اسد قریشی
محفلین
اعجاز عبید صاحب اور دیگر احباب، ایک اور تجرباتی غزل لے کر حاضر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برس رہا تھا لہو آنکھوں سے رات مری
نشان وقت کے ایسے نقش رخ پہ مرے
ہمارا ساتھ نبھانے، گام گام چلی
تمہاری یاد بنی اک ابر تر تو اسد
ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھی ہے تھکن
لپٹ کے پیروں سے میرے رو پڑی ہے تھکن
برس رہا تھا لہو آنکھوں سے رات مری
مگر ابھی بھی نجانے جل رہی ہے تھکن
نشان وقت کے ایسے نقش رخ پہ مرے
غم حیات کے جیسے جم گئی ہے تھکن
ہمارا ساتھ نبھانے، گام گام چلی
یہ آگے آگے ہمارے دوڑتی ہے تھکن
تمہاری یاد بنی اک ابر تر تو اسد
سفر میں آنکھ رہی ہے اور نمی ہے تھکن