجدان
لائبریرین
آدم نے جب سے خاکی زمین پر قدم رکھا ہے تب سے حوا اس کے ساتھ مل کر اس کی زندگی میں رنگ بھر رہی ہے ۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ پھر بھی مرد عورت کو ٹیرھی پسلی کے نام سے منسوب کیئے ہوئے ہے ۔ ۔ اپنی نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوتے عورت کو اپنا کھلونا بنا لیتا ہے ۔ عورت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے اپنی مردانگی کی شان بناتا ہے ۔ یہ مرادانہ معاشرے میں اک روایت چلی آ رہی ہے عورت کو ہر دور میں مرد نے اپنی خواہشات کی صلیب پر چڑھایا ہے ۔
کرچیاں کون سمیٹے گا شکستہ دل کی
اس سے بہتر ہے کہ چپ چاپ بکھر جاؤں میں
تاریخ گواہ ہے کہ اکثر مرد اپنی کجی کو چھپانے کی غرض سے عورت کو استعمال کرتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آدم کی غلطی کا ذمہ دار حوا کو ٹھہراتے اس کا خمیازہ عورت کو بھگتنا ہے ۔اس روایت کو نبھاتے نبھاتے عورت تھک چکی ہے ! کہاں تک اس روایت کی چکی میں پسے ؟ کہاں تک اس کا بوجھ اٹھائے ؟ نا اہل مرد کی کمزوری کو چھپاتے کب تک عورت ڈھال بنی رہے ؟ آخر ایسا کب تک چلے گا ؟ کوئی تو عورت ہو جو اپنی نسوانیت پر آنچ آئے بنا روایت کے جبر سے آزاد ہوجائے اور ایک کھلی سانس لے !یہ الفاظ جو میرا حوالہ ہیں ان میں تجربے کا احساس بھی شامل ہے اور مشاہدے کی رگ میں یہ احساس خون بن کے ڈور بھی رہا ہے ۔یہ بیان اس جرم کو گنوا رہا ہے جس کی وجہ قلم نے زخم کی حدت پائی ہے
گنو نہ زخم یہ دل کے ، اذیتیں پوچھو
جو ہوسکے تو حریفوں کی نیتیں پوچھو
ہوا کی سمت نہ دیکھو اسے تو آنا ہے
چراغِ آخرِ شب سے وصیتیں پوچھو
مرد ایک نفسیاتی درندہ ہے جس کو عورت کی نفسیات سے کھیلنا آتا ہے ۔ ٹی وی پر ایک پروگرام چل رہا تھا ، جو ایک جعلی پیر صاحب کے متعلق تھا جن کا نام ڈکار والے بابا تھے ۔ عورت کی نفسیات سے کھیلتے پیسے کمائے جارہے ہیں اور جب سرعام کی ٹیم نے چھاپہ مارا تو جناب کہ دیا عورت کم عقل ہے ! جنس کی تفریق کا یہی کھیل ہمارے ارد گرد بھی روا رکھا ہے ! عورت کم عقل ہے ! عورت دقیانوس ہے ! عورت کھیلنے کی چیز ہے ! مرد کی نفسیات سمجھ آجائے تو کوئی عورت اس سے ہم کلام ہوتے ڈرے ۔ وہ ہر آدم کو فرشتے کی شکل میں سمجھتے اپنی سادہ لوحی سے اس کا شکار ہوجاتی ہے اور مرد سمجھتا ہے کہ اس نے عورت پر فتح پالی ہے !
سماج کے اداروں میں سب سے اہم ادارہ خاندان کا ہے ! خاندان کا سربراہ مرد کو بنا دیا گیا ہے ! افسوس ! اس نے عورت کو گراتے خود کو بھی گر ا دیا ہے ! سڑک ہو یا فٹ پاتھ یا کوئی گلی محلہ ! عورت کا ریٹ لگاتا ہے ، اس کا حساب گوشت کی مانند ٹٹول کے لگانے والا مرد اپنی آنکھ کی حیا کے بارے میں فخر سے بتا رہا ہوتا ہے تو کہیں عورت کو طوائف بناتے اس سے خاندان یعنی سماج کا سب سے اہم ادارہ چلانے والا بھی مرد ہی ہوتاہے ۔
شیشے کا جسم اوڑھ کے چلے ہم
اب گلہ ہے کہ پاش پاش ہم
اس مرد سے سوال کیا کیا جائے جب اس نے اپنی حیا بیچ دی ہے ، اپنی آبرو پر پتھر پھینکنے والا مرد خود بھی ایک کھوکھلی مشین ہوکے رہ گیا ہے ! مرد اور جنس بازاری ! یہ کھیل مرد ایسا چلاتا ہے کہ جب میں اس کے منہ سے ماں ، بہن ، بیٹی کا نام سنتی ہوں تو میری آنکھ شرم سے جھک جاتی ہے اور دل کانپ اٹھتا ہے ۔ میں سوچتی ہوں مرد کیوں نہ کانپا ؟ اس کو خوف آیا ؟ اگر اس کو خوف نہیں ہے تو کیا میں چور ہوں ؟ جی میں روایت کی امین ہوں ! میں حوا ہوں ! میں چور ہوں !
کہاں کہاں لٹے ہو یہ شمار مت کرنا
مگر کسی پہ تم اب اعتبار مت کرنا
میں لٹنے کے ہی ارادے سے جارہا ہوں مگر
سفر سفر مرا بھی انتظار مت کرنا
کہنے والے کہتے ہیں کہ حیا تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے اور حجاب بھی پہلا آنکھ میں ہوتا ہے دوسرا لباس پر جاتا ہے ! اگر عورت با حجاب بھی ہو تو محفوظ نہیں ہے کیونکہ سامنے دو آنکھیں ایکسرے کی مانند موازنہ کرنے سے باز نہیں آتی ہیں ! کتنے پردوں میں چھپے عورت یا اپنے دفاع کے لیے آزاد ہوجائے ؟ میرا خیال ہے عورت کو پردے میں چھپنے کے بجائے اپنے دفاع کے لیے نکلنا ہوگا کیونکہ مرد اس کا اب محافظ نہیں رہا ! اب اس کی روایت بھی من پسند ہے اور جدت بھی ! وہ اپنی طرز کا شہنشاہ ہے !
اس سب کو لکھنے کی وجہ مشاہدہ تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ بھی ہے ! چند سال قبل کسی شاعر کی شاعری سے متاثر ہوتے میں نے اسے پیغام بھیجا ! میں شاعری سیکھنا چاہتی ہوں ! میں نے اس ہستی کو استاد جانا اور یہ نہیں سوچا کہ میں ایک عورت ہوں ! اس نے کہا کہ میں شاعری سیکھاؤں گا مگر ایک شرط ہے ! میں نے پوچھا کیا ؟ اس نے کہا کہ پہلے اپنے پاؤں کی تصویر بھیجو میں تم پر غزل لکھوں گا ! میں نے اس کو بتلادیا کہ حوا کی تکریم کیا ہے اور حوا کی بیٹی کیا ہے !
کیا میں نے صحیح کیا ؟ میرا پیغام حوا کی آنے والے نسلیں پڑھیں گی کہ عورت مجبور نہیں ہے کیونکہ وہ عورت ہے ! عورت حیا کا پیکر ہے ! وفا کا مظہر ہے ! تکریم کے لائق ہے مگر اس سے جب بھی اپنی خون آلود نگاہوں سے دیکھو گے تو وہ تمھیں پھاڑ کھائے گی کیونکہ آج کی عورت کمزور نہیں ہے ! آج کی عورت آدم سے طاقت میں بڑھ گئی ہے ! آج کی عورت نے خاندان کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے ! آج کی عورت کھلاڑی بھی ہے ڈاکٹر بھی مگر مرد کی طرح ناکام جعلی ڈکار والے بابے کی طرح دھوکے باز فراڈی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ آج کی عورت ہے اور اس نے مردانگی کی چادر کو اوڑھ کے اپنی حفاظت شروع کردی ہے جبکہ مرد نسوانیت کی جیل میں قیدی ہوگیا ہے !
میں بنت حوّا ہوں
ایک عورت جو ٹھہری ہوں
خواب کی پلکوں سے جس کو
ابنِ آدم نے بہلایا ہے
خواہشوں کے جال میں پھنسایا ہے
جانے کیسے کیسے ستائی جاتی ہوں !
اوڑھ کر انا کی بے حس کھال
میرے شیشہِ جسم کو روندا گیا ہے
جبر کی بھٹی میں دہکایا گیاہے
آزمائیش کی چکی میں پسوایاگیا ہے
تار تار وجود کا لہو لہوہوا ہے
کانچ کی مانند بکھری ہیں روح کی کرچیاں
کیونکہ میں بنت حوّا ہوں
ایک عورت !
میں وفا کی علامت ہوں
میں مامتا کا قالب ہوں
میں نسوانیت کا پیکر ہوں
میرے دم سے جہاں میں اجیارا ہے
میرا وجود نے روایتوں کو سہارا ہے
آخری تدوین: