منیرالدین احمد
شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی
ابن عربی کا پورا نام ، جن کو محی الدین (دین کا زندہ کرنے والا)کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، محمد بن علی بن محمدالطائی الحاتمی تھا۔ مشرق میں آپ کو ابن عربی کہتے ھیں۔ (قاضی ابو بکر بن ابن العربی سے تمیز کرنے کی خاطر آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا) جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں ۲۷ رمضان المبارک ۵۶۰ھ مطابق ۱۱۶۵کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے ، جو مشہور زمانہ سخی حاتم الطائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سےموحدون کے ہاتھ میں تھا ، اس لئے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گذارا۔ ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرتا تھا۔ تصوف کا سلسلہ آپ کے خاندان میں قائم تھا ۔ چنانچہ آپ کے چچا محمد عبد اللہ بن محمد بن العربی کو اپنی وفات سے تین برس قبل طریقہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق ملی، جس کا سبب ایک نوجوان بنا تھا ، جسے خود تصوف کا کوئی علم نہ تھا ۔ آپ اپنے گھر کے قریب واقع ایک پنساری کی دوکان پر جا کر بیٹھا کرتے تھے ، جو جڑی بوٹیاں بیچتا تھا ۔ ایک روز دوکاندار کی غیر حاضری میں آپ وہاں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبرو لڑکا آیا اور آپ کو دوکان کا مالک سمجھتے ہوئے آپ سے ایک خاص پودے کے سفید بیج مانگے۔ آپ ہنس دیئے اور پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ لڑکے نے کہا کہ اسے ایک تکلیف ہے ، جس کا علاج ایک عورت نے اس پودے کے سفید بیج بتایا تھا ۔ آپ کے چچا نے کہا کہ میں تمہاری لاعلمی کے سبب ہنسا تھا ، کیونکہ اس پودے کا بیج سفید نہیں سیاہ ہوتا ہے ۔ اس پر لڑکے نے کہا: چچا میری اس بارے میں لاعلمی کا مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، مگر آپ کی اس سے غفلت آپ کے لئے بہت نقصان کا موجب بنے گی،بالخصوص جب کہ آپ عمر رسیدگی کے باوجود اس کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں ۔ یہ بات ابن عربی کے چچا کے دل کو لگی اور ان کے اندر ایک انقلاب برپا کرنے اور ان کے طریقہ کی طرف رجوع کا باعث بنی ۔
اسی طرح آپ کے ماموں ابو مسلم الخولانی ،جو ساری ساری رات عبادت میں گذارتے تھے اور جب ان کی ٹانگیں تھک جاتی تھیں، تو انہیں جھڑیوں سے مارتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں مارنا بہتر ہے اپنی سواری کے جانور کو مارنے سے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا رسول اللہ صلعم کے صحابہ سمجھتے ہیں کہ حضور صرف ان کے لئے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم ان پر اس طرح ہجوم کر کے آپ کی طرف بڑھیں گے کہ انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑا ہے ، جو آپ کے مستحق ہیں (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۸)
دوسرے ماموں یحییٰ بن یغمان تھے ، جو ایک زمانے میں تلمسان کے بادشاہ تھے ۔ ان کے زمانے میں ایک عابد زاہد شخص ابو عبد اللہ التونسی تھے ، جو لوگوں سے کنارہ کش تھے اور تلمسان سے باہر ایک جگہ پر رہتے تھے ۔ ایک روز وہ شہر میں جا رہے تھے ، جب ابن عربی کے ماموں کا اپنے جاہ وحشم کے ساتھ وہاں سے گذر ہوا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ شخص عابد وقت ہیں ۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کی لگام کو کھینچا اور شیخ کو سلام کیا ۔ جواب میں انہوں نے بھی سلام کیا۔ بادشاہ لباس فاخرہ میں ملبوس تھا ۔ اس نے پوچھا : اے شیخ کیا میرے لئے ان کپڑوں میں ، جو میں نے پہن رکھے ہیں ، نماز ادا کرنا جائز ہے؟ شیخ اس پر ہنس دیئے ۔ بادشاہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی، تو کہا تمہاری بے سمجھی پر اور اپنے نفس کو نہ جانے پر اور تمہارے حال پر ۔ میرے نزدیک تم اس کتے کی طرح ہو ، جو ایک مردار کے خون میں سونگھتا پھرتا ہے اور اس کی غلاطت کے باوجود اسے کھاتا ہے ۔ مگر جب پیشاب کرتا ہے ، تو ٹانگ اٹھاتا ہے تاکہ پیشاب اسے گیلا نہ کر دے۔ تم حرام سے بھرے ہوئے برتن کی طرح ہو اور اپنے کپڑوں کے بارے میں پوچھتے ہو ، جب کہ لوگوں کے مظالم تمہاری گردن پر ہیں ۔ بادشاہ رو دیا۔ گھوڑے سے اترا اور اسی وقت اپنی بادشاہت سے دستبردار ہو گیا اور شیخ کے ساتھ ہو لیا ۔ شیخ نے تین روز تک اسے اپنے پاس رکھا ۔ پھر رسی لے کر اس کے پاس آیا اور کہا: اسے بادشاہ ضیافت کے دن گذر گئے ۔ اب اٹھ ، جا اور لکڑیاں ڈھو۔ اس کے بعد وہ لکڑیاں اپنے سر پر اٹھا کر لاتا اور انہیں بازار میں لے جایا کرتا تھا ۔ لوگ اس کی طرف تکتے تھے اور روتے تھے ۔ وہ لکڑیاں بیچتا تھا اور اپنے لئے صرف گذارہ کی رقم رکھتا تھا ۔ باقی کے پیسے صدقہ کر دیتا تھا ۔ وہ اس شہر میں اپنی موت تک رہا ۔ا س کو شیخ کے مقبرے کے باہر دفن کیا گیا ۔ لوگ ابن عربی کے زمانے میں اس کی زیارت کے لئے آتے تھے ۔ جب شیخ حیات تھے اور لوگ ان سے دعا کرنے کے لئے کہتے تھے ، تو وہ کہا کرتے تھے کہ یحییٰ بن یغمان سے دعا کے لئے کہو ، کیونکہ وہ بادشاہ تھے ، پھر زھد اختیار کیا ۔ اگر میں اس ابتلاءمیں ڈالا گیا ہوتا ، جس میں وہ ڈالا گیا ہے ، تو میں شاید زہد اختیار کرنے میں کامیاب نہ ہوتا (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۸)
ابن عربی لکھتے ہیں کہ میں نے اس چیز کا مشاہدہ اپنے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۵)۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرا دخول اس طریقہ میں ۵۸۰ھ میں ہوا ، جبکہ آپ کی عمر بیس برس کی تھی۔(فتوحات مکیہ۔ جلد دوپ۔ ص ۴۲۵)۔ اس بارہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کبیر کی دعوت میں مدعو تھے ، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا ۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں پکڑا ، تو غیب سے آواز آئی: " اے محمد کیا تم کو اسی لئے پیدا کیا گیا تھا؟" آپ نے جام کو ہاتھ سے رکھ دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل گئے۔ گیٹ پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا ۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر اپنے کپڑوں کا اس کے کپڑوں سے تبادلہ کیا ۔ کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومنے کے بعد آپ ایک قبرستان پر پہنچے، جو نہر کے کنارے واقع تھا۔ آپ نے وہاں پر ڈیرا لگانے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں جا اترے۔ دن اور رات ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے اور سوائے نماز کی ادائیگی کے وقت کے اس میں سے نہ نکلتے تھے ۔ چار روز کے بعد آپ باہر نکلے ، تو علوم کا ایک دریا لے کو لوٹے۔ (الدر الثمین فی مناقب الشیخ محی الدین۔ مصنفہ الشیخ ابراہیم بن عبداᅨ القاری البغدادی۔ بیروت ء۱۹۵۹ص ۲۲۔۲۳) ۔ آپ نے اس کے بعد اپنے شیخ کی زیر نگرانی ایک نو ماہ کا چلہ کاٹا۔ ابن سودکین نے ا سے روایت کیا : " میری خلوت فجر کے وقت شروع ہوئی اور فتح (اسرار کا کھلنا ) طلوع الشمس سے قبل وقوع میں آئی۔ فتح کے بعد مجھ پر " ابدار" کی حالت وارد ہوئی اور اس کے علاوہ دوسرے مقامات ترتیب وار آئے۔ میں اپنی جگہ پر قائم رہا چودہ مہینوں تک اور ان سارے اسرار تک رسائی حاصل کی ، جنہیں میں نے فتح کے بعد تالیف کیا ہے ۔ اور میری فتح اس لحظہ میں ایک جذب (کی طرح ) تھی" ۔ (کتاب وسائل السائل۔ مصنفہ شمس الدین اسماعیل بن سودکین۔ ص ۲۱)۔یہاں پر ابن عربی نے جس مقام " ابدار" کا ذکر کیا ہے ، اس کی تشریح آپ نے دوسری جگہ پر ان الفاظ میں فرمائی ہے : " ابدار کو اᅨ نے عالم میں اپنی تجلی کی مثال کے لئے اپنے حکم سے نصب کیا ہے ۔ پس وہ خلیفہ الٰہی ہے ، جو عالم میں اللہ کے اسماءاور احکام اور رحمت اور قہر اور انتقام اور عفو کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے ، جیسے سورج ظاہر ہوتا ہے چاند میں اور جب وہ پورے کو روشن کر دیتا ہے ، تو اس کو بدر (پورا چاند) کہتے ہیں ۔ گویا سورج اپنے آپ کو بدر کے آئینے میں دیکھتا ہی"۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوپ۔ ص ۵۵۶)۔
آپ پہلے پہل سرکاری ملازمت میں کاتب (سیکرٹری) کے عہدے پر فائز تھے، جو دیوان سلطنت کا اہم عہدہ تھا ۔ آپ کے والد وزیر ریاست تھے اور آپ کے خاندان کا شمار ملک کے باوقار لوگوں میں ہوتا تھا ۔ اپنے روحانی تجربہ کے بعد آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طریقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح فقر کو اپنا شعار بنایا۔ آپ کے مرشد شیخ یوسف بن یخلف الکومی کو خبر پہنچی کہ ابن عربی اپنا وقت قبرستان میں گذارتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے کسی موقعہ پر کہا کہ سنا ہے کہ ابن عربی نے زندوں کی مجلس کو چھوڑ کر مردوں کی مجلس اختیار کر لیا ہے ۔ا بن عربی نے انہیں پیغام بھیجا کہ آپ خود آکر دیکھیں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہوں۔ چنانچہ ایک روز وہ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد قبرستان میں گئے ، جہاں پر ابن عربی حاضر ہونے والی ارواح کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے ۔ شیخ یوسف دھیرے سے آپ کے پہلو میں جا کر بیٹھے اور ابن عربی نے دیکھا کہ ان کا رنگ فق پڑ گیا تھا ۔ ابن عربی نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا ، مگر شیخ یوسف اپنے اندرونی کرب کے سبب مسکرا نہ سکے۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تو استاد کے چہرے پر رونق لوٹ آئی اور انہوں نے شاگرد کی پیشانی کو چوما ۔ ابن عربی نے پوچھا: " استاد کون مردوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہے ، میں یا آپ؟" شیخ یوسف نے کہا: " خدا کی قسم میں مردوں کے ساتھ مجلس کرتا ہوں ۔ اگر مجھ پر حال وارد ہو جائے تو میں سب کچھ چھوڑ دوں" ۔ اس کے بعد وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ جو کوئی لوگوں سے منہ موڑنا چاہتا ہے ، اسے فلاں (مراد ابن عربی) کی طرح ہونا چاہیئے، کیونکہ اس میں عالم الغیب کی استقامت کا علم ہے اور وہ مخالفت سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ عالم الوفاق ہے اور اس میں ایسا علم پایا جاتا ہے ، جس پر انسانی قویٰ قدرت نہیں رکھتے " ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم۔ ص ۴۵)۔
ابن عربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابو الولید ابن رشد نے آپ کے والد سے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ اس ملاقات کا حال ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں خود ان الفاظ میں بیان کیا ہے : " میں ایک روز قرطبہ میں وہاں کے قاضی ابو ولید بن رشد کے پاس گیا ۔ انہیں میری ملاقات کا شوق تھا ، اس سبب سے، جو انہوں نے میرے بارے میں سن رکھا تھا اور مجھ پر اللہ نے میری خلوت میں جو اسرار کھولے تھے ، جن کے بارے میں ان کو پتا چلا تھا ۔ وہ ان سنی ہوئی باتوں پر تعجب کا اظہار کرتے تھے ۔ میرے والدنے مجھے کسی حاجت کے سلسلے میں ان کے پاس بھیجا، اس قصد کے ساتھ کہ وہ مجھ سے ملیں ، کیونکہ وہ آپ کے دوستوں میں سے تھے۔ اور میں ابھی بچہ تھا ۔ میری مسیں ابھی نہ بھیگی تھیں۔ جب میں داخل ہوا، تو وہ محبت اور تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے معانقہ کیا۔ پھر مجھ سے کہا: ہاں۔ میں نے ان سے کہا: ہاں۔ اس پر ان کو بہت خوشی ہوئی کہ میں نے ان کی بات کو سمجھ لیا تھا ۔ پھر میں جان گیا کہ وہ کیوں اس بات پر خوش ہوئے تھے ، تو میں نے ان سے کہا: نہیں۔ اس پر ان کو انقباض ہوا اور ان کا رنگ بدل گیا ۔ اور انہیں اپنے علم کے بارے میں شک پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا: تم نے کشف اور فیض الٰہی میں اس امر کو کیسا پایا۔ کیا وہ وہی کچھ ہے ، جو ہمیں سوچ و بچار سے ملتا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں اور نہ اور ہاں اور نہ کے مابین روحیں اپنے مواد سے اور گردنیں اپنے اجسام سے اڑتی ہیں۔ ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کانپنے لگے اور بیٹھ کر لاحول پڑھنے لگے اور وہ اس چیز کو جان گئے ، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا ۔ اور یہ عین وہی مسئلہ ہے ، جس کا ذکر اس قطب امام یعنی مداوی الکلوم نے کیا تھا ۔ اور اس کے بعد انہوں نے میرے والد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تا کہ وہ میرے سامنے اس چیز (علوم) کو پیش کر سکیں ، جو ان کے پاس تھی یہ جاننے کے لئے کہ کیا وہ موافق ہے یا مخالف۔ کیونکہ وہ ارباب فکر اور (اصحاب )نظر و عقل میں سے تھے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس بات پر کہ وہ ایسے زمانے میں تھے ، جس میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا ، جو اپنی خلوت (چلہ) میں جاہل ہوتے ہوئے داخل ہوا اور اس طرح (علم سے مالا مال) خارج ہوا بغیر لیکچروں کے اور بحث (مباحثہ) کے اور بغیر (تحقیقی) مطالعہ کے اور بغیر (استاد کے سامنے ) پڑھنے کے ۔ا نہوں نے کہا کہ اس بات کو ہم نے (دلائل)سے جانا ہے۔ مگر ایسے (استعداد رکھنے والے)ارباب کو ہم نے نہیں دیکھا تھا ۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ میں ایسے زمانے میں ہوں ، جس میں ان ارباب میں سے ایک پایا جاتا ہے ، جو بند دروازوں کو کھولنے والے ہیں ۔ اللہ کا شکر اس بات پر کہ اس نے مجھے اس کو دیکھنے کی خصوصیت سے نوازا" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۵۳۔۱۵۴)۔
قطب مداوی الکلوم نے اپنے اصحاب کو ایک جگہ پر جمع کر کے جو باتیں کیں تھیں ، ان میں سے یہ فقرے قابل غور ہیں اور غالباً ابن عربی انہیں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ آپ نے کہا تھا: "ہر علم کے لئے انسان مخصوص ہوتے ہیں ، جس کو نہ تو سب لوگ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے لئے وقت میسر ہوتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر گروہ میں مختلف فطرتوں کے لوگ پائے جاتے ہوں اور آپس میں موافقت نہ رکھنے والے اذہان موجود ہوں ، اگرچہ اس جماعت کا مقصود ایک ہی ہو۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کے ہاتھ میں میرے رمز کی مفتاح ہے اور ہر مقام کے لئے مقال اور ہر علم کے لئے رجال اور ہر وارد کے لئے حال پائے جاتے ہیں" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۵۳)۔
ایک اور ہستی کے ساتھ آپ کا ملنا تصوف کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ آپ کو طریقہ سے وابستہ ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا ۔ یہ تھے خضر علیہ السلام ، جن کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر ابن عربی نیفتوحات مکیہ میں ان الفاظ میں کیا ہے : "¢اور ہم کو خضر علیہ السلام کے بارہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ یوں ہے کہ ہمارے شیخ ابا لعباس رحمۃ اᅨ علیہ کے اور میرے درمیان ایک شخص کے بارہ میں ایک مسئلہ جاری ہوا، جس کے ظاہر ہونے کے لئے رسول کریم صلی اᅨ علیہ وسلم نے خوش خبری فرمائی تھی۔ اور اس نے مجھے فرمایا کہ وہ فلاں بن فلاں شخص ہے اور میرے آگے ایک شخص کا نام بیان کیا ، جس کو میں نام سے جانتا تھا اور دیکھا نہیں تھا ۔ لیکن اس کی پھوپھی کے بیٹے کو میں نے دیکھا تھا ۔ اور میں اس کے بیان میں متوقف تھا اور اس کو قبول نہ کیا تھا ۔ یعنی اس کے بارہ میں اس کی بات کو میں نہیں مانتا تھا۔ کیونکہ میں اس کے بارہ میں علی وجہ البصیرت تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ شیخ عریبی کا تیر اس پر پھر آیا اور شیخ کو دل میں میری اس بات سے رنج ہوا۔ اور مجھے اس سے کچھ آگاہی نہ ہوئی۔ کیونکہ میں اس وقت ابتدائی حال میں تھا ۔ اور میں اس سے اپنے گھر لوٹ آیا۔ ابھی میں راستہ میں ہی گھر کی طرف آ رہا تھا ۔ اور ایک شخص مجھے ملا جسے میں نہیں جانتا تھا ۔ اور اس نے مجھے ایک بڑے محب مہربان کی طرح پہلے السلام علیکم کہہ کر فرمایا۔ اسے محمد تم کو شیخ ابا العباس عریبی نے فلاں شخص کے بارہ میں جو کچھ ذکر کیا ، وہ سچ ہے ۔ اس کی تصدیق کرو اور اس شخص کا نام لیا ، جس کا ذکر ابوالعباس نے کیا تھا ۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ میں نے ان کے ارادہ کو جان لیا اور اسی وقت میںشیخ صاحب مذکور کی طرف لوٹ آیا کہ اس کو اس واقعہ کی اطلاع دوں۔ جب میں شیخ صاحب کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے فرمایا ۔ اسے ابا عبد اᅨ جب میں تیرے پاس کوئی مسئلہ بیان کرتا ہوں ، تو تیرا دل اس کے قبول کرنے سے متوقف ہو جاتا ہے ، تومجھے تیرے لئے خضر علیہ السلام تک (کی) ضرورت پڑتی ہے کہ وہ تیرے آگے اس بات کو پیش کریں کہ فلاں شخص کی تصدیق کر لو، جو تیرے آگے بیان کیا گیا ۔ یہ واقعہ تمہارے لئے ہر ایک واقعہ کے بارہ میں، جو تم مجھ سے سن کر متوقف ہو جاتے ہو، کہاں تک ہوتا رہے گا ۔ میں نے کہا: توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ فرمایا : قبولیت توبہ واقع ہو چکی۔ میں نے جان لیا کہ وہ شخص خضر علیہ السلام تھے ۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ میں نے شیخ صاحب مذکور سے اس بارہ میں پوچھا کہ آیا راستہ میں مجھے سے ملنے والے خضر علیہ السلام تھے؟ فرمایا : ہاں وہ خضر علیہ السلام تھے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان ۔ ص ۵۳۵۔۵۳۶)۔
ابن عربی نے پہلی بار ۵۹۰ھ میں اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی ، جو الغرب میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں ، کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا ، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے دوران آپ کو ابو محمد عبد اᅨ بن خمیس الکنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو پیشہ کے اعتبار سے جراح (سرجن) تھے اور جن کا تذکرہ آپ نے اپنی کتابوں روح القدس اور درہ الفاخرہ میں کیا ہے ۔ ان کی صحبت میں آپ ایک سال سے کچھ کم عرصہ رہے تھے۔ ان سے ملنے کے لئے جاتے ہوئے آپ نے اپنے استادوں ابو یعقوب اور ابو محمد الموروری کی سنت کی پیروی کی اور ان کی طرح ننگے پاᄊں چل کر گئے۔ جب آپ نصف فاصلہ طے کر چکے تھے ، تو آپ کو ایک شخص مخالف سمت سے آتا ہوا ملا ، جس نے بتایا کہ شیخ نے مجھے تم سے ملنے اور یہ پیغام دینے کو کہا ہے کہ اپنی جوتیاں پہن لو۔ انہیں تمہاری آمد کا علم ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہارے لئے کھانا بھی تیار کر رکھا ہے ۔ اس شیخ کے پاس سے واپسی والے روز آپ کی ملاقات دوسری بار خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ جس کے بارے میں آپ لکھتے ہیں:
" پھر دوسری بار میرے لئے ایساواقعہ پیش آیاکہ میں تونس کی بندرگاہ میں کشتی کے اندر تھا، تو مجھے شکم میں درد پیدا ہوا اور کشتی والے سو گئے تھے ۔ اور میں کشتی کے ایک طرف کھڑا ہو گیا اور سمندر کی طرف نظر کی، تو چاند کی روشنی میں دور ایک شخص مجھے نظر آیا۔ یہ رات چودھویں تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ شخص پانی پر چلا آتا ہے اور میرے پاس پہنچ کر میرے ساتھ کھڑا ہو گیا اور ایک قدم اٹھایااور دوسرے قدم پر تکیہ کیا۔ میں نے اس کے قدم کے نیچے دیکھا کہ اس کو تری پانی کی نہ لگی تھی۔پھر ایک قدم رکھا اور دوسرا اٹھایا ۔ تو دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح خشک تھا۔ پھر ان کے ساتھ جو کلام کرنی تھی ، وہ انہوں نے فرمائی اور مجھے السلام علیکم فرما کر لوٹ گئے ۔ اور بلب دریا ایک بلند ٹیلہ پر جو منارہ واقع ہے ، اس کی طرف تشریف لے گئے، جس کی مسافت ہم سے دو میل سے زیادہ تھی ۔ انہوں نے اس مسافت کو دو یا تین قدموں میں طے کیا ۔ اور میں نے ان کا آواز سنا کہ وہ منارہ کے اوپر اᅨ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اور ہمارے شیخ جراح بن خمیس کنانی کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ عالی خاندان سے تھے ۔اور بندر گاہ عیدون میں رہتے تھے ۔ میں ان کے پاس سے اسی رات کو آیا تھا ۔ جب میں شہر میں داخل ہوا ،تو ایک صالح مرد سے میری ملاقات ہوئی ۔ اس نے مجھے کہا کہ کل رات کو کشتی میں خضر علیہ السلام کے ساتھ آپ کی کیسی گذری۔ انہوں نے آپ کو کیا فرمایا تھا (اور آپ نے انہیں کیا کہا تھا)" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان۔ ص ۶۳۶)۔
عین ممکن ہے کہ اس سفر کے دوران آپ کی ملاقات قطب زمان ابو النجاءالمعروف بہ ابو مدین کے ساتھ بھی ہوئی ہو، جو شیخ ابن خمیس الکنانی کے استاد تھے۔ اور جن کے مناقب کا ذکر ابن عربی اپنی کتابوں میں بار بار کرتے ہیں اور ان کا شمار اپنے شیوخ میں کرتے ہیں ۔ واپسی کے رستے میں آپ تلمسان میںابو عبد اᅨ الطرطوسی سے ملے ، جن کے بارے میں آپ کے دل میں گرہ تھی، کیونکہ یہ بات آپ تک پہنچی تھی کہ وہ شیخ ابو مدینکے خلاف تھے ۔ ایک رات خواب میں آپ کو رسول اᅨ صلعم کا دیدار ہوا ۔ حضور نے پوچھا کہ تم اس شخص سے کیوں کراہت کرتے ہو۔ عرض کیا اس کے ابو مدین سے بغض کرنے کی وجہ سے۔ حضور نے فرمایا: کیا وہ اᅨ سے اور مجھ سے محبت کرتا ہے؟ عرض کیا: یا رسول اᅨ وہ اᅨ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ فرمایا کہ تم کیوں اس کے ابو مدین سے بغض کرنے کے سبب اس سے بغض کرتے ہو اور کیوں اᅨ اور اس کے رسول سے محبت کرنے کے سبب اس سے محبت نہیں کرتے؟ عرض کیا: یا رسول اᅨ میں نے اᅨ کی قسم خطا کھائی اور غفلت کا مرتکب ہوا، مگر اب تائب ہوتا ہوں اور اس شخص سے تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہوں۔ جب بیدار ہوئے ، تو قیمتی پارچات اور بہت سی نقدی لے کر ان کے دروازے پر پہنچے اور ساری واردات سنائی، جس پر وہ رو دیئے۔ انہوں نے تحفے کو قبول کیا اور اس رویا کو اᅨ کی طرف سے ایک تنبیہ کے طور پر جانا اور ان کے دل سے ابو مدین کے بارے میں ساری کراہت جاتی رہی اور محبت نے اس کی جگہ لے لی۔ ابن عربی نے اس کراہت کا سبب جاننا چاہا اور کہا کہ ابو مدین ایک صالح شخص ہیں ۔ اس نے کہا کہ میں بجایہ میں ان کے پاس تھا ، جب عید الاضحی کی قربانی کا گوشت آیا اور انہوں نے سارا اپنے اصحاب میں تقسیم کر دیا اور مجھے اس میں سے کچھ نہ دیا۔ اس سبب سے میں ان سے کراہت کرنے لگا ۔ مگر اب میں نے اس سے توبہ کر لی ہے۔ (فتوحات مکیہ۔جلد چہارم۔ ص ۴۹۸۔۴۹۹)۔
خضر علیہ السلام کے ساتھ آپ کی تیسری ملاقات بھی غالباً اسی سفر کے دوران ہوئی، جس کا حال آپ نے اس طرح بیان کیا ہے : " اس تاریخ کے بعد میں بطور سیر نکلا اور بحر محیط کے کنارہ کنارہ چلا جاتا تھا اور میرے ساتھ ایک دوسرا شخص تھا ، جو صالحین کے خرق عادات اور کرامات کا منکر تھا۔ میں ایک ویران اور ٹوٹی پھوٹی مسجد میں داخل ہوا تا کہ میں اور میرا ساتھی اس میں نماز ظہر پڑھیں۔ دیکھا کہ منقطع الی اᅨ مردان خدا کی ایک جماعت ہمارے پاس مسجد میں آ داخل ہوئی اور نماز پڑھنے کا ارادہ فرما رہے تھے اور ان میں وہ مرد بھی تھا، جس نے میرے ساتھ دریا پر گفتگو کی تھی اور جس کے بارہ میں مجھے کہا گیا تھا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں ۔ اور ان میں ایک مرد عظیم الشان بڑے قد والا تھا ۔ اور میرے اور اس کے درمیان قبل ازیں دوستانہ محبت کی ملاقات ہو چکی تھی ۔ پس میں کھڑا ہوا اور ان کو سلام کہا۔ اور انہوں نے مجھے سلام فرمایا اور میرے ساتھ بہت خوش ہوئے اور ہم کو نماز پڑہانے کے لئے امام بنے ۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے، تو امام صاحب نکلے اور میں ان کے پیچھے نکلا اور مسجد کے دروازہ کو آئے ۔ مسجد کا دروازہ مغربی جانب بحر محیط کے سامنے اس مقام پر واقع تھا ، جس کو بکہ کہتے ہیں ۔ میں ان کے ساتھ مسجد کے دروازہ پر بات کر رہا تھا ۔ اتنے میں وہ شخص ، جس کے بارہ میں میں نے کہا تھا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں ، آئے اور مسجد کے محراب میں سے ایک چھوٹی سی چٹائی اٹھا کر زمین سے قریباً سات گز کی بلندی پر ہوا میں بچھا دی اور ہوا میں چٹائی پر کھڑے ہو کر نفل پڑھنے لگے۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا تم اس مرد خدا کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ چلیں اور ان سے پوچھیں۔ میں اپنے ساتھی کو کھڑا ہوا چھوڑ کر اس طرف آیا ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے ، تو ان کو السلام علیکم کہا اور اپنے لئے نظم (کی ہوئی) ان کو پڑھ کر سنائی:
شغل المحب عن الھواءبسرہ فی حب من خلق الھواءو سخرہ
(دوست نے محبت کو روک رکھا ہے اور خوش کرتا ہے اس کی محبت میں جس نے ہوا کو پیدا کیا اور اس کو مسخر کیا)
العارفون عقولھم معقولۃ عن کل کون ترتضیہ مطہرہ
(عارفوں کے عقول معقول ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کون سے وہ عقل خدا کو پسند آتے ہیںکہ وہ پاک ہوتے ہیں)
فھمو لدیہ مکرمون و فی الوریٰ احوالھم مجہولہ و مسترہ
(پس وہی اس کے نزدیک باعزت ہیں اور لوگوں میں ان کے احوال مجہول اور چھپے ہوئے ہیں)
پس مجھے فرمایا اے فلانے تم نے کیا کیا۔ تم نے جو کچھ دیکھا وہ اسی منکر کے حق میں تھا اور میرے ساتھی کی طرف اشارہ فرمایا، جو صالحین کی خرق عادات کا منکر تھا ۔ اور مسجد کے صحن میں بیٹھا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا تا کہ جان لے کہ اᅨ تعالیٰ جو کچھ چاہے اور جس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے ۔ پھر میں نے اپنا رخ اس منکر کی طرف کیا اور اس کو کہا کہ تم اب کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اب دیکھنے کے بعد کیا کہا جا سکتا ہے ۔ پھر میں اپنے ساتھی کی طرف لوٹ آیا اور وہ دروازہ مسجد پر میرے انتظار میں تھے ۔ ایک گھڑی میں نے اس کے ساتھ بات چیت کی اور اس کو کہا کہ یہ کون صاحب ہیں، جو ہوا میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ اور میں نے اس سے جو واقعہ قبل ازیں اس کے ساتھ پیش آیا ذکرنہیں کیا تھا۔ تو مجھے فرمایا کہ یہ خضر علیہ السلام ہیں اور پھر چپ رہی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول ۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان ۔ ص ۶۳۶۔۶۳۷)۔
واپسی کے راستے میں آپ عبد اᅨ القلفاظ سے ملاقات کے لئے جزیرہ طریف میں رکے۔ وہاں پر ان کے درمیان ایک دلچسپ بحث چل نکلی۔ سوال یہ تھا کہ شاکر غنی اور صابر فقیر میں سے کون افضل ہے ۔ ابن عربی نے اپنے لئے فقر کا ہی راستہ اختیار کیا تھا ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: " میں کسی حیوان کا ہرگز مالک نہیں ہوں اور نہ ہی اس کپڑا کا، جس کو میں پہنتا ہوں۔ کیونکہ وہ بھی میں معین شخص سے ، جو مجھے اس میں تصرف کا اذن دے، بطور عاریت لے کر پہنتا ہوں ۔ اور اس زمانہ میں کہ جس میں کسی چیز کا مالک ہوتا ہوں ، اسی وقت یا بذریعہ ہبہ کے یا بذریعہ آزاد کرنے کے ، اگر وہ چیز قابل آزاد کرنے کے ہو، خارج ہو جاتا ہوں۔ یہ حال مجھے اس وقت حاصل ہوا ، جبکہ میں نے خدا تعالیٰ کے لئے عبودیت اختصاص کے تحقق کا ارادہ کیا تھا ۔ تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ تیرے لئے یہ بات درست نہیں ہو سکتی ، حتیٰ کہ تجھ پر کسی کی حجت قائم نہ ہو ۔ میں نے کہا کہ اگر اᅨ تعالیٰ چاہے ، تو اس کی بھی حجت مجھ پر نہ ہو ۔ تو مجھے کہا گیا کہ یہ بات تمہارے لئے کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حجت تم پر قائم نہ ہو۔ میں نے کہا کہ دلائل اور حجج منکروں پر قائم کئے جاتے ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والوں پر ۔دلائل اور براہین دعاوی اصحاب حظوظ نفس و مال و متاع والوں پر قائم کئے جاتے ہیں ۔ اور جو کہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور نہ اموال و متاع دنیا میں کوئی حظ و حصہ ہے ، اس پر حجج و دلائل قائم نہیں کئے جاتی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۹۶)۔ ابن عربی ساری عمر فقر کے اصول پر قائم رہے ، جس کا ثبوت وہ واقعہ ہے کہ جب آپ کو قونیہ کے بادشاہ کیکاᄊس کی طرف سے ایک مکان بنا کر دیا گیا ، جس پر ایک لاکھ درہم صرف ہوئے تھے ، تو آپ کا قیام اس مکان میں بہت مختصر عرصے کے لئے تھا ۔ کیونکہ ایک روز آپ نے وہ مکان ایک بھکاری کو، جس نے آپ سے بھیک مانگی تھی، یہ کہہ کر دے دیا کہ میرے پاس دینے کو بس یہی ایک چیز ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم ۔ ص ۵۶۰)۔
جب آپ سفر سے اپنے شہر اشبیلیہ واپس لوٹے، تو ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا ۔ آپ لکھتے ہیں : " میں نے افریقہ میں جامع تونس سے مشرقی طرف واقع ابن مثنیٰ کے محل میں نماز عصر کے وقت ایک معین دن، جس کی تاریخ میرے پاس ہے ، کچھ شعر لکھتے تھے۔ پھر میں اشبیلیہ لوٹا ۔ اور دونوں شہروں کے درمیان تین مہینوں کا قافلے کا سفر حائل ہے ۔ میرا ایک شخص سے ملنا ہوا ، جسے میں نہیں جانتا تھا ۔ اس نے اتفاقیہ طور پر بعینہ وہی اشعار پڑھے ، جو میں نے کسی کو لکھ کر نہ بھیجے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اشعار کس کے ہیں ۔ اس نے کہا: محمد بن العربی کے ، گویا میرا نام لیا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے سامنے کس نے پڑھا تھا کہ وہ انہیں حفظ کر سکا۔ اس نے کہا کہ میں ایک رات مشرقی اشبیلیہ میں اصحاب الطریق کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ، جب ایک اجنبی شخص کا، جو سیاح لگتا تھا ، وہاں سے گذر ہوا۔ وہ ہمارے پاس بیٹھا اور ہم سے باتیں کرتا رہا ۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے ، جو ہمیں پسند آئے اور ہم نے انہیں محفوظ کر لیا ۔ پھر ہم نے پوچھا کہ وہ اشعار کس کے ہیں ۔ اس نے کہا : فلاں شخص کے اور میرا نام لیا ۔ پھر ہم نے کہا کہ ابن مثنیٰ کے محل کو ہم اس ملک میں نہیں جانتے ۔ اس نے کہا کہ وہ جامع تونس سے مشرق کی طرف ہے اور وہاں پر وہ اس گھڑی منظوم کئے گئے ہیں۔ پھر وہ ہم سے غائب ہو گیا اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی ہمیں پتہ ہے کہ وہ ہم سے کیسے رخصت ہوا اور نہ ہی ہم نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے "۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم ۔ ص ۳۳۸۔۳۳۹) ۔
اگلے ہی سال ابن عربی پھر فاس (مراکو) میں تھے ۔ جب المᄊحدون فوجیں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اندلس بھیجی گئیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عربی کا رجحان زیادہ سے زیادہ شمالی افریقہ کی طرف ہوتا جا رہا تھا ، جہاں پر آپ کو صوفیا کی صحبت ملتی تھی، جن کی قربت آپ کی اپنی روحانی ترقی کے لئے اہم تھی۔ مگر اندلس میں آپ کے والدین مقیم تھے اور دوسرے رشتہ دار رہتے تھے ۔ آپ کی دو غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔ خود آپ کی شادی غالباً ہو چکی تھی۔ کیونکہ آپ اپنی صالحہ بیوی مریم بنت محمد بن عبدون بن عبد الرحمن البجائی کا ذکر کرتے ہیں ، جو ایک امیر کبیر کی بیٹی تھی اور آپ کی طرح طریقہ پر چلنے کی متمنی تھی۔ انہوں نے خواب میں ایک انسان کو دیکھا ، جسے انہوں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ، مگر جو کشف میں انہیں نظر آیا کرتا تھا ۔ اس شخص نے پوچھا کہ آیا آپ الطریق پر چلنے کی خواہش مند ہیں ۔ آپ نے کہا : اᅨ کی قسم میں ایسا کرنا چاہتی ہوں ، مگر نہیں جانتی کہ اسے کیسے اختیار کروں۔ اس شخص نے جواب دیا: پانچ باتوں سے: توکل، یقین، صبر، عزیمت اور صدق کے ساتھ ۔ ابن عربی نے خواب کو سن کی تصدیق کی کہ یہی صوفیاکا مذہب ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۲۷۸)۔
۵۹۳ھ میں ابن عربی پھر ایک بار فاس میں تھے ، جہاں پر ایک کشف میں آپ کا روحانی درجہ دکھایا گیا ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مسجد الازہر میں، جو عین الجبل کے پہلو میں واقع ہے ، آپ نے عصر کی نماز کے دوران ایک نور کو دیکھا ، جو ہر چیز کو منور کر رہا تھا ، جو آپ کے سامنے تھی ، جب کہ آپ یہ تمیز بالکل کھو بیٹھے تھے کہ آگے کیا ہے اور پیچھے کیا۔ اور آپ کشف میں جہتوں میں فرق نہ کر سکتے تھے ، بلکہ ایک گلوب کی طرح تھے اور جہتوں کو صرف ایک مفروضے کے طور پر نہ کہ حقیقی رنگ میں تصور کر سکتے تھے ۔ اس قسم کا تجربہ آپ کو پہلے بھی ہو چکا تھا ، مگر اس کی کیفیت ایسی تھی کہ آپ کو صرف سامنے کی چیزیں دکھائی دیتی تھیں، جب کہ اس کشف نے ہر طرف کی چیزوں کو ظاہر و باہر کر دیا تھا ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۴۸۶)۔
ابن عربی ایک مصفہ شیشہ کی طرح تھے ، جس میں ہر چیز کا عکس پڑتا تھا اور وہ پوشیدہ ترین حقیقتوں کو جان جاتے تھے ۔ آپ کو کشف میں قطب المتوکلین دکھائے گئے ، جو آپ کے استاد ابو محمد عبدا ᅨ الموروری تھے ۔آپ نے کشف میں دیکھا کہ توکل کا سارا اسٹیشن ایک چکی کی طرح آپ کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ابن عربی نے ان سے ملاقات ہونے پر انہیں اس بارہ میں بتایا ، تو وہ مسکرائے اور اᅨ کا شکر ادا کیا ۔ اسی طرح ابن عربی لکھتے ہیں کہ انہیں اپنے وقت کے قطب الزمان سے بھی ملنے کی سعادت ملی۔ یہ واقعہ ۵۹۳ھ میں فاس میں پیش آیا، جب اہل الطریق ابن الحیوان کے باغ میں جمع ہوتے تھے اور ان میں الاشعل القبائیلی بھی تھے ، جو بجایہ کے رہنے والے تھے اور ان کا ایک ہاتھ شل تھا ۔ وہ ہر ملاقات پر صرف قرآن کے بارے میں بات کرتے تھے ۔ اور کسی کو ان کے مقام کا علم نہ تھا ۔ باتوں باتوں میں اقطاب کا ذکر ہونے لگا ۔ ابن عربی نے کہا: بھائیو میں تمہیں اپنے وقت کے قطب کے بارے میں بتاᄊں اور اس شخص کی طرف رخ موڑا ، جس کے قطب الوقت ہونے کے بارے میں انہیں اᅨ نے خواب میں اطلاع دی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ بات بیان کرو، جو اᅨ نے تمہیں بتائی ہے ، مگر اس کا نام نہ لینا۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تووہ آپ کے پاس آیا اور اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ ابن عربی نے اس کا راز نہ کھولا تھا ۔ پھر اس نے کہا کہ اب جب کہ تمہیں اس بات کا پتہ ہے ، اس لئے میرا یہاں پر ٹہرنا درست نہیں ہے ۔ اس کے بعد ابن عربی کی اس کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۷۶۔ روح القدس میں ان پر علیحدہ باب موجود ہے)۔
۵۹۳ھ میں فاس کے مقام پر آپ پر خاتم الاولیاءکی حقیقت کھولی گئی۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم۔ ص ۵۱۴)۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جلد بعد وطن جانا پڑا ، جس کا سبب شاید یہ ہو کہ آپ کے والد کی وفات کے بعد، جو غالباً ۵۹۱ھ کے لگ بھگ ہوئی تھی، آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی۔ چنانچہ جب سے آپ کے خاندان نے آبائی وطن مرسیہ کو چھوڑا تھا ، آپ پہلی بار وہاں پر لوٹ کر گئے ، جس کا مقصد وہاں کی جائیداد کو ٹھکانے لگانا ہو سکتا ہے۔ البتہ رستے میں آپ نے مریہ کے مقام پر ، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لئے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا ، اپنی کتاب مواقع النجومصرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔(فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۳۳۴)۔ یہ ۵۹۵ھ کی بات ہے ، جس سال مرسیہ کے مقام پر آپ کے دل میں اᅨ کی طرف سے یہ بات ڈالی گئی کہ میرے بندوں کو اس کرم کے بارے میں بتاᄊ ، جو میں نے تم پر کیا ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۷۰۸)۔
الدرۃ الفاخرہ میں شیخ صالح العدوی کی سوانح حیات میں ابن عربی لکھتے ہیں کہ شیخ نے آپ سے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا، جن کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی۔ آپ نے بتایا کہ بڑی کی منگنی امیر ابو الاعلیٰ بن غاذون کے ساتھ ہو چکی ہے ۔ مگر شیخ نے کہا کہ امیر اور ابن عربی کے والد دونوں اس شادی سے پہلے وفات پا جائیںگے اور ماں اور دونوں بہنوں کی کفالت ان کے کندھوں پر آن پڑے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور ہر طرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں۔ بلکہ خود امیر المᄊمنین کی طرف سے آپ کو یہی پیغام ملا ، جس کے لانے والے قاضی القضاۃ یعقوب ابو القاسم بن تقی تھے ، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ کو امیر المᄊمنین کی خدمت میں حاضر ہونے کو کہا گیا ۔ امیر نے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا اور مناسب رشتہ تلاش کر کے خود ان کی شادی کرنے کی پیشکش کی، مگر ابن عربی نے کہا کہ وہ یہ کام اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ امیر نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ غالباً اس طرح وہ ابن عربی کے والد کی خدمات کا صلہ دینا چاہتے تھے۔ جب ابن عربی نے بات کو ماننے سے انکار کر دیا ، تو امیر المᄊمنین نے انہیں سوچ کر جواب دینے کو کہا اور اپنے دربان کو ہدایت کی کی جب ان کی طرف سے جواب آئے ، تو خواہ دن ہو یا رات ، اس کی اطلاع انہیں فوراً کر دی جائے۔ ابن عربی وہاں سے رخصت ہو کرگھر لوٹے ، تو امیر کا ایلچی امیر کا پیغام لے کر پہنچ گیا ، جس میں امیر نے اپنی پیشکش کو دوہرایا تھا ۔ آپ نے ایلچی کا شکریہ ادا کیا اور اسی روز اپنے خاندان سمیت فاس کے لئے روانہ ہو گئے۔ دونوں بہنوں کی شادی آپ نے وہاں پر کر دی اور اس طرف سے فارغ ہو کر اپنی دیرینہ خواہش مکہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے ۔ آپ کی والدہ کا غالباً انہی دنوں میں انتقال ہوا ، کیونکہ آپ لکھتے ہیں کہ انہوں نے بیوگی کے سات سال دیکھے۔ آپ کا ارادہ عرصہ سے مشرق کی طرف کوچ کر جانے کا تھا ، مگر ماں اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس کو ملتوی کرتے رہے ۔ مغرب آپ جیسے عبقری انسان کے لئے بہت محدود تھا ۔ اور آپ کو نظر آ رہا تھا کہ جب تک آپکی پذیرائی مشرق میں نہیں ہو گی ، اس وقت تک آپکا مشن دنیائے اسلام کے اندر نہ پھیل سکے گا۔
مغرب میں یوں بھی صوفیا کے خلاف بہت کچھ زہر پھیل چکا تھا ۔ ان کے سیاسیات میں حصہ لینے کے نتیجے میں حکومتیں ان کا قلع قمع کرنے کو پھرتی تھیں۔ ابن عربی نے اشبیلیہ کو جس طر ح خاموشی کے ساتھ چھوڑا تھا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ تعلق توڑ چکے تھے۔ ایک اور واقعہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ روح القدس میں ابو محمد عبد اᅨ بن ابراہیم الملقی الفخار کے تذکرہ میں آپ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک بار سلطان ابو العلی نے آپ کے لئے اور آپ کے ساتھیوں کے لئے دو روز تک کھانا بھجوایا تھا ، جس میں آپ نے کچھ نہ کھایا۔ بلکہ جب پوچھا گیا ، تو کہا کہ آپ اس کھانے کو جائز نہیں سمجھتے ، کیونکہ وہ حرام کا کھانا ہے ۔ یہ بات مقامی لوگوں نے بہت سنگین جانی اور صوفیا کو خطرہ پیدا ہوا کہ شاید سلطان ان کے خلاف کوئی اقدام اٹھائے گا۔ بعد میں آپ کو ابن الطریف نے کہا کہ ایسا سخت رد عمل نہ دکھایا جاتا ، تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ بات اتنی دیر تک ممکن ہے ، جب تک انسان کا راس المال یعنی دین محفوظ رہے ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۵۴۰)۔
قربت الٰہی کا مقام آپ کو ۵۹۷ھ کے ماہ محرم میں ایک سفر کے دوران ملا۔ جہاں ایک طرف آپ کو اس انعام کی خوشی تھی ، وہاں پر دوسری طرف آپ اس مقام میں اپنی تنہائی کو دیکھ کر ڈر گئے ۔ آپ کو یاد آیا کہ ابو یزید اس مقام میں مسکینی اور فقر کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور کسی کو وہاں پر نہ پایا تھا ۔ آپ نے سوچا کہ اس مقام کو اپنا وطن بنانا ہے ، تو وحشت کیسی ۔ آخر وطن کے ساتھ ہر کسی کو محبت ہوتی ہے اور وحشت تو بے وطنی سے مخصوص ہے ۔ " جب میں اس مقام میں داخل ہو گیا، تب میں نے اس کے پہلوᄊں اور مخصوصیات کی دریافت شروع کی۔ اور اگرچہ میں اس میں تھا اور اᅨ کے اس سے مخصوص کردہ انعامات کو دیکھتا تھا ، مجھے پتا نہیں تھا کہ اس مقام کا نام کیا ہے ۔ میں حق تعالیٰ کے اوامر کو اپنے پر تواتر سے نازل ہوتے ہوئے اور اس کے سفیروں کو اترتے اور مجھ سے مᄊانست کرتے ہوئے دیکھتا تھا " ۔ آپ اس حیرت کے عالم میں تھے کہ آپ کی ملاقات آنحال کے مقام پر ایک صوفی سے ہوئی اور آپ نے عصر کی نماز جامع مسجد میں پڑھی۔ جہاں پر امیر ابو یحییٰ بن واجتن آن نکلے ، جن کے ساتھ آپ کی دوستی تھی۔ انہوں نے آپ کو اپنے ہاں ٹہرنے کی دعوت دی۔ مگر آپ ان کے کاتب (سیکرٹری) کے ہاں ٹہرے ، جن کے ساتھ آپ کو مᄊانست تھی۔ آپ نے ان کے سامنے اپنے اکلاپے کی شکایت کی ایک ایسے مقام پر ہوتے ہوئے ، جس میں آپ بہت خوش تھے ۔ اور جب کہ وہ آپ کی ڈہارس بندھا رہے تھے ، آپ نے ایک شخص کا سایہ دیکھا اور آپ اس کی طرف اٹھے کہ شاید آپ کو اس کے ذریعے مسرت ملے ۔ اس نے آپ سے معانقہ کیا۔ آپ نے غور سے دیکھا کہ وہ ابو عبد الرحمن السلمی تھے ، جن کی روح کو جسم دے کر اᅨ نے آپ پر ترس کھاتے ہوئے آپ کی طرف بھیجا تھا ۔" میں نے کہاکہ میں آپ کو اس مقام میں دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے یہ مقام پایا اور اسی میں میری موت ہوئی۔ میں اس میں ہوں اور اس میں رہوں گا ۔ میں نے ان سے اس میں اپنی سراسیمگی اور دوستوں کی عدم موجودگی کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اجنبی پریشان ہو جاتا ہے ۔ اب جب کہ اس مقام کو پانے میں تم پر عنایت الٰہی ہو چکی ہے ، تمہیں اᅨ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ اور میرے بھائی کس کو بھلا یہ مقام ملتا ہے ۔ کیا تمہیں یہ بات نہیں بھاتی کہ اس مقام میں خضرؑتمہارے ساتھی ہوں" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۶۱)
ابن عربی عرش الٰہی کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے ایک کشف کا حال بیان کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں آپ کی زندگی کا ایک نیا ورق الٹا گیا ۔ " جان لو کہ اᅨ نے عرش کو نورانی ستونوں پر، جن کی ماہیت کو میں نہیں جانتا ، کھڑا کیا ہے ۔ البتہ میں نے ان کو دیکھا ہے ۔ اور ان کا نور بجلی سے مشابہ ہے ۔ اور ساتھ ہی میں نے اس کا سایہ دیکھا ، جس میں بے مقدار راحت ہے ۔ اور وہ سایہ اس عرش کے مقعر کا سایہ ہے ، جو اس پر مستویٰ کے نور، یہی الرحمن ہے ، کو چھپاتا ہے ۔ او رمیں نے ایک خزانہ کو عرش کے نیچے دیکھا ، جس میں سے یہ الفاظ نکلے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باᅨ العلی العظیم ۔ اور یہ خزانہ آدم تھے ، جن پر اᅨ کی صلوات ہوں ۔ اور میں نے اس کے نیچے بہت سے دوسرے خزانے دیکھے ، جن کو میں پہچانتا تھا ۔ اور میں نے خوبصورت پرندوں کو اس کے اطراف میں اڑتے ہوئے دیکھا ۔ اس کے خوبصورت ترین پرندوں میں سے ایک کو میں نے دیکھا۔ اس نے مجھے سلام کیا ، جس سے مجھے کہا گیا کہ اس کو اپنا ساتھی بنا کر مشرقی ممالک کو جاᄊں۔ جب مجھ پر یہ ساری بات کھولی گئی ، اس وقت میں مراکش کے شہر میں تھا ۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ کہا گیا کہ اس کا نام محمد الحصار ہے اور وہ فاس شہر میں ہے ۔ اس نے اᅨ سے مشرقی بلاد کے سفر کی درخواست کی تھی ۔ اس کو اپنے ساتھ لے جاᄊ۔ میں نے کہا۔ حکم سر آنکھوں پر۔ میں نے اس سے کہا کہ اᅨ نے چاہا تو عین وہی پرندہ میرا ساتھی ہو گا ۔ جب میں فاس شہر میں آیا ، تو میں نے اس کے بارے میں پوچھ بھیجا ۔ وہ میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس نے اᅨ سے کسی چیز کے بارے میں درخواست کر رکھی تھی۔ اس نے کہا ۔ ہاں میں نے کہا تھا کہ مجھے بلاد شرق میں پہنچایا جائے ۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ فلاں شخص تمہیں ساتھ لے جائے گا اور میں تمہارا اس وقت سے انتظار کر رہا تھا ۔ میں نے اس کو ۵۹۷ھ میں اپنا ساتھی بنایا اور اسے دیار مصر تک لے کر گیا ، جہاں پر اس نے وفات پائی۔ اᅨ اس پر رحم کرے " ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم ۔ ص ۴۳۶)
۵۹۷ھ کے ماہ رمضان میں ابن عربی اپنے ساتھی محمد الحصار کی معیت میں بجایہ میں داخل ہوئے ۔ اسی سال آپ کے شیخ ابو النجاءالمعروف بہ ابن مدین نے ، جو اس شہر کے باسی تھے ، وفات پائی ۔ عنوان الدرایہ میں ابن عربی کے اپنے الفاظ میں ایک خواب کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ "میں نے ایک رات دیکھا کہ میں نے آسمان کے تمام نجوم کے ساتھ نکاح کیا ہے اور ان میں سے کوئی ستارہ باقی نہ بچا ، جس کے ساتھ میں نے بے حد لذت روحانی کے ساتھ نکاح نہ کیا ہو ۔ جب میں اس سے فارغ ہوا ، تو مجھے حروف عطا کئے گئے ، ان کے ساتھ بھی میں نے نکاح کیا ۔ میں نے اپنی یہ رویاءایک شخص کو سنائی ، جس نے اس کو ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کیا ، جو رویاءشناس اور ان کی تعبیر کا ماہر تھا۔ اور میں نے اس شخص سے کہہ دیا تھا ، جس نے رویاءکو پیش کرنا تھا کہ میرا ذکر نہ کرے۔ جب اس نے رویاءکو پیش کیا ، تو وہ بہت مرعوب ہوا ۔ اس نے کہا کہ یہ ایسا سمندر ہے ، جس کی گہرائی کو کوئی نہیں جان سکتا ۔ اس رویاءکے دیکھنے والے پر اوپر کے علوم کھولے گئے ہیں اور علوم اسرار اور ستاروں کے خواص۔ جس میں اس کے زمانے کا کوئی شخص شریک نہیں ہے ۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے چپ رہا ۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ شخص اس شہر میں ہے ، تو وہ نوجوان اندلسی ہی ہو سکتا ہے ۔ جو یہاں پر آیا ہے " ۔ (بحوالہ فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۵۵۹۔ سوانح حیات)
بجایہ سے آپ ۵۹۸ھ کو تونس پہنچے، جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹہرے۔ وہاں پر آپ نے آٹھ سال پہلے اپنے قیام کے دوران دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدسرقم کی تھی ۔ اس دفعہ بھی آپ نے وہاں پر ایک کتاب انشاءالدوایرلکھنی شروع کی ، جو آگے سفر پر روانہ ہو جانے کے سبب مکمل نہ کی جا سکی۔ اس کی تکمیل بعد میں مکہ میں ہوئی ۔ تونس کی یادگار ایک اور واقعہ ہے ، جس کا تعلق آپ کی روحانی ترقی سے ہے ۔ آپ لکھتے ہیں ۔ " جب میں اس منزل ( منزل زمین کشادہ) میں داخل ہوا ، تو میں اس وقت تونس میں تھا ۔ مجھ سے ایسی چیخ نکلی ، جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ مجھ پر یہ امر وقوع میں آیا تھا، سوائے اس کے کہ جس کسی نے وہ چیخ مجھ سے سنی ، وہ سب گر کر بیہوش ہو گئے اور پڑوس کی عورتیں ، جو چھت کی سطح پر سے ہم کو دیکھ رہی تھیں، ان میں سے بعض گھر کے صحن میں گر گئیںاور باوجود بلندی کے ان میں سے کسی کو کوئی گزند نہیں پہونچا۔ ان سب سے پہلے جو ہوش میں آیا ، وہ میں ہی تھا ۔ اس وقت ہم ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔ وہاں پر جس کسی کو میں نے دیکھا ، وہ سب بیہوش تھے ۔ کچھ دیر کے بعد وہ ہوش میں آئے ، تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کو کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو کیا ہوا تھا کہ آپ نے ایک ایسی چیخ ماری ، جس کا اثر آپ اس جماعت میں دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے کہا۔ خدا کی قسم مجھے اس بات کا کچھ پتہ نہیں ہے کہ میں نے ایسی چیخ ماری تھی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۷۳)
شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی
ابن عربی کا پورا نام ، جن کو محی الدین (دین کا زندہ کرنے والا)کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، محمد بن علی بن محمدالطائی الحاتمی تھا۔ مشرق میں آپ کو ابن عربی کہتے ھیں۔ (قاضی ابو بکر بن ابن العربی سے تمیز کرنے کی خاطر آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا) جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں ۲۷ رمضان المبارک ۵۶۰ھ مطابق ۱۱۶۵کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے ، جو مشہور زمانہ سخی حاتم الطائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سےموحدون کے ہاتھ میں تھا ، اس لئے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گذارا۔ ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرتا تھا۔ تصوف کا سلسلہ آپ کے خاندان میں قائم تھا ۔ چنانچہ آپ کے چچا محمد عبد اللہ بن محمد بن العربی کو اپنی وفات سے تین برس قبل طریقہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق ملی، جس کا سبب ایک نوجوان بنا تھا ، جسے خود تصوف کا کوئی علم نہ تھا ۔ آپ اپنے گھر کے قریب واقع ایک پنساری کی دوکان پر جا کر بیٹھا کرتے تھے ، جو جڑی بوٹیاں بیچتا تھا ۔ ایک روز دوکاندار کی غیر حاضری میں آپ وہاں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبرو لڑکا آیا اور آپ کو دوکان کا مالک سمجھتے ہوئے آپ سے ایک خاص پودے کے سفید بیج مانگے۔ آپ ہنس دیئے اور پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ لڑکے نے کہا کہ اسے ایک تکلیف ہے ، جس کا علاج ایک عورت نے اس پودے کے سفید بیج بتایا تھا ۔ آپ کے چچا نے کہا کہ میں تمہاری لاعلمی کے سبب ہنسا تھا ، کیونکہ اس پودے کا بیج سفید نہیں سیاہ ہوتا ہے ۔ اس پر لڑکے نے کہا: چچا میری اس بارے میں لاعلمی کا مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، مگر آپ کی اس سے غفلت آپ کے لئے بہت نقصان کا موجب بنے گی،بالخصوص جب کہ آپ عمر رسیدگی کے باوجود اس کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں ۔ یہ بات ابن عربی کے چچا کے دل کو لگی اور ان کے اندر ایک انقلاب برپا کرنے اور ان کے طریقہ کی طرف رجوع کا باعث بنی ۔
اسی طرح آپ کے ماموں ابو مسلم الخولانی ،جو ساری ساری رات عبادت میں گذارتے تھے اور جب ان کی ٹانگیں تھک جاتی تھیں، تو انہیں جھڑیوں سے مارتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہیں مارنا بہتر ہے اپنی سواری کے جانور کو مارنے سے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کیا رسول اللہ صلعم کے صحابہ سمجھتے ہیں کہ حضور صرف ان کے لئے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم ان پر اس طرح ہجوم کر کے آپ کی طرف بڑھیں گے کہ انہیں پتا چل جائے گا کہ انہوں نے اپنے پیچھے مردوں کو چھوڑا ہے ، جو آپ کے مستحق ہیں (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۸)
دوسرے ماموں یحییٰ بن یغمان تھے ، جو ایک زمانے میں تلمسان کے بادشاہ تھے ۔ ان کے زمانے میں ایک عابد زاہد شخص ابو عبد اللہ التونسی تھے ، جو لوگوں سے کنارہ کش تھے اور تلمسان سے باہر ایک جگہ پر رہتے تھے ۔ ایک روز وہ شہر میں جا رہے تھے ، جب ابن عربی کے ماموں کا اپنے جاہ وحشم کے ساتھ وہاں سے گذر ہوا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ شخص عابد وقت ہیں ۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کی لگام کو کھینچا اور شیخ کو سلام کیا ۔ جواب میں انہوں نے بھی سلام کیا۔ بادشاہ لباس فاخرہ میں ملبوس تھا ۔ اس نے پوچھا : اے شیخ کیا میرے لئے ان کپڑوں میں ، جو میں نے پہن رکھے ہیں ، نماز ادا کرنا جائز ہے؟ شیخ اس پر ہنس دیئے ۔ بادشاہ نے ہنسنے کی وجہ پوچھی، تو کہا تمہاری بے سمجھی پر اور اپنے نفس کو نہ جانے پر اور تمہارے حال پر ۔ میرے نزدیک تم اس کتے کی طرح ہو ، جو ایک مردار کے خون میں سونگھتا پھرتا ہے اور اس کی غلاطت کے باوجود اسے کھاتا ہے ۔ مگر جب پیشاب کرتا ہے ، تو ٹانگ اٹھاتا ہے تاکہ پیشاب اسے گیلا نہ کر دے۔ تم حرام سے بھرے ہوئے برتن کی طرح ہو اور اپنے کپڑوں کے بارے میں پوچھتے ہو ، جب کہ لوگوں کے مظالم تمہاری گردن پر ہیں ۔ بادشاہ رو دیا۔ گھوڑے سے اترا اور اسی وقت اپنی بادشاہت سے دستبردار ہو گیا اور شیخ کے ساتھ ہو لیا ۔ شیخ نے تین روز تک اسے اپنے پاس رکھا ۔ پھر رسی لے کر اس کے پاس آیا اور کہا: اسے بادشاہ ضیافت کے دن گذر گئے ۔ اب اٹھ ، جا اور لکڑیاں ڈھو۔ اس کے بعد وہ لکڑیاں اپنے سر پر اٹھا کر لاتا اور انہیں بازار میں لے جایا کرتا تھا ۔ لوگ اس کی طرف تکتے تھے اور روتے تھے ۔ وہ لکڑیاں بیچتا تھا اور اپنے لئے صرف گذارہ کی رقم رکھتا تھا ۔ باقی کے پیسے صدقہ کر دیتا تھا ۔ وہ اس شہر میں اپنی موت تک رہا ۔ا س کو شیخ کے مقبرے کے باہر دفن کیا گیا ۔ لوگ ابن عربی کے زمانے میں اس کی زیارت کے لئے آتے تھے ۔ جب شیخ حیات تھے اور لوگ ان سے دعا کرنے کے لئے کہتے تھے ، تو وہ کہا کرتے تھے کہ یحییٰ بن یغمان سے دعا کے لئے کہو ، کیونکہ وہ بادشاہ تھے ، پھر زھد اختیار کیا ۔ اگر میں اس ابتلاءمیں ڈالا گیا ہوتا ، جس میں وہ ڈالا گیا ہے ، تو میں شاید زہد اختیار کرنے میں کامیاب نہ ہوتا (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۸)
ابن عربی لکھتے ہیں کہ میں نے اس چیز کا مشاہدہ اپنے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۵)۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرا دخول اس طریقہ میں ۵۸۰ھ میں ہوا ، جبکہ آپ کی عمر بیس برس کی تھی۔(فتوحات مکیہ۔ جلد دوپ۔ ص ۴۲۵)۔ اس بارہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کبیر کی دعوت میں مدعو تھے ، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا ۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں پکڑا ، تو غیب سے آواز آئی: " اے محمد کیا تم کو اسی لئے پیدا کیا گیا تھا؟" آپ نے جام کو ہاتھ سے رکھ دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل گئے۔ گیٹ پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا ۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر اپنے کپڑوں کا اس کے کپڑوں سے تبادلہ کیا ۔ کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومنے کے بعد آپ ایک قبرستان پر پہنچے، جو نہر کے کنارے واقع تھا۔ آپ نے وہاں پر ڈیرا لگانے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں جا اترے۔ دن اور رات ذکر الٰہی میں مصروف ہو گئے اور سوائے نماز کی ادائیگی کے وقت کے اس میں سے نہ نکلتے تھے ۔ چار روز کے بعد آپ باہر نکلے ، تو علوم کا ایک دریا لے کو لوٹے۔ (الدر الثمین فی مناقب الشیخ محی الدین۔ مصنفہ الشیخ ابراہیم بن عبداᅨ القاری البغدادی۔ بیروت ء۱۹۵۹ص ۲۲۔۲۳) ۔ آپ نے اس کے بعد اپنے شیخ کی زیر نگرانی ایک نو ماہ کا چلہ کاٹا۔ ابن سودکین نے ا سے روایت کیا : " میری خلوت فجر کے وقت شروع ہوئی اور فتح (اسرار کا کھلنا ) طلوع الشمس سے قبل وقوع میں آئی۔ فتح کے بعد مجھ پر " ابدار" کی حالت وارد ہوئی اور اس کے علاوہ دوسرے مقامات ترتیب وار آئے۔ میں اپنی جگہ پر قائم رہا چودہ مہینوں تک اور ان سارے اسرار تک رسائی حاصل کی ، جنہیں میں نے فتح کے بعد تالیف کیا ہے ۔ اور میری فتح اس لحظہ میں ایک جذب (کی طرح ) تھی" ۔ (کتاب وسائل السائل۔ مصنفہ شمس الدین اسماعیل بن سودکین۔ ص ۲۱)۔یہاں پر ابن عربی نے جس مقام " ابدار" کا ذکر کیا ہے ، اس کی تشریح آپ نے دوسری جگہ پر ان الفاظ میں فرمائی ہے : " ابدار کو اᅨ نے عالم میں اپنی تجلی کی مثال کے لئے اپنے حکم سے نصب کیا ہے ۔ پس وہ خلیفہ الٰہی ہے ، جو عالم میں اللہ کے اسماءاور احکام اور رحمت اور قہر اور انتقام اور عفو کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے ، جیسے سورج ظاہر ہوتا ہے چاند میں اور جب وہ پورے کو روشن کر دیتا ہے ، تو اس کو بدر (پورا چاند) کہتے ہیں ۔ گویا سورج اپنے آپ کو بدر کے آئینے میں دیکھتا ہی"۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوپ۔ ص ۵۵۶)۔
آپ پہلے پہل سرکاری ملازمت میں کاتب (سیکرٹری) کے عہدے پر فائز تھے، جو دیوان سلطنت کا اہم عہدہ تھا ۔ آپ کے والد وزیر ریاست تھے اور آپ کے خاندان کا شمار ملک کے باوقار لوگوں میں ہوتا تھا ۔ اپنے روحانی تجربہ کے بعد آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور طریقہ کے دوسرے لوگوں کی طرح فقر کو اپنا شعار بنایا۔ آپ کے مرشد شیخ یوسف بن یخلف الکومی کو خبر پہنچی کہ ابن عربی اپنا وقت قبرستان میں گذارتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے کسی موقعہ پر کہا کہ سنا ہے کہ ابن عربی نے زندوں کی مجلس کو چھوڑ کر مردوں کی مجلس اختیار کر لیا ہے ۔ا بن عربی نے انہیں پیغام بھیجا کہ آپ خود آکر دیکھیں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہوں۔ چنانچہ ایک روز وہ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد قبرستان میں گئے ، جہاں پر ابن عربی حاضر ہونے والی ارواح کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے ۔ شیخ یوسف دھیرے سے آپ کے پہلو میں جا کر بیٹھے اور ابن عربی نے دیکھا کہ ان کا رنگ فق پڑ گیا تھا ۔ ابن عربی نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا ، مگر شیخ یوسف اپنے اندرونی کرب کے سبب مسکرا نہ سکے۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تو استاد کے چہرے پر رونق لوٹ آئی اور انہوں نے شاگرد کی پیشانی کو چوما ۔ ابن عربی نے پوچھا: " استاد کون مردوں کے ساتھ مجلس لگاتا ہے ، میں یا آپ؟" شیخ یوسف نے کہا: " خدا کی قسم میں مردوں کے ساتھ مجلس کرتا ہوں ۔ اگر مجھ پر حال وارد ہو جائے تو میں سب کچھ چھوڑ دوں" ۔ اس کے بعد وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ جو کوئی لوگوں سے منہ موڑنا چاہتا ہے ، اسے فلاں (مراد ابن عربی) کی طرح ہونا چاہیئے، کیونکہ اس میں عالم الغیب کی استقامت کا علم ہے اور وہ مخالفت سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ عالم الوفاق ہے اور اس میں ایسا علم پایا جاتا ہے ، جس پر انسانی قویٰ قدرت نہیں رکھتے " ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم۔ ص ۴۵)۔
ابن عربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابو الولید ابن رشد نے آپ کے والد سے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ اس ملاقات کا حال ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں خود ان الفاظ میں بیان کیا ہے : " میں ایک روز قرطبہ میں وہاں کے قاضی ابو ولید بن رشد کے پاس گیا ۔ انہیں میری ملاقات کا شوق تھا ، اس سبب سے، جو انہوں نے میرے بارے میں سن رکھا تھا اور مجھ پر اللہ نے میری خلوت میں جو اسرار کھولے تھے ، جن کے بارے میں ان کو پتا چلا تھا ۔ وہ ان سنی ہوئی باتوں پر تعجب کا اظہار کرتے تھے ۔ میرے والدنے مجھے کسی حاجت کے سلسلے میں ان کے پاس بھیجا، اس قصد کے ساتھ کہ وہ مجھ سے ملیں ، کیونکہ وہ آپ کے دوستوں میں سے تھے۔ اور میں ابھی بچہ تھا ۔ میری مسیں ابھی نہ بھیگی تھیں۔ جب میں داخل ہوا، تو وہ محبت اور تعظیم کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے معانقہ کیا۔ پھر مجھ سے کہا: ہاں۔ میں نے ان سے کہا: ہاں۔ اس پر ان کو بہت خوشی ہوئی کہ میں نے ان کی بات کو سمجھ لیا تھا ۔ پھر میں جان گیا کہ وہ کیوں اس بات پر خوش ہوئے تھے ، تو میں نے ان سے کہا: نہیں۔ اس پر ان کو انقباض ہوا اور ان کا رنگ بدل گیا ۔ اور انہیں اپنے علم کے بارے میں شک پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا: تم نے کشف اور فیض الٰہی میں اس امر کو کیسا پایا۔ کیا وہ وہی کچھ ہے ، جو ہمیں سوچ و بچار سے ملتا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں اور نہ اور ہاں اور نہ کے مابین روحیں اپنے مواد سے اور گردنیں اپنے اجسام سے اڑتی ہیں۔ ان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کانپنے لگے اور بیٹھ کر لاحول پڑھنے لگے اور وہ اس چیز کو جان گئے ، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا ۔ اور یہ عین وہی مسئلہ ہے ، جس کا ذکر اس قطب امام یعنی مداوی الکلوم نے کیا تھا ۔ اور اس کے بعد انہوں نے میرے والد سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تا کہ وہ میرے سامنے اس چیز (علوم) کو پیش کر سکیں ، جو ان کے پاس تھی یہ جاننے کے لئے کہ کیا وہ موافق ہے یا مخالف۔ کیونکہ وہ ارباب فکر اور (اصحاب )نظر و عقل میں سے تھے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اس بات پر کہ وہ ایسے زمانے میں تھے ، جس میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا ، جو اپنی خلوت (چلہ) میں جاہل ہوتے ہوئے داخل ہوا اور اس طرح (علم سے مالا مال) خارج ہوا بغیر لیکچروں کے اور بحث (مباحثہ) کے اور بغیر (تحقیقی) مطالعہ کے اور بغیر (استاد کے سامنے ) پڑھنے کے ۔ا نہوں نے کہا کہ اس بات کو ہم نے (دلائل)سے جانا ہے۔ مگر ایسے (استعداد رکھنے والے)ارباب کو ہم نے نہیں دیکھا تھا ۔ سو اللہ کا شکر ہے کہ میں ایسے زمانے میں ہوں ، جس میں ان ارباب میں سے ایک پایا جاتا ہے ، جو بند دروازوں کو کھولنے والے ہیں ۔ اللہ کا شکر اس بات پر کہ اس نے مجھے اس کو دیکھنے کی خصوصیت سے نوازا" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۵۳۔۱۵۴)۔
قطب مداوی الکلوم نے اپنے اصحاب کو ایک جگہ پر جمع کر کے جو باتیں کیں تھیں ، ان میں سے یہ فقرے قابل غور ہیں اور غالباً ابن عربی انہیں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ آپ نے کہا تھا: "ہر علم کے لئے انسان مخصوص ہوتے ہیں ، جس کو نہ تو سب لوگ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے لئے وقت میسر ہوتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر گروہ میں مختلف فطرتوں کے لوگ پائے جاتے ہوں اور آپس میں موافقت نہ رکھنے والے اذہان موجود ہوں ، اگرچہ اس جماعت کا مقصود ایک ہی ہو۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس کے ہاتھ میں میرے رمز کی مفتاح ہے اور ہر مقام کے لئے مقال اور ہر علم کے لئے رجال اور ہر وارد کے لئے حال پائے جاتے ہیں" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۵۳)۔
ایک اور ہستی کے ساتھ آپ کا ملنا تصوف کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ آپ کو طریقہ سے وابستہ ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا ۔ یہ تھے خضر علیہ السلام ، جن کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر ابن عربی نیفتوحات مکیہ میں ان الفاظ میں کیا ہے : "¢اور ہم کو خضر علیہ السلام کے بارہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ یوں ہے کہ ہمارے شیخ ابا لعباس رحمۃ اᅨ علیہ کے اور میرے درمیان ایک شخص کے بارہ میں ایک مسئلہ جاری ہوا، جس کے ظاہر ہونے کے لئے رسول کریم صلی اᅨ علیہ وسلم نے خوش خبری فرمائی تھی۔ اور اس نے مجھے فرمایا کہ وہ فلاں بن فلاں شخص ہے اور میرے آگے ایک شخص کا نام بیان کیا ، جس کو میں نام سے جانتا تھا اور دیکھا نہیں تھا ۔ لیکن اس کی پھوپھی کے بیٹے کو میں نے دیکھا تھا ۔ اور میں اس کے بیان میں متوقف تھا اور اس کو قبول نہ کیا تھا ۔ یعنی اس کے بارہ میں اس کی بات کو میں نہیں مانتا تھا۔ کیونکہ میں اس کے بارہ میں علی وجہ البصیرت تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ شیخ عریبی کا تیر اس پر پھر آیا اور شیخ کو دل میں میری اس بات سے رنج ہوا۔ اور مجھے اس سے کچھ آگاہی نہ ہوئی۔ کیونکہ میں اس وقت ابتدائی حال میں تھا ۔ اور میں اس سے اپنے گھر لوٹ آیا۔ ابھی میں راستہ میں ہی گھر کی طرف آ رہا تھا ۔ اور ایک شخص مجھے ملا جسے میں نہیں جانتا تھا ۔ اور اس نے مجھے ایک بڑے محب مہربان کی طرح پہلے السلام علیکم کہہ کر فرمایا۔ اسے محمد تم کو شیخ ابا العباس عریبی نے فلاں شخص کے بارہ میں جو کچھ ذکر کیا ، وہ سچ ہے ۔ اس کی تصدیق کرو اور اس شخص کا نام لیا ، جس کا ذکر ابوالعباس نے کیا تھا ۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ میں نے ان کے ارادہ کو جان لیا اور اسی وقت میںشیخ صاحب مذکور کی طرف لوٹ آیا کہ اس کو اس واقعہ کی اطلاع دوں۔ جب میں شیخ صاحب کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے فرمایا ۔ اسے ابا عبد اᅨ جب میں تیرے پاس کوئی مسئلہ بیان کرتا ہوں ، تو تیرا دل اس کے قبول کرنے سے متوقف ہو جاتا ہے ، تومجھے تیرے لئے خضر علیہ السلام تک (کی) ضرورت پڑتی ہے کہ وہ تیرے آگے اس بات کو پیش کریں کہ فلاں شخص کی تصدیق کر لو، جو تیرے آگے بیان کیا گیا ۔ یہ واقعہ تمہارے لئے ہر ایک واقعہ کے بارہ میں، جو تم مجھ سے سن کر متوقف ہو جاتے ہو، کہاں تک ہوتا رہے گا ۔ میں نے کہا: توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ فرمایا : قبولیت توبہ واقع ہو چکی۔ میں نے جان لیا کہ وہ شخص خضر علیہ السلام تھے ۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ میں نے شیخ صاحب مذکور سے اس بارہ میں پوچھا کہ آیا راستہ میں مجھے سے ملنے والے خضر علیہ السلام تھے؟ فرمایا : ہاں وہ خضر علیہ السلام تھے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان ۔ ص ۵۳۵۔۵۳۶)۔
ابن عربی نے پہلی بار ۵۹۰ھ میں اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی ، جو الغرب میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیئے جاتے ہیں ، کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا ، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے دوران آپ کو ابو محمد عبد اᅨ بن خمیس الکنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو پیشہ کے اعتبار سے جراح (سرجن) تھے اور جن کا تذکرہ آپ نے اپنی کتابوں روح القدس اور درہ الفاخرہ میں کیا ہے ۔ ان کی صحبت میں آپ ایک سال سے کچھ کم عرصہ رہے تھے۔ ان سے ملنے کے لئے جاتے ہوئے آپ نے اپنے استادوں ابو یعقوب اور ابو محمد الموروری کی سنت کی پیروی کی اور ان کی طرح ننگے پاᄊں چل کر گئے۔ جب آپ نصف فاصلہ طے کر چکے تھے ، تو آپ کو ایک شخص مخالف سمت سے آتا ہوا ملا ، جس نے بتایا کہ شیخ نے مجھے تم سے ملنے اور یہ پیغام دینے کو کہا ہے کہ اپنی جوتیاں پہن لو۔ انہیں تمہاری آمد کا علم ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہارے لئے کھانا بھی تیار کر رکھا ہے ۔ اس شیخ کے پاس سے واپسی والے روز آپ کی ملاقات دوسری بار خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ جس کے بارے میں آپ لکھتے ہیں:
" پھر دوسری بار میرے لئے ایساواقعہ پیش آیاکہ میں تونس کی بندرگاہ میں کشتی کے اندر تھا، تو مجھے شکم میں درد پیدا ہوا اور کشتی والے سو گئے تھے ۔ اور میں کشتی کے ایک طرف کھڑا ہو گیا اور سمندر کی طرف نظر کی، تو چاند کی روشنی میں دور ایک شخص مجھے نظر آیا۔ یہ رات چودھویں تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ شخص پانی پر چلا آتا ہے اور میرے پاس پہنچ کر میرے ساتھ کھڑا ہو گیا اور ایک قدم اٹھایااور دوسرے قدم پر تکیہ کیا۔ میں نے اس کے قدم کے نیچے دیکھا کہ اس کو تری پانی کی نہ لگی تھی۔پھر ایک قدم رکھا اور دوسرا اٹھایا ۔ تو دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح خشک تھا۔ پھر ان کے ساتھ جو کلام کرنی تھی ، وہ انہوں نے فرمائی اور مجھے السلام علیکم فرما کر لوٹ گئے ۔ اور بلب دریا ایک بلند ٹیلہ پر جو منارہ واقع ہے ، اس کی طرف تشریف لے گئے، جس کی مسافت ہم سے دو میل سے زیادہ تھی ۔ انہوں نے اس مسافت کو دو یا تین قدموں میں طے کیا ۔ اور میں نے ان کا آواز سنا کہ وہ منارہ کے اوپر اᅨ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ اور ہمارے شیخ جراح بن خمیس کنانی کی طرف تشریف لے گئے ۔ وہ عالی خاندان سے تھے ۔اور بندر گاہ عیدون میں رہتے تھے ۔ میں ان کے پاس سے اسی رات کو آیا تھا ۔ جب میں شہر میں داخل ہوا ،تو ایک صالح مرد سے میری ملاقات ہوئی ۔ اس نے مجھے کہا کہ کل رات کو کشتی میں خضر علیہ السلام کے ساتھ آپ کی کیسی گذری۔ انہوں نے آپ کو کیا فرمایا تھا (اور آپ نے انہیں کیا کہا تھا)" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان۔ ص ۶۳۶)۔
عین ممکن ہے کہ اس سفر کے دوران آپ کی ملاقات قطب زمان ابو النجاءالمعروف بہ ابو مدین کے ساتھ بھی ہوئی ہو، جو شیخ ابن خمیس الکنانی کے استاد تھے۔ اور جن کے مناقب کا ذکر ابن عربی اپنی کتابوں میں بار بار کرتے ہیں اور ان کا شمار اپنے شیوخ میں کرتے ہیں ۔ واپسی کے رستے میں آپ تلمسان میںابو عبد اᅨ الطرطوسی سے ملے ، جن کے بارے میں آپ کے دل میں گرہ تھی، کیونکہ یہ بات آپ تک پہنچی تھی کہ وہ شیخ ابو مدینکے خلاف تھے ۔ ایک رات خواب میں آپ کو رسول اᅨ صلعم کا دیدار ہوا ۔ حضور نے پوچھا کہ تم اس شخص سے کیوں کراہت کرتے ہو۔ عرض کیا اس کے ابو مدین سے بغض کرنے کی وجہ سے۔ حضور نے فرمایا: کیا وہ اᅨ سے اور مجھ سے محبت کرتا ہے؟ عرض کیا: یا رسول اᅨ وہ اᅨ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ فرمایا کہ تم کیوں اس کے ابو مدین سے بغض کرنے کے سبب اس سے بغض کرتے ہو اور کیوں اᅨ اور اس کے رسول سے محبت کرنے کے سبب اس سے محبت نہیں کرتے؟ عرض کیا: یا رسول اᅨ میں نے اᅨ کی قسم خطا کھائی اور غفلت کا مرتکب ہوا، مگر اب تائب ہوتا ہوں اور اس شخص سے تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہوں۔ جب بیدار ہوئے ، تو قیمتی پارچات اور بہت سی نقدی لے کر ان کے دروازے پر پہنچے اور ساری واردات سنائی، جس پر وہ رو دیئے۔ انہوں نے تحفے کو قبول کیا اور اس رویا کو اᅨ کی طرف سے ایک تنبیہ کے طور پر جانا اور ان کے دل سے ابو مدین کے بارے میں ساری کراہت جاتی رہی اور محبت نے اس کی جگہ لے لی۔ ابن عربی نے اس کراہت کا سبب جاننا چاہا اور کہا کہ ابو مدین ایک صالح شخص ہیں ۔ اس نے کہا کہ میں بجایہ میں ان کے پاس تھا ، جب عید الاضحی کی قربانی کا گوشت آیا اور انہوں نے سارا اپنے اصحاب میں تقسیم کر دیا اور مجھے اس میں سے کچھ نہ دیا۔ اس سبب سے میں ان سے کراہت کرنے لگا ۔ مگر اب میں نے اس سے توبہ کر لی ہے۔ (فتوحات مکیہ۔جلد چہارم۔ ص ۴۹۸۔۴۹۹)۔
خضر علیہ السلام کے ساتھ آپ کی تیسری ملاقات بھی غالباً اسی سفر کے دوران ہوئی، جس کا حال آپ نے اس طرح بیان کیا ہے : " اس تاریخ کے بعد میں بطور سیر نکلا اور بحر محیط کے کنارہ کنارہ چلا جاتا تھا اور میرے ساتھ ایک دوسرا شخص تھا ، جو صالحین کے خرق عادات اور کرامات کا منکر تھا۔ میں ایک ویران اور ٹوٹی پھوٹی مسجد میں داخل ہوا تا کہ میں اور میرا ساتھی اس میں نماز ظہر پڑھیں۔ دیکھا کہ منقطع الی اᅨ مردان خدا کی ایک جماعت ہمارے پاس مسجد میں آ داخل ہوئی اور نماز پڑھنے کا ارادہ فرما رہے تھے اور ان میں وہ مرد بھی تھا، جس نے میرے ساتھ دریا پر گفتگو کی تھی اور جس کے بارہ میں مجھے کہا گیا تھا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں ۔ اور ان میں ایک مرد عظیم الشان بڑے قد والا تھا ۔ اور میرے اور اس کے درمیان قبل ازیں دوستانہ محبت کی ملاقات ہو چکی تھی ۔ پس میں کھڑا ہوا اور ان کو سلام کہا۔ اور انہوں نے مجھے سلام فرمایا اور میرے ساتھ بہت خوش ہوئے اور ہم کو نماز پڑہانے کے لئے امام بنے ۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے، تو امام صاحب نکلے اور میں ان کے پیچھے نکلا اور مسجد کے دروازہ کو آئے ۔ مسجد کا دروازہ مغربی جانب بحر محیط کے سامنے اس مقام پر واقع تھا ، جس کو بکہ کہتے ہیں ۔ میں ان کے ساتھ مسجد کے دروازہ پر بات کر رہا تھا ۔ اتنے میں وہ شخص ، جس کے بارہ میں میں نے کہا تھا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں ، آئے اور مسجد کے محراب میں سے ایک چھوٹی سی چٹائی اٹھا کر زمین سے قریباً سات گز کی بلندی پر ہوا میں بچھا دی اور ہوا میں چٹائی پر کھڑے ہو کر نفل پڑھنے لگے۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا تم اس مرد خدا کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ چلیں اور ان سے پوچھیں۔ میں اپنے ساتھی کو کھڑا ہوا چھوڑ کر اس طرف آیا ۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے ، تو ان کو السلام علیکم کہا اور اپنے لئے نظم (کی ہوئی) ان کو پڑھ کر سنائی:
شغل المحب عن الھواءبسرہ فی حب من خلق الھواءو سخرہ
(دوست نے محبت کو روک رکھا ہے اور خوش کرتا ہے اس کی محبت میں جس نے ہوا کو پیدا کیا اور اس کو مسخر کیا)
العارفون عقولھم معقولۃ عن کل کون ترتضیہ مطہرہ
(عارفوں کے عقول معقول ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کون سے وہ عقل خدا کو پسند آتے ہیںکہ وہ پاک ہوتے ہیں)
فھمو لدیہ مکرمون و فی الوریٰ احوالھم مجہولہ و مسترہ
(پس وہی اس کے نزدیک باعزت ہیں اور لوگوں میں ان کے احوال مجہول اور چھپے ہوئے ہیں)
پس مجھے فرمایا اے فلانے تم نے کیا کیا۔ تم نے جو کچھ دیکھا وہ اسی منکر کے حق میں تھا اور میرے ساتھی کی طرف اشارہ فرمایا، جو صالحین کی خرق عادات کا منکر تھا ۔ اور مسجد کے صحن میں بیٹھا ہوا اس کو دیکھ رہا تھا تا کہ جان لے کہ اᅨ تعالیٰ جو کچھ چاہے اور جس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے ۔ پھر میں نے اپنا رخ اس منکر کی طرف کیا اور اس کو کہا کہ تم اب کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ اب دیکھنے کے بعد کیا کہا جا سکتا ہے ۔ پھر میں اپنے ساتھی کی طرف لوٹ آیا اور وہ دروازہ مسجد پر میرے انتظار میں تھے ۔ ایک گھڑی میں نے اس کے ساتھ بات چیت کی اور اس کو کہا کہ یہ کون صاحب ہیں، جو ہوا میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ اور میں نے اس سے جو واقعہ قبل ازیں اس کے ساتھ پیش آیا ذکرنہیں کیا تھا۔ تو مجھے فرمایا کہ یہ خضر علیہ السلام ہیں اور پھر چپ رہی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول ۔ ص ۱۸۶۔ ترجمہ مولوی محمد فضل خان ۔ ص ۶۳۶۔۶۳۷)۔
واپسی کے راستے میں آپ عبد اᅨ القلفاظ سے ملاقات کے لئے جزیرہ طریف میں رکے۔ وہاں پر ان کے درمیان ایک دلچسپ بحث چل نکلی۔ سوال یہ تھا کہ شاکر غنی اور صابر فقیر میں سے کون افضل ہے ۔ ابن عربی نے اپنے لئے فقر کا ہی راستہ اختیار کیا تھا ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: " میں کسی حیوان کا ہرگز مالک نہیں ہوں اور نہ ہی اس کپڑا کا، جس کو میں پہنتا ہوں۔ کیونکہ وہ بھی میں معین شخص سے ، جو مجھے اس میں تصرف کا اذن دے، بطور عاریت لے کر پہنتا ہوں ۔ اور اس زمانہ میں کہ جس میں کسی چیز کا مالک ہوتا ہوں ، اسی وقت یا بذریعہ ہبہ کے یا بذریعہ آزاد کرنے کے ، اگر وہ چیز قابل آزاد کرنے کے ہو، خارج ہو جاتا ہوں۔ یہ حال مجھے اس وقت حاصل ہوا ، جبکہ میں نے خدا تعالیٰ کے لئے عبودیت اختصاص کے تحقق کا ارادہ کیا تھا ۔ تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ تیرے لئے یہ بات درست نہیں ہو سکتی ، حتیٰ کہ تجھ پر کسی کی حجت قائم نہ ہو ۔ میں نے کہا کہ اگر اᅨ تعالیٰ چاہے ، تو اس کی بھی حجت مجھ پر نہ ہو ۔ تو مجھے کہا گیا کہ یہ بات تمہارے لئے کس طرح درست ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی حجت تم پر قائم نہ ہو۔ میں نے کہا کہ دلائل اور حجج منکروں پر قائم کئے جاتے ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنے والوں پر ۔دلائل اور براہین دعاوی اصحاب حظوظ نفس و مال و متاع والوں پر قائم کئے جاتے ہیں ۔ اور جو کہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور نہ اموال و متاع دنیا میں کوئی حظ و حصہ ہے ، اس پر حجج و دلائل قائم نہیں کئے جاتی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۹۶)۔ ابن عربی ساری عمر فقر کے اصول پر قائم رہے ، جس کا ثبوت وہ واقعہ ہے کہ جب آپ کو قونیہ کے بادشاہ کیکاᄊس کی طرف سے ایک مکان بنا کر دیا گیا ، جس پر ایک لاکھ درہم صرف ہوئے تھے ، تو آپ کا قیام اس مکان میں بہت مختصر عرصے کے لئے تھا ۔ کیونکہ ایک روز آپ نے وہ مکان ایک بھکاری کو، جس نے آپ سے بھیک مانگی تھی، یہ کہہ کر دے دیا کہ میرے پاس دینے کو بس یہی ایک چیز ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم ۔ ص ۵۶۰)۔
جب آپ سفر سے اپنے شہر اشبیلیہ واپس لوٹے، تو ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا ۔ آپ لکھتے ہیں : " میں نے افریقہ میں جامع تونس سے مشرقی طرف واقع ابن مثنیٰ کے محل میں نماز عصر کے وقت ایک معین دن، جس کی تاریخ میرے پاس ہے ، کچھ شعر لکھتے تھے۔ پھر میں اشبیلیہ لوٹا ۔ اور دونوں شہروں کے درمیان تین مہینوں کا قافلے کا سفر حائل ہے ۔ میرا ایک شخص سے ملنا ہوا ، جسے میں نہیں جانتا تھا ۔ اس نے اتفاقیہ طور پر بعینہ وہی اشعار پڑھے ، جو میں نے کسی کو لکھ کر نہ بھیجے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اشعار کس کے ہیں ۔ اس نے کہا: محمد بن العربی کے ، گویا میرا نام لیا۔ میں نے پوچھا کہ اس کے سامنے کس نے پڑھا تھا کہ وہ انہیں حفظ کر سکا۔ اس نے کہا کہ میں ایک رات مشرقی اشبیلیہ میں اصحاب الطریق کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ، جب ایک اجنبی شخص کا، جو سیاح لگتا تھا ، وہاں سے گذر ہوا۔ وہ ہمارے پاس بیٹھا اور ہم سے باتیں کرتا رہا ۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے ، جو ہمیں پسند آئے اور ہم نے انہیں محفوظ کر لیا ۔ پھر ہم نے پوچھا کہ وہ اشعار کس کے ہیں ۔ اس نے کہا : فلاں شخص کے اور میرا نام لیا ۔ پھر ہم نے کہا کہ ابن مثنیٰ کے محل کو ہم اس ملک میں نہیں جانتے ۔ اس نے کہا کہ وہ جامع تونس سے مشرق کی طرف ہے اور وہاں پر وہ اس گھڑی منظوم کئے گئے ہیں۔ پھر وہ ہم سے غائب ہو گیا اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی ہمیں پتہ ہے کہ وہ ہم سے کیسے رخصت ہوا اور نہ ہی ہم نے اس کے بعد اسے دیکھا ہے "۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم ۔ ص ۳۳۸۔۳۳۹) ۔
اگلے ہی سال ابن عربی پھر فاس (مراکو) میں تھے ۔ جب المᄊحدون فوجیں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اندلس بھیجی گئیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عربی کا رجحان زیادہ سے زیادہ شمالی افریقہ کی طرف ہوتا جا رہا تھا ، جہاں پر آپ کو صوفیا کی صحبت ملتی تھی، جن کی قربت آپ کی اپنی روحانی ترقی کے لئے اہم تھی۔ مگر اندلس میں آپ کے والدین مقیم تھے اور دوسرے رشتہ دار رہتے تھے ۔ آپ کی دو غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔ خود آپ کی شادی غالباً ہو چکی تھی۔ کیونکہ آپ اپنی صالحہ بیوی مریم بنت محمد بن عبدون بن عبد الرحمن البجائی کا ذکر کرتے ہیں ، جو ایک امیر کبیر کی بیٹی تھی اور آپ کی طرح طریقہ پر چلنے کی متمنی تھی۔ انہوں نے خواب میں ایک انسان کو دیکھا ، جسے انہوں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ، مگر جو کشف میں انہیں نظر آیا کرتا تھا ۔ اس شخص نے پوچھا کہ آیا آپ الطریق پر چلنے کی خواہش مند ہیں ۔ آپ نے کہا : اᅨ کی قسم میں ایسا کرنا چاہتی ہوں ، مگر نہیں جانتی کہ اسے کیسے اختیار کروں۔ اس شخص نے جواب دیا: پانچ باتوں سے: توکل، یقین، صبر، عزیمت اور صدق کے ساتھ ۔ ابن عربی نے خواب کو سن کی تصدیق کی کہ یہی صوفیاکا مذہب ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۲۷۸)۔
۵۹۳ھ میں ابن عربی پھر ایک بار فاس میں تھے ، جہاں پر ایک کشف میں آپ کا روحانی درجہ دکھایا گیا ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مسجد الازہر میں، جو عین الجبل کے پہلو میں واقع ہے ، آپ نے عصر کی نماز کے دوران ایک نور کو دیکھا ، جو ہر چیز کو منور کر رہا تھا ، جو آپ کے سامنے تھی ، جب کہ آپ یہ تمیز بالکل کھو بیٹھے تھے کہ آگے کیا ہے اور پیچھے کیا۔ اور آپ کشف میں جہتوں میں فرق نہ کر سکتے تھے ، بلکہ ایک گلوب کی طرح تھے اور جہتوں کو صرف ایک مفروضے کے طور پر نہ کہ حقیقی رنگ میں تصور کر سکتے تھے ۔ اس قسم کا تجربہ آپ کو پہلے بھی ہو چکا تھا ، مگر اس کی کیفیت ایسی تھی کہ آپ کو صرف سامنے کی چیزیں دکھائی دیتی تھیں، جب کہ اس کشف نے ہر طرف کی چیزوں کو ظاہر و باہر کر دیا تھا ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۴۸۶)۔
ابن عربی ایک مصفہ شیشہ کی طرح تھے ، جس میں ہر چیز کا عکس پڑتا تھا اور وہ پوشیدہ ترین حقیقتوں کو جان جاتے تھے ۔ آپ کو کشف میں قطب المتوکلین دکھائے گئے ، جو آپ کے استاد ابو محمد عبدا ᅨ الموروری تھے ۔آپ نے کشف میں دیکھا کہ توکل کا سارا اسٹیشن ایک چکی کی طرح آپ کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ابن عربی نے ان سے ملاقات ہونے پر انہیں اس بارہ میں بتایا ، تو وہ مسکرائے اور اᅨ کا شکر ادا کیا ۔ اسی طرح ابن عربی لکھتے ہیں کہ انہیں اپنے وقت کے قطب الزمان سے بھی ملنے کی سعادت ملی۔ یہ واقعہ ۵۹۳ھ میں فاس میں پیش آیا، جب اہل الطریق ابن الحیوان کے باغ میں جمع ہوتے تھے اور ان میں الاشعل القبائیلی بھی تھے ، جو بجایہ کے رہنے والے تھے اور ان کا ایک ہاتھ شل تھا ۔ وہ ہر ملاقات پر صرف قرآن کے بارے میں بات کرتے تھے ۔ اور کسی کو ان کے مقام کا علم نہ تھا ۔ باتوں باتوں میں اقطاب کا ذکر ہونے لگا ۔ ابن عربی نے کہا: بھائیو میں تمہیں اپنے وقت کے قطب کے بارے میں بتاᄊں اور اس شخص کی طرف رخ موڑا ، جس کے قطب الوقت ہونے کے بارے میں انہیں اᅨ نے خواب میں اطلاع دی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ بات بیان کرو، جو اᅨ نے تمہیں بتائی ہے ، مگر اس کا نام نہ لینا۔ جب مجلس ختم ہوئی ، تووہ آپ کے پاس آیا اور اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ ابن عربی نے اس کا راز نہ کھولا تھا ۔ پھر اس نے کہا کہ اب جب کہ تمہیں اس بات کا پتہ ہے ، اس لئے میرا یہاں پر ٹہرنا درست نہیں ہے ۔ اس کے بعد ابن عربی کی اس کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۷۶۔ روح القدس میں ان پر علیحدہ باب موجود ہے)۔
۵۹۳ھ میں فاس کے مقام پر آپ پر خاتم الاولیاءکی حقیقت کھولی گئی۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد سوم۔ ص ۵۱۴)۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جلد بعد وطن جانا پڑا ، جس کا سبب شاید یہ ہو کہ آپ کے والد کی وفات کے بعد، جو غالباً ۵۹۱ھ کے لگ بھگ ہوئی تھی، آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی۔ چنانچہ جب سے آپ کے خاندان نے آبائی وطن مرسیہ کو چھوڑا تھا ، آپ پہلی بار وہاں پر لوٹ کر گئے ، جس کا مقصد وہاں کی جائیداد کو ٹھکانے لگانا ہو سکتا ہے۔ البتہ رستے میں آپ نے مریہ کے مقام پر ، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لئے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا ، اپنی کتاب مواقع النجومصرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔(فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۳۳۴)۔ یہ ۵۹۵ھ کی بات ہے ، جس سال مرسیہ کے مقام پر آپ کے دل میں اᅨ کی طرف سے یہ بات ڈالی گئی کہ میرے بندوں کو اس کرم کے بارے میں بتاᄊ ، جو میں نے تم پر کیا ہے۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۷۰۸)۔
الدرۃ الفاخرہ میں شیخ صالح العدوی کی سوانح حیات میں ابن عربی لکھتے ہیں کہ شیخ نے آپ سے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا، جن کی ابھی شادی نہ ہوئی تھی۔ آپ نے بتایا کہ بڑی کی منگنی امیر ابو الاعلیٰ بن غاذون کے ساتھ ہو چکی ہے ۔ مگر شیخ نے کہا کہ امیر اور ابن عربی کے والد دونوں اس شادی سے پہلے وفات پا جائیںگے اور ماں اور دونوں بہنوں کی کفالت ان کے کندھوں پر آن پڑے گی۔ چنانچہ یہی ہوا اور ہر طرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں۔ بلکہ خود امیر المᄊمنین کی طرف سے آپ کو یہی پیغام ملا ، جس کے لانے والے قاضی القضاۃ یعقوب ابو القاسم بن تقی تھے ، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ کو امیر المᄊمنین کی خدمت میں حاضر ہونے کو کہا گیا ۔ امیر نے آپ کی بہنوں کے بارے میں پوچھا اور مناسب رشتہ تلاش کر کے خود ان کی شادی کرنے کی پیشکش کی، مگر ابن عربی نے کہا کہ وہ یہ کام اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔ امیر نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ غالباً اس طرح وہ ابن عربی کے والد کی خدمات کا صلہ دینا چاہتے تھے۔ جب ابن عربی نے بات کو ماننے سے انکار کر دیا ، تو امیر المᄊمنین نے انہیں سوچ کر جواب دینے کو کہا اور اپنے دربان کو ہدایت کی کی جب ان کی طرف سے جواب آئے ، تو خواہ دن ہو یا رات ، اس کی اطلاع انہیں فوراً کر دی جائے۔ ابن عربی وہاں سے رخصت ہو کرگھر لوٹے ، تو امیر کا ایلچی امیر کا پیغام لے کر پہنچ گیا ، جس میں امیر نے اپنی پیشکش کو دوہرایا تھا ۔ آپ نے ایلچی کا شکریہ ادا کیا اور اسی روز اپنے خاندان سمیت فاس کے لئے روانہ ہو گئے۔ دونوں بہنوں کی شادی آپ نے وہاں پر کر دی اور اس طرف سے فارغ ہو کر اپنی دیرینہ خواہش مکہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے ۔ آپ کی والدہ کا غالباً انہی دنوں میں انتقال ہوا ، کیونکہ آپ لکھتے ہیں کہ انہوں نے بیوگی کے سات سال دیکھے۔ آپ کا ارادہ عرصہ سے مشرق کی طرف کوچ کر جانے کا تھا ، مگر ماں اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس کو ملتوی کرتے رہے ۔ مغرب آپ جیسے عبقری انسان کے لئے بہت محدود تھا ۔ اور آپ کو نظر آ رہا تھا کہ جب تک آپکی پذیرائی مشرق میں نہیں ہو گی ، اس وقت تک آپکا مشن دنیائے اسلام کے اندر نہ پھیل سکے گا۔
مغرب میں یوں بھی صوفیا کے خلاف بہت کچھ زہر پھیل چکا تھا ۔ ان کے سیاسیات میں حصہ لینے کے نتیجے میں حکومتیں ان کا قلع قمع کرنے کو پھرتی تھیں۔ ابن عربی نے اشبیلیہ کو جس طر ح خاموشی کے ساتھ چھوڑا تھا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے ساتھ تعلق توڑ چکے تھے۔ ایک اور واقعہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ روح القدس میں ابو محمد عبد اᅨ بن ابراہیم الملقی الفخار کے تذکرہ میں آپ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک بار سلطان ابو العلی نے آپ کے لئے اور آپ کے ساتھیوں کے لئے دو روز تک کھانا بھجوایا تھا ، جس میں آپ نے کچھ نہ کھایا۔ بلکہ جب پوچھا گیا ، تو کہا کہ آپ اس کھانے کو جائز نہیں سمجھتے ، کیونکہ وہ حرام کا کھانا ہے ۔ یہ بات مقامی لوگوں نے بہت سنگین جانی اور صوفیا کو خطرہ پیدا ہوا کہ شاید سلطان ان کے خلاف کوئی اقدام اٹھائے گا۔ بعد میں آپ کو ابن الطریف نے کہا کہ ایسا سخت رد عمل نہ دکھایا جاتا ، تو بہتر ہوتا۔ آپ نے جواب دیا کہ یہ بات اتنی دیر تک ممکن ہے ، جب تک انسان کا راس المال یعنی دین محفوظ رہے ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۵۴۰)۔
قربت الٰہی کا مقام آپ کو ۵۹۷ھ کے ماہ محرم میں ایک سفر کے دوران ملا۔ جہاں ایک طرف آپ کو اس انعام کی خوشی تھی ، وہاں پر دوسری طرف آپ اس مقام میں اپنی تنہائی کو دیکھ کر ڈر گئے ۔ آپ کو یاد آیا کہ ابو یزید اس مقام میں مسکینی اور فقر کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور کسی کو وہاں پر نہ پایا تھا ۔ آپ نے سوچا کہ اس مقام کو اپنا وطن بنانا ہے ، تو وحشت کیسی ۔ آخر وطن کے ساتھ ہر کسی کو محبت ہوتی ہے اور وحشت تو بے وطنی سے مخصوص ہے ۔ " جب میں اس مقام میں داخل ہو گیا، تب میں نے اس کے پہلوᄊں اور مخصوصیات کی دریافت شروع کی۔ اور اگرچہ میں اس میں تھا اور اᅨ کے اس سے مخصوص کردہ انعامات کو دیکھتا تھا ، مجھے پتا نہیں تھا کہ اس مقام کا نام کیا ہے ۔ میں حق تعالیٰ کے اوامر کو اپنے پر تواتر سے نازل ہوتے ہوئے اور اس کے سفیروں کو اترتے اور مجھ سے مᄊانست کرتے ہوئے دیکھتا تھا " ۔ آپ اس حیرت کے عالم میں تھے کہ آپ کی ملاقات آنحال کے مقام پر ایک صوفی سے ہوئی اور آپ نے عصر کی نماز جامع مسجد میں پڑھی۔ جہاں پر امیر ابو یحییٰ بن واجتن آن نکلے ، جن کے ساتھ آپ کی دوستی تھی۔ انہوں نے آپ کو اپنے ہاں ٹہرنے کی دعوت دی۔ مگر آپ ان کے کاتب (سیکرٹری) کے ہاں ٹہرے ، جن کے ساتھ آپ کو مᄊانست تھی۔ آپ نے ان کے سامنے اپنے اکلاپے کی شکایت کی ایک ایسے مقام پر ہوتے ہوئے ، جس میں آپ بہت خوش تھے ۔ اور جب کہ وہ آپ کی ڈہارس بندھا رہے تھے ، آپ نے ایک شخص کا سایہ دیکھا اور آپ اس کی طرف اٹھے کہ شاید آپ کو اس کے ذریعے مسرت ملے ۔ اس نے آپ سے معانقہ کیا۔ آپ نے غور سے دیکھا کہ وہ ابو عبد الرحمن السلمی تھے ، جن کی روح کو جسم دے کر اᅨ نے آپ پر ترس کھاتے ہوئے آپ کی طرف بھیجا تھا ۔" میں نے کہاکہ میں آپ کو اس مقام میں دیکھ رہا ہوں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے یہ مقام پایا اور اسی میں میری موت ہوئی۔ میں اس میں ہوں اور اس میں رہوں گا ۔ میں نے ان سے اس میں اپنی سراسیمگی اور دوستوں کی عدم موجودگی کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اجنبی پریشان ہو جاتا ہے ۔ اب جب کہ اس مقام کو پانے میں تم پر عنایت الٰہی ہو چکی ہے ، تمہیں اᅨ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ اور میرے بھائی کس کو بھلا یہ مقام ملتا ہے ۔ کیا تمہیں یہ بات نہیں بھاتی کہ اس مقام میں خضرؑتمہارے ساتھی ہوں" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم۔ ص ۱۶۱)
ابن عربی عرش الٰہی کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے ایک کشف کا حال بیان کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں آپ کی زندگی کا ایک نیا ورق الٹا گیا ۔ " جان لو کہ اᅨ نے عرش کو نورانی ستونوں پر، جن کی ماہیت کو میں نہیں جانتا ، کھڑا کیا ہے ۔ البتہ میں نے ان کو دیکھا ہے ۔ اور ان کا نور بجلی سے مشابہ ہے ۔ اور ساتھ ہی میں نے اس کا سایہ دیکھا ، جس میں بے مقدار راحت ہے ۔ اور وہ سایہ اس عرش کے مقعر کا سایہ ہے ، جو اس پر مستویٰ کے نور، یہی الرحمن ہے ، کو چھپاتا ہے ۔ او رمیں نے ایک خزانہ کو عرش کے نیچے دیکھا ، جس میں سے یہ الفاظ نکلے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باᅨ العلی العظیم ۔ اور یہ خزانہ آدم تھے ، جن پر اᅨ کی صلوات ہوں ۔ اور میں نے اس کے نیچے بہت سے دوسرے خزانے دیکھے ، جن کو میں پہچانتا تھا ۔ اور میں نے خوبصورت پرندوں کو اس کے اطراف میں اڑتے ہوئے دیکھا ۔ اس کے خوبصورت ترین پرندوں میں سے ایک کو میں نے دیکھا۔ اس نے مجھے سلام کیا ، جس سے مجھے کہا گیا کہ اس کو اپنا ساتھی بنا کر مشرقی ممالک کو جاᄊں۔ جب مجھ پر یہ ساری بات کھولی گئی ، اس وقت میں مراکش کے شہر میں تھا ۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ کہا گیا کہ اس کا نام محمد الحصار ہے اور وہ فاس شہر میں ہے ۔ اس نے اᅨ سے مشرقی بلاد کے سفر کی درخواست کی تھی ۔ اس کو اپنے ساتھ لے جاᄊ۔ میں نے کہا۔ حکم سر آنکھوں پر۔ میں نے اس سے کہا کہ اᅨ نے چاہا تو عین وہی پرندہ میرا ساتھی ہو گا ۔ جب میں فاس شہر میں آیا ، تو میں نے اس کے بارے میں پوچھ بھیجا ۔ وہ میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس نے اᅨ سے کسی چیز کے بارے میں درخواست کر رکھی تھی۔ اس نے کہا ۔ ہاں میں نے کہا تھا کہ مجھے بلاد شرق میں پہنچایا جائے ۔ اس پر مجھے کہا گیا کہ فلاں شخص تمہیں ساتھ لے جائے گا اور میں تمہارا اس وقت سے انتظار کر رہا تھا ۔ میں نے اس کو ۵۹۷ھ میں اپنا ساتھی بنایا اور اسے دیار مصر تک لے کر گیا ، جہاں پر اس نے وفات پائی۔ اᅨ اس پر رحم کرے " ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد دوم ۔ ص ۴۳۶)
۵۹۷ھ کے ماہ رمضان میں ابن عربی اپنے ساتھی محمد الحصار کی معیت میں بجایہ میں داخل ہوئے ۔ اسی سال آپ کے شیخ ابو النجاءالمعروف بہ ابن مدین نے ، جو اس شہر کے باسی تھے ، وفات پائی ۔ عنوان الدرایہ میں ابن عربی کے اپنے الفاظ میں ایک خواب کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ "میں نے ایک رات دیکھا کہ میں نے آسمان کے تمام نجوم کے ساتھ نکاح کیا ہے اور ان میں سے کوئی ستارہ باقی نہ بچا ، جس کے ساتھ میں نے بے حد لذت روحانی کے ساتھ نکاح نہ کیا ہو ۔ جب میں اس سے فارغ ہوا ، تو مجھے حروف عطا کئے گئے ، ان کے ساتھ بھی میں نے نکاح کیا ۔ میں نے اپنی یہ رویاءایک شخص کو سنائی ، جس نے اس کو ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کیا ، جو رویاءشناس اور ان کی تعبیر کا ماہر تھا۔ اور میں نے اس شخص سے کہہ دیا تھا ، جس نے رویاءکو پیش کرنا تھا کہ میرا ذکر نہ کرے۔ جب اس نے رویاءکو پیش کیا ، تو وہ بہت مرعوب ہوا ۔ اس نے کہا کہ یہ ایسا سمندر ہے ، جس کی گہرائی کو کوئی نہیں جان سکتا ۔ اس رویاءکے دیکھنے والے پر اوپر کے علوم کھولے گئے ہیں اور علوم اسرار اور ستاروں کے خواص۔ جس میں اس کے زمانے کا کوئی شخص شریک نہیں ہے ۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے چپ رہا ۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ شخص اس شہر میں ہے ، تو وہ نوجوان اندلسی ہی ہو سکتا ہے ۔ جو یہاں پر آیا ہے " ۔ (بحوالہ فتوحات مکیہ۔ جلد چہارم۔ ص ۵۵۹۔ سوانح حیات)
بجایہ سے آپ ۵۹۸ھ کو تونس پہنچے، جہاں پر آپ اپنے دوست ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ہاں ٹہرے۔ وہاں پر آپ نے آٹھ سال پہلے اپنے قیام کے دوران دوست کی فرمائش پر اپنی کتاب روح القدسرقم کی تھی ۔ اس دفعہ بھی آپ نے وہاں پر ایک کتاب انشاءالدوایرلکھنی شروع کی ، جو آگے سفر پر روانہ ہو جانے کے سبب مکمل نہ کی جا سکی۔ اس کی تکمیل بعد میں مکہ میں ہوئی ۔ تونس کی یادگار ایک اور واقعہ ہے ، جس کا تعلق آپ کی روحانی ترقی سے ہے ۔ آپ لکھتے ہیں ۔ " جب میں اس منزل ( منزل زمین کشادہ) میں داخل ہوا ، تو میں اس وقت تونس میں تھا ۔ مجھ سے ایسی چیخ نکلی ، جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ مجھ پر یہ امر وقوع میں آیا تھا، سوائے اس کے کہ جس کسی نے وہ چیخ مجھ سے سنی ، وہ سب گر کر بیہوش ہو گئے اور پڑوس کی عورتیں ، جو چھت کی سطح پر سے ہم کو دیکھ رہی تھیں، ان میں سے بعض گھر کے صحن میں گر گئیںاور باوجود بلندی کے ان میں سے کسی کو کوئی گزند نہیں پہونچا۔ ان سب سے پہلے جو ہوش میں آیا ، وہ میں ہی تھا ۔ اس وقت ہم ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔ وہاں پر جس کسی کو میں نے دیکھا ، وہ سب بیہوش تھے ۔ کچھ دیر کے بعد وہ ہوش میں آئے ، تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں کو کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو کیا ہوا تھا کہ آپ نے ایک ایسی چیخ ماری ، جس کا اثر آپ اس جماعت میں دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے کہا۔ خدا کی قسم مجھے اس بات کا کچھ پتہ نہیں ہے کہ میں نے ایسی چیخ ماری تھی" ۔ (فتوحات مکیہ۔ جلد اول۔ ص ۱۷۳)