کاشفی
محفلین
غزل
ابھی تک ہے دھبّہ جبینِ خودی پر
پشیماں ہوں میں سجدہء بندگی پر
تجھی نے تو برباد مجھ کو کیا ہے
ارے رونے والے مری بےکسی پر
مجھے زندگی کی دعا دینے والے
ہنسی آرہی ہے تری سادگی پر
نمی اس میں اشکوں کی شامل ہے زاہد!
مجھے ناز ہے اپنی تردامنی پر
ابھی مجھ کو پینے کا ہے ہوش ساقی!
یہ اک داغ ہے دامنِ بے خودی پر
(گوپال مِتّل - 1935)