طارق شاہ
محفلین
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے کوئی بہانہ ہو
میرے عزیز مجھ کو نہ چھوڑیں گے قبر تک
اے جان! اِنتظار نہ کر، توُ رَوانہ ہو
کعبے کو جارہا ہُوں نِگہ سُوئے دیر ہے
ہِر پِھر کے دیکھتا ہُوں کوئی دیکھتا نہ ہو
ہاں اے حفِیظ چھیڑتا جا نغمۂ حیات
جب تک تِرا ربابِ سُخن بے صدا نہ ہو
ابوالاثرحفیظ جالندھری
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے کوئی بہانہ ہو
میرے عزیز مجھ کو نہ چھوڑیں گے قبر تک
اے جان! اِنتظار نہ کر، توُ رَوانہ ہو
کعبے کو جارہا ہُوں نِگہ سُوئے دیر ہے
ہِر پِھر کے دیکھتا ہُوں کوئی دیکھتا نہ ہو
ہاں اے حفِیظ چھیڑتا جا نغمۂ حیات
جب تک تِرا ربابِ سُخن بے صدا نہ ہو
ابوالاثرحفیظ جالندھری