Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
ہم نے اس خبر کے حوالے سے مختلف رپورٹس ديکھی ہیں۔ اے – سی – ايل – يو کی جانب سے جن تصويروں کے حوالے سے قانونی چارہ گوئ کی گئ ہے ميں ان کی نوعيت يا کيٹگری بيان کرنے کی کوشش نہيں کروں گا۔
اس آرٹيکل ميں جو منظر بيان کيا گيا ہے وہ ان ميں سے کسی بھی تصوير ميں موجود نہيں ہے۔
ميں آپ کی توجہ اس جانب دلوانا چاہتا ہوں کہ اس کالم میں جو ريفرنس اور جن افراد کے بيان پيش کيے گئے ہيں وہ صرف تصوير کا ايک رخ ہيں۔
مثال کے طور پر اس آرٹيکل ميں ايک صحافی سکارٹ ہارٹن اور ڈيلی بيسٹ نامی ويب سائٹ کا حوالہ ديا گيا ہے ليکن اسی صحافی کی جانب سے ترديد اور اپ ڈيٹ کو نظرانداز کر ديا گيا۔
http://www.thedailybeast.com/blogs-and-stories/2009-05-29/torture-photos-depict-sex-rape/
اس ميں واضح لکھا ہے کہ
"اپ ڈيٹ اور ترديد – جمعہ کے روز ميری کہانی پوسٹ ہونے کے بعد سالون نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ جن تصويروں پر ميری کہانی کا فوکس تھا، وہ تصاوير سالون سال 2006 ميں چھاپ چکا ہے۔ جو 44 تصاوير اے – سی – ايل – يو کی قانون چارہ جوئ کی بنياد ہيں اور جن پر صدر اوبامہ نے نظر ثانی کی ہے، وہ جنسی نوعيت کی نہيں ہيں۔"
اسی طرح اس آرٹيکل ميں ريٹائرڈ آرمی ميجر جرنل انتونيوتاغوبا کے ايک بيان اور سالون نامی رسالے کی ايک رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے ليکن انھی فوجی افسر کا اسی رسالے کی ويب سائٹ پر ترديدی بيان يکسر نظرانداز کر ديا گيا۔
http://www.salon.com/news/feature/2009/05/30/taguba/index.html
" ريٹائرڈ آرمی ميجر جرنل انتونيوتاغوبا نے ان خبروں کی ترديد کی ہے انھوں نے وہ تصاوير ديکھی ہيں جنھيں صدر اوبامہ ريليز کرنے کی مخالفت کر رہے ہيں۔"
يہ واضح ہے کہ يہ آرٹیکل حقائق پر مبنی نہيں ہے۔
آخر ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قيدی کے ساتھ ناروا سلوک قابل قبول نہيں ہے۔ يہ رويہ امريکی اقدار کی عکاسی نہيں کرتا اور ہمارے ليے خطرات ميں بھی اضافہ کرتا ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہيں کيا جا سکتا۔ جن تصاوير کا ذکر کيا جا رہا ہے وہ قيديوں کے ساتھ ممکنہ بدسلوکی کے واقعے کے ضمن ميں ايک قانونی اور تفتيشی عمل کا حصہ تھيں۔
بدسلوکی کے ضمن ميں تمام الزامات کی مکمل تحقيق کی جاتی ہے اور ملوث افراد کو اپنے کيے کی سزا ملتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov