ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا ۔۔ برائے اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ عرصے تک خاموشی کے بعد اب پہلی غزل کہہ رہا ہوں۔ شاعری کے کافی اصول بھول چکا ہوں۔ آپ کی رائے کا طالب ہوں:

ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا
میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا

بس ایک تیری تمنا رہی مرے دل میں
میں اپنے قلب کی سب خواہشیں نکال آیا

نظر کے زاویے بدلے ہوئے سے لگنے لگے
مری نگاہ میں اک صاحبِ جمال آیا

غرورِ حسن کی رعنائیاں نہیں مجھ میں
میں پائمال ہی نکلا سو پائمال آیا

قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا

مجھے نظر میں کوئی قید کیسے کر لیتا؟
الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا

نظر میں آکے ہے ٹھہرا محال اس کا وجود
تمہارے آئینہ ِ قلب میں جو بال آیا

حیات بھی تو معمہ بنی رہی شاہد
قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا

برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
 
کچھ عرصے تک خاموشی کے بعد اب پہلی غزل کہہ رہا ہوں۔ شاعری کے کافی اصول بھول چکا ہوں۔ آپ کی رائے کا طالب ہوں:

ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا
میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا

بس ایک تیری تمنا رہی مرے دل میں
میں اپنے قلب کی سب خواہشیں نکال آیا

نظر کے زاویے بدلے ہوئے سے لگنے لگے
مری نگاہ میں اک صاحبِ جمال آیا

غرورِ حسن کی رعنائیاں نہیں مجھ میں
میں پائمال ہی نکلا سو پائمال آیا

قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا

مجھے نظر میں کوئی قید کیسے کر لیتا؟
الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا

نظر میں آکے ہے ٹھہرا محال اس کا وجود
تمہارے آئینہ ِ قلب میں جو بال آیا

حیات بھی تو معمہ بنی رہی شاہد
قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا

برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔

اچھی کوشش ہے۔ شاہد شاہ نواز اب ایسے نوآموز بھی نہیں۔ تاہم میں مشورہ دوں گا کہ اس کا پہلے تو خود ایک بار جائزہ لیں اور کڑا جائزہ لیں (جیسے یہ ان کے کسی حریف کا کلام رہا ہو :bee:)۔ اور اپنے لکھے میں ترامیم کرنے سے کبھی نہ کترائیں۔
 
آخری تدوین:
خوبصورت کاوش

اس کی کچھ تشریح کریں آپ کا کیا مطلب ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آیا میں نے درست سمجھا ہے یا نہیں!

یوں نہیں صاحب! اگر آپ یہ فرما دیتے کہ آپ کیا سمجھے ہیں تو بات کرنا آسان ہو جاتا۔
شاعر سے اس کے شعر کی تشریح طلب کرنا ویسے بھی بہت اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شعر کی دو تین پرتیں ہوتی ہیں، اور عین ممکن ہے کہ شاعر کے اپنے ذہن میں ان میں سے صرف ایک پرت ہو۔ قاری بھی تو اپنا حصہ ڈالے، نا! کیا خیال ہے؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
خوبصورت کاوش

اس کی کچھ تشریح کریں آپ کا کیا مطلب ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آیا میں نے درست سمجھا ہے یا نہیں!
آپ کیا سمجھے ؟
ہو سکتا ہے جو مطلب آپ نے لیا وہ میرے بیان کیے گئے جواب سے زیادہ قابل فہم اور اہم ہو کیونکہ شاعر محض شعر کہتا ہے
وہ کیسے شعر کہتا ہے اس پر پڑھنے والوں اور خصوصا ناقدین کی رائے زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
بہت بہتر کہی ہے غزل۔
کچھ سوال ضرور اٹھاتی ہے غزل۔

میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا
۔۔تمنائیں اچھالنا؟

الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا
لگتا ہے برائے قافیہ کہا گیا ہے شعر!

قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا
خال خال آنا عجیب محاورہ ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اچھی کوشش ہے۔ شاہد شاہ نواز اب ایسے نوآموز بھی نہیں۔ تاہم میں مشورہ دوں گا کہ اس کا پہلے تو خود ایک بار جائزہ لیں اور کڑا جائزہ لیں (جیسے یہ ان کے کسی حریف کا کلام رہا ہو :bee:)۔ اور اپنے لکھے میں ترامیم کرنے سے کبھی نہ کترائیں۔
کوشش کرتا ہوں آپ اس پر بھی تنقید فرمائیے گا
ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا
میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا
÷÷کیا یہاں مطلع دولخت ہوا ۔۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا
بس ایک تیری تمنا رہی مرے دل میں
میں اپنے قلب کی سب خواہشیں نکال آیا
÷÷یہ کم و بیش وہی بات ہے جو مطلعے میں کہی گئی، حذف کریں تو فرق نہیں پڑتا
نظر کے زاویے بدلے ہوئے سے لگنے لگے
مری نگاہ میں اک صاحبِ جمال آیا
÷÷ کیا جو جملہ اس شعر میں ترتیب پاتا ہے وہ بے ربط نہیں
غرورِ حسن کی رعنائیاں نہیں مجھ میں
میں پائمال ہی نکلا سو پائمال آیا
÷÷حسن اور رعنائی ایک ہی بات ہے لیکن غرور حسین ہوتا ہے؟
قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا
مجھے نظر میں کوئی قید کیسے کر لیتا؟
الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا
نظر میں آکے ہے ٹھہرا محال اس کا وجود
تمہارے آئینہ ِ قلب میں جو بال آیا
@÷بظاہر کوئی الجھن نہیں۔۔ ٹھیک ؟
حیات بھی تو معمہ بنی رہی شاہد
قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا
÷÷حیات بھی کچھ عجیب لگتا ہے۔ یہ زندگی تو معمہ بنی رہی شاہد÷ کرسکتے ہیں؟

برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
بہت مشکل ہے

کہ میری تنقید درست ہو
الجھن ہے
توجہ فرمائیے گا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت بہتر کہی ہے غزل۔
کچھ سوال ضرور اٹھاتی ہے غزل۔
میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا
۔۔تمنائیں اچھالنا؟

الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا
لگتا ہے برائے قافیہ کہا گیا ہے شعر!

قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا
خال خال آنا عجیب محاورہ ہے
تمنائیں اچھالنا اور خال خال آنا نئے محاورے محسوس ہوتے ہیں تاہم کچھ نئی باتیں لکھنے کی کوشش ہی سمجھئے جو پرانے محاوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئی
الجھ کے رہ گیا مجھ میں
شاید قافیہ پیمائی یوں لگے کہ اس میں الفاظ زیادہ آ گئے اور جال کا الجھنا بھی ایک الٹ پھیر ہے کیونکہ جال الجھنے کی بجائے الجھانے کاکام کرتا ہے پھر بھی معنوی اعتبار سے پورے شعر کو دیکھیں تو ٹھیک بھی ہوسکتا ہے
 
کوشش کرتا ہوں آپ اس پر بھی تنقید فرمائیے گا

بہت مشکل ہے

کہ میری تنقید درست ہو
الجھن ہے
توجہ فرمائیے گا
بہت حد تک درست ہے۔ نقد و نظر میں بھی انفرادی رنگ تو ہوتا ہے۔ یہ غزل ہے کس کی؟ (میں لنک کے پیچھے نہیں گیا)۔
 
بہت بہتر کہی ہے غزل۔
کچھ سوال ضرور اٹھاتی ہے غزل۔
تمنائیں اچھالنا اور خال خال آنا نئے محاورے محسوس ہوتے ہیں تاہم کچھ نئی باتیں لکھنے کی کوشش ہی سمجھئے جو پرانے محاوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئی
الجھ کے رہ گیا مجھ میں
شاید قافیہ پیمائی یوں لگے کہ اس میں الفاظ زیادہ آ گئے اور جال کا الجھنا بھی ایک الٹ پھیر ہے کیونکہ جال الجھنے کی بجائے الجھانے کاکام کرتا ہے پھر بھی معنوی اعتبار سے پورے شعر کو دیکھیں تو ٹھیک بھی ہوسکتا ہے

بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب شاعر کو ایسی توجیہات پیش کرنی پڑیں۔ یہاں دو میں سے ایک بات یقیناً ہوتی ہے: یا تو واقعی شعر میں مسئلہ ہے، یا قاری اتنی جوگا نہیں کہ شعر کی سطح کو پا سکے۔ اس مشکل کا آسان سا حل تو یہ ہے کہ شاعر کو قاری کی جو بات اچھی نہیں لگی اُس سے خوش اسلوبی کے ساتھ صرفِ نظر کر جائے۔ ویسے بھی جب ہم لفظ استعمال کرتے ہیں "برائے اصلاح" تو ہم بحث کے حق سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ ماننا یا نہ ماننا بہر طور ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ اصلاح کے عمل میں شاعر کی طرف سے شعر کی "وضاحت" کوئی شے نہیں، شعر کو خود اپنی وضاحت کرنی چاہئے، اور جو قاری اس تک نہیں پہنچ پاتا اسے خاموشی اختیار کرنا یا معذرت کر لینا بہتر۔

ہاں! جب میں اپنا شعر نقد و نظر کے لئے پیش کرتا ہوں تو اصولی طور پر اُس کے دفاع کے حق سے بھی دست بردار ہو جاتا ہوں۔ قاری اور ناقد جو کچھ بھی کہے مجھے سننا ہو گا۔ رد و قبول کا اختیار بہر طور (اس شعر کا شاعر ہونے کے ناطے) میرا ہے۔ بہ این ہمہ خوش اسلوبی مجھ پر لازم ہے۔

اس فقیر کی گزارشات اچھی لگی ہوں تو قبول فرمائیے گا، اچھی نہ لگی ہوں تو بلاتامل نظر انداز کر دیجئے گا۔ دلیل اور رد دلیل کا کچھ حاصل بھی ہو، ضروری نہیں۔ حسبِ معمول دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
یوں نہیں صاحب! اگر آپ یہ فرما دیتے کہ آپ کیا سمجھے ہیں تو بات کرنا آسان ہو جاتا۔
شعر مذکورہ:
قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب میں نے اس شعر کا اول مصرع پڑھا تو میرے ذہن میں یوں خاکہ بنا کہ کتابَ ہستی میں قدم قدم پہ الجھنیں ہیں۔۔۔
لیکن جوں ہی ورق الٹا، تو میں نے ان اُلجھنوں کو سلجھا ہوا پایا۔۔۔ یعنی ٹینشن ناٹ، رب کریم اپنے بندوں کی آسانی کا خیال رکھتا ہے۔۔۔
یہ خاکہ محض میرے ذاتی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، یعنی میں نے پہلا مصرع پڑھ کر شعر کو ایسامکمل کیا تھا۔
بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شعر کی دو تین پرتیں ہوتی ہیں
ایک پرت تو یہ رہی جو اوپر بیان ہوئی، جو شعر میں موجود ہی نہیں، دوسرا اب سیدھی سی بات ہے، کیوں کہ شاعر گرامی قدر نے ورق الٹ کے دیکھنے پر کتابِ ہستی کی الجھن بڑھنے کی نشاندہی کی ہے، تو شاعر اپنی زندگی کی مشکلات کا تذکرہ کررہا ہے۔
ہاں یاد آیا، شکر خدا کا، (دراصل میں اصل بات بھول گیا تھا جو شعر کے مطلب پر مجھے کہنی تھی)
آپ ایک مرتبہ پھر شعر کو پڑھیں، یوں کہ پہلا مصرع سمجھنے کے بعد دوسرے پر جائیں، جب قدم قدم پر مشکلات ہی ہیں، تو پھر ورق الٹنے پر نیا سوال آنے کا تذکرہ بھی تو پہلے مصرع ہی کا حصہ ہوگیا نا!
مثلا یوں سمجھیں
"مجھے ہر ہر سیکنڈ ٹھوکر لگ رہی تھی، پھر میں نے قدم بڑھایا تو پھر ایک ٹھوکر لگی۔"
جب ہر سیکنڈ پر ٹھوکر لگ ہی رہی ہے تو بعد میں ٹھوکر کا ذکر کرنا معنی آفرینی میں ٹانگ اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ہاں، اگر ورق الٹنے پر سوال کی بجائے جواب ملتا تو۔۔۔۔
بس یہی ایک الجھن تھی جس نے مجھے تبصرہ پر مجبور کیا کہ آیا میں درست سمجھا ہوں یا نہیں۔
بہت اہم نوٹ:
یہ صرف میری رائے ہے۔:D
بس جی بہت لکھ لیا، اب آپ کہیں ہماری دوستانہ رائے کیسی لگی۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شعر مذکورہ:
قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب میں نے اس شعر کا اول مصرع پڑھا تو میرے ذہن میں یوں خاکہ بنا کہ کتابَ ہستی میں قدم قدم پہ الجھنیں ہیں۔۔۔
لیکن جوں ہی ورق الٹا، تو میں نے ان اُلجھنوں کو سلجھا ہوا پایا۔۔۔ یعنی ٹینشن ناٹ، رب کریم اپنے بندوں کی آسانی کا خیال رکھتا ہے۔۔۔
یہ خاکہ محض میرے ذاتی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، یعنی میں نے پہلا مصرع پڑھ کر شعر کو ایسامکمل کیا تھا۔

ایک پرت تو یہ رہی جو اوپر بیان ہوئی، جو شعر میں موجود ہی نہیں، دوسرا اب سیدھی سی بات ہے، کیوں کہ شاعر گرامی قدر نے ورق الٹ کے دیکھنے پر کتابِ ہستی کی الجھن بڑھنے کی نشاندہی کی ہے، تو شاعر اپنی زندگی کی مشکلات کا تذکرہ کررہا ہے۔
ہاں یاد آیا، شکر خدا کا، (دراصل میں اصل بات بھول گیا تھا جو شعر کے مطلب پر مجھے کہنی تھی)
آپ ایک مرتبہ پھر شعر کو پڑھیں، یوں کہ پہلا مصرع سمجھنے کے بعد دوسرے پر جائیں، جب قدم قدم پر مشکلات ہی ہیں، تو پھر ورق الٹنے پر نیا سوال آنے کا تذکرہ بھی تو پہلے مصرع ہی کا حصہ ہوگیا نا!
مثلا یوں سمجھیں
"مجھے ہر ہر سیکنڈ ٹھوکر لگ رہی تھی، پھر میں نے قدم بڑھایا تو پھر ایک ٹھوکر لگی۔"
جب ہر سیکنڈ پر ٹھوکر لگ ہی رہی ہے تو بعد میں ٹھوکر کا ذکر کرنا معنی آفرینی میں ٹانگ اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ہاں، اگر ورق الٹنے پر سوال کی بجائے جواب ملتا تو۔۔۔۔
بس یہی ایک الجھن تھی جس نے مجھے تبصرہ پر مجبور کیا کہ آیا میں درست سمجھا ہوں یا نہیں۔
بہت اہم نوٹ:
یہ صرف میری رائے ہے۔:D
بس جی بہت لکھ لیا، اب آپ کہیں ہماری دوستانہ رائے کیسی لگی۔۔۔
اچھی لگی۔ جو پہلا مطلب آپ نے بیان کیا وہ میرے ذہن میں نہیں تھا۔ یہ اختلاف اپنی جگہ کہ الجھن اور ٹھوکر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ الجھن سلجھائی جاسکتی ہے۔ ٹھوکر سے چوٹ لگتی ہے اور اس کا مندمل ہونا نہ ہونا الجھن سلجھانے سے قدرے مختلف بات ہے۔ ایک مصرعے میں الجھن اور دوسرے میں نئے سوال کا تذکرہ ہے۔ یہاں لفظ الجھن سے کسی قدر منفی تاثر پیدا ہوتا ہے، جبکہ مثبت یا منفی کہنا میرا مقصود نہیں تھا۔ یہ محض ایک بیان ہے کہ کائنات (اندرونی اور بیرونی، دونوں) نت نئے سوالوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ تمام سوالات سلجھا نہیں سکتے کیونکہ زندگی مختصر ہے۔ لہٰذا الجھن آپ کا مقدر ہے۔
بہرحال، آپ نے اتنا غور فرمایا، میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ بہت شکریہ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب شاعر کو ایسی توجیہات پیش کرنی پڑیں۔ یہاں دو میں سے ایک بات یقیناً ہوتی ہے: یا تو واقعی شعر میں مسئلہ ہے، یا قاری اتنی جوگا نہیں کہ شعر کی سطح کو پا سکے۔ اس مشکل کا آسان سا حل تو یہ ہے کہ شاعر کو قاری کی جو بات اچھی نہیں لگی اُس سے خوش اسلوبی کے ساتھ صرفِ نظر کر جائے۔ ویسے بھی جب ہم لفظ استعمال کرتے ہیں "برائے اصلاح" تو ہم بحث کے حق سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ ماننا یا نہ ماننا بہر طور ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ اصلاح کے عمل میں شاعر کی طرف سے شعر کی "وضاحت" کوئی شے نہیں، شعر کو خود اپنی وضاحت کرنی چاہئے، اور جو قاری اس تک نہیں پہنچ پاتا اسے خاموشی اختیار کرنا یا معذرت کر لینا بہتر۔

ہاں! جب میں اپنا شعر نقد و نظر کے لئے پیش کرتا ہوں تو اصولی طور پر اُس کے دفاع کے حق سے بھی دست بردار ہو جاتا ہوں۔ قاری اور ناقد جو کچھ بھی کہے مجھے سننا ہو گا۔ رد و قبول کا اختیار بہر طور (اس شعر کا شاعر ہونے کے ناطے) میرا ہے۔ بہ این ہمہ خوش اسلوبی مجھ پر لازم ہے۔

اس فقیر کی گزارشات اچھی لگی ہوں تو قبول فرمائیے گا، اچھی نہ لگی ہوں تو بلاتامل نظر انداز کر دیجئے گا۔ دلیل اور رد دلیل کا کچھ حاصل بھی ہو، ضروری نہیں۔ حسبِ معمول دعاؤں کا طالب ہوں۔
میں ہمیشہ دستبردار ہی رہا ہوں لیکن آپ نے مجھے ناقد کی حیثیت دے ڈالی تھی۔ اب اس سے نکلا ہوں تو پتہ چلا کہ دیر ہوچکی۔ معذرت چاہتا ہوں۔
 

عظیم خواجہ

محفلین
کچھ عرصے تک خاموشی کے بعد اب پہلی غزل کہہ رہا ہوں۔ شاعری کے کافی اصول بھول چکا ہوں۔ آپ کی رائے کا طالب ہوں:

ابھی ابھی مرے دل میں ترا خیال آیا
میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا

بس ایک تیری تمنا رہی مرے دل میں
میں اپنے قلب کی سب خواہشیں نکال آیا

نظر کے زاویے بدلے ہوئے سے لگنے لگے
مری نگاہ میں اک صاحبِ جمال آیا

غرورِ حسن کی رعنائیاں نہیں مجھ میں
میں پائمال ہی نکلا سو پائمال آیا

قدم قدم پہ تھی الجھن کتابِ ہستی میں
ورق اُلٹ کے جو دیکھا ، نیا سوال آیا

مجھے نظر میں کوئی قید کیسے کر لیتا؟
الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا

نظر میں آکے ہے ٹھہرا محال اس کا وجود
تمہارے آئینہ ِ قلب میں جو بال آیا

حیات بھی تو معمہ بنی رہی شاہد
قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا

برائے توجہ:
جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
اچھی غزل ہے۔ ماشااللّہ
 
میں ہمیشہ دستبردار ہی رہا ہوں لیکن آپ نے مجھے ناقد کی حیثیت دے ڈالی تھی۔ اب اس سے نکلا ہوں تو پتہ چلا کہ دیر ہوچکی۔ معذرت چاہتا ہوں۔
آپ ناقد ہیں، بالکل ہیں!
وسیع تر معانی میں بات نہ بھی کریں تو ہر قلم کار اپنے کہے کا اولین ناقد خود ہوتا ہے، اور جانتا ہے کہ دوسرا ناقد اس کا قاری ہے۔ دیر آید درست آید۔
بہت شکریہ۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت بہتر کہی ہے غزل۔
کچھ سوال ضرور اٹھاتی ہے غزل۔

میں اپنی ساری تمنائیں خود اچھال آیا
۔۔تمنائیں اچھالنا؟

الجھ کے رہ گیا مجھ میں، جو مجھ پہ جال آیا
لگتا ہے برائے قافیہ کہا گیا ہے شعر!

قدم قدم پہ وہ پایا جو خال خال آیا
خال خال آنا عجیب محاورہ ہے
آپ سے بھی معذرت ۔۔۔ (اس سے پہلے جو عرض کیا، یعنی "میں ہمیشہ دستبردار ہی رہا ہوں لیکن آپ نے مجھے ناقد کی حیثیت دے ڈالی تھی۔ اب اس سے نکلا ہوں تو پتہ چلا کہ دیر ہوچکی۔ معذرت چاہتا ہوں۔"دیکھ لیجئے گا)۔۔۔
 
Top