شیزان
لائبریرین
ابھی سینے میں دل اور آنکھ میں تصویر زِندہ ہے
کوئی تو خواب ہے، جس کے لئے تعبیر زِندہ ہے
عجب اندیشۂ سُود و زیاں کے درمیاں ہیں ہم
کہ فردِ جرم غائب ہے مگر تعزیر زِندہ ہے
پلٹ کر دیکھنا عادت نہیں تیری، مگر پھر بھی
سُبک رفتارئ دُنیا، ابھی اِک تِیر زِندہ ہے
سِتم ایجاد لمحوں نے لبوں کو سِی دیا، لیکن
ابھی دستِ دُعا میں حلقۂ تاثیر زِندہ ہے
ذرا تم خانماں برباد لوگوں کی طرف دیکھو
اِن اُجڑی بستیوں میں کب سے شہرِ میر زِندہ ہے
جُنوں آثار شہروں سے ابھی رانجھا نہیں لوَٹا
سمَے کی ٹُوٹتی پگڈنڈیوں میں ہِیر زِندہ ہے
گروہِ کُشتگاں میں بچنے والے ایک ہم ہی ہیں
ہمارے سَر میں سودا، پاؤں میں زنجیر زِندہ ہے
سلیم اِتنا سمجھنے ہی میں عُمریں بیت جاتی ہیں
نہ کوئی لفظ مُردہ ہے، نہ ہر تحریر زِندہ ہے
سلیم کوثر