رحمت اللہ شیخ
محفلین
اس نے جلدی جلدی اپنا موبائل فون اٹھایا اور کانوں میں ہیڈفون لگا کر خارجی دروازے کی طرف چل پڑی۔
"اوہ……! شاید وہ کچھ بھول رہی تھی ۔ وہ واپس مڑی اور دادی ماں کی طرف آنے لگی۔ دادی صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھی ہاتھ میں تسبیح لیے ذکر کرنے میں مصروف تھیں۔
"دادی ماں! میں جارہی ہوں کالج……" اس نے دادی کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر دعا لی اور واپس جانے کے لیے مڑی۔ دادی نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا، اسے بٹھایا اور شفقت سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں:
"سارا! کتنا اچھا ہوگا کہ اگر تم صبح تھوڑی دیر سویرے اٹھ جاؤ اور نماز و تلاوتِ قرآن کے بعد کالج چلی جاؤ۔"
"ہاں دادی کل سے شروع کروں گی" اس نے بیزاری میں جواب دیا "ویسے بھی ابھی میں بوڑھی نہیں ہوئی ہوں… تھوڑی سی زندگی انجواء کرلوں ، پھر جب آپ کی عمر کی ہوجاؤں گی نا تو آپ ہی کی طرح ایک چارپائی پر تسبیح لے کر بیٹھ جاؤں گی اور سارا دن ذکر کیا کروں گی……"
اس نے ہیڈ فون کان میں لگائے اور دروازے کی اور چل پڑی۔ پیچھے سے دادی حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
"کچھ ہی دیر پہلے شہر کے ہائے وے پر کار اور ٹرک کے درمیان ایک زبردست تصادم ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے کار میں موجود دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک لڑکی اور کار ڈرائیور شامل ہیں۔"
نیوز چینلز پر یہ خبر بریکنگ نیوز بنی ہوئی تھی۔ سارا کے گھر میں یہ خبر ایٹم بم بن کر گری۔ پورے گھر میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔ والدین غم سے نڈھال بے اختیار رو رہے تھے۔ بھائیوں کی آنکھیں اپنی اکلوتی بہن کی جدائی میں برس رہی تھیں۔ چارپائی پر بیٹھی دادی اماں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی۔ ہر طرف دکھ درد کا عالم تھا۔ اور اسی عالم میں ایک بےآواز پیغام سب کو جھنجوڑ رہا تھا:
"یاد رکھو! اس دنیا میں آنے کی تو ترتیب ہے لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ موت اچانک تمہیں آلے گی اور تمہیں بلکل بھی مہلت نہیں ملے گی۔ لہٰذا مرنے سے پہلے اپنے لیے کچھ کرلو۔ آج کسی اور کی باری تھی اور کل تمہاری باری ہوگی……"
"اوہ……! شاید وہ کچھ بھول رہی تھی ۔ وہ واپس مڑی اور دادی ماں کی طرف آنے لگی۔ دادی صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھی ہاتھ میں تسبیح لیے ذکر کرنے میں مصروف تھیں۔
"دادی ماں! میں جارہی ہوں کالج……" اس نے دادی کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر دعا لی اور واپس جانے کے لیے مڑی۔ دادی نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا، اسے بٹھایا اور شفقت سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں:
"سارا! کتنا اچھا ہوگا کہ اگر تم صبح تھوڑی دیر سویرے اٹھ جاؤ اور نماز و تلاوتِ قرآن کے بعد کالج چلی جاؤ۔"
"ہاں دادی کل سے شروع کروں گی" اس نے بیزاری میں جواب دیا "ویسے بھی ابھی میں بوڑھی نہیں ہوئی ہوں… تھوڑی سی زندگی انجواء کرلوں ، پھر جب آپ کی عمر کی ہوجاؤں گی نا تو آپ ہی کی طرح ایک چارپائی پر تسبیح لے کر بیٹھ جاؤں گی اور سارا دن ذکر کیا کروں گی……"
اس نے ہیڈ فون کان میں لگائے اور دروازے کی اور چل پڑی۔ پیچھے سے دادی حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
"کچھ ہی دیر پہلے شہر کے ہائے وے پر کار اور ٹرک کے درمیان ایک زبردست تصادم ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے کار میں موجود دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک لڑکی اور کار ڈرائیور شامل ہیں۔"
نیوز چینلز پر یہ خبر بریکنگ نیوز بنی ہوئی تھی۔ سارا کے گھر میں یہ خبر ایٹم بم بن کر گری۔ پورے گھر میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔ والدین غم سے نڈھال بے اختیار رو رہے تھے۔ بھائیوں کی آنکھیں اپنی اکلوتی بہن کی جدائی میں برس رہی تھیں۔ چارپائی پر بیٹھی دادی اماں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی۔ ہر طرف دکھ درد کا عالم تھا۔ اور اسی عالم میں ایک بےآواز پیغام سب کو جھنجوڑ رہا تھا:
"یاد رکھو! اس دنیا میں آنے کی تو ترتیب ہے لیکن جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ موت اچانک تمہیں آلے گی اور تمہیں بلکل بھی مہلت نہیں ملے گی۔ لہٰذا مرنے سے پہلے اپنے لیے کچھ کرلو۔ آج کسی اور کی باری تھی اور کل تمہاری باری ہوگی……"