محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
وہ ایک تاحدِ نگاہ ایک کھلا چٹیل میدان تھا۔ سورج انتہائی قریب تھا۔جس کی وجہ سے جسم جھلسے جا رہے تھے۔ تمام آدم زاد بالکل برہنہ پھر رہے تھے۔ لیکن کسی کو اس سے سروکار نہ تھا۔ وہ جسم جو کبھی دمکتے تھے ان کی رعنائی نہ رہی تھی۔ وہ ہونٹ جو پھول کی پنکھڑی ہوا کرتے تھے، بالکل مرجھا چکے تھے۔ وہ چہرے جو کبھی زینتِ محفل ہوا کرتے تھے۔ وہ اس ہولناک دن کی ہولناکیوں میں مزید اضافے کر رہے تھے۔ ہر طرف سے رہ رہ کر چیخ و پکار کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ سب ایک انجانے خوف میں مبتلاء ہانپتے پھر رہے تھے۔ لیکن کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ کسی کو علم نہ تھا کہ یہ کیا جگہ ہے۔ اور ہم یہاں کیسے پہنچے۔ کس سے پوچھیے کہ سب ہی لاعلم تھے۔ اسی شش و پنج میں کتنی مدت ہوئی کچھ علم نہ تھا۔ کہ ایک دن ایک انتہائی ہیبت ناک آواز آئی۔۔۔۔۔۔ کہ یہ وہی وعدے کا دن ہے، جس کا تمہیں ہر بتانے والے نے بارہا بتایا، اور ہر ڈرانے والے نے ڈرانے کا حق ادا کیا۔ یکلخت ہر طرف سے ایسی چیخ و پکار شروع ہوئی کہ خود اپنی آواز اپنے کانوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔ سب گڑگڑانے لگے۔ ملحدین جو اللہ کے وجود کے دلائل مانگا کرتے تھے، مشرک و غیر مسلم اسلام کی حقانیت کے دلائل مانگا کرتے تھے۔انہیں گویا ایک دم سب کے سب دلائل مل گئے ہوں، وہ اللہ پر ایمان لے آئے اور اسلام کو تسلیم کر لیا اور مسلمان اپنی تمام تر کوتاہیوں کی توبہ کرنے لگے۔ لیکن۔۔۔۔ آج سب بے سود تھا۔ آج تو محض نتیجے کے بتائے جانے کا دن تھا۔ امتحان تو کب کا ہو چکا۔ آج نتیجہ جس کے دائیں ہاتھ میں ملا کامیاب اور جس کے بائیں ہاتھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ناکام۔
خدا ہی جانے کتنی صدیاں اس حال میں گزری ہوں گی کہ ایک دن اچانک ایک تیز روشنی پھیلی کہ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ جب بہت دیر کے بعد آنکھیں کھلیں۔ تو خالق ارض و سماء، مالک یوم الدین، جو القہار بھی ہے الرحمان بھی وہ اپنے گڑگڑاتے ہوئے بندوں کے سامنے موجود تھا لیکن آج کے دن تو وہ "العدل" تھا۔ اللہ عزوجل کا یہ نام "العدل" ظالموں اور نا فرمانوں کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھا۔ اور یہی نام بے کسوں، ناداروں اور تمام زندگی اسی نام کے صدقے جنہوں نے قربانیاں دیں، ظلم جھیلے، لیکن اپنے خالق کے فرامین کو فراموش نہ کیا تھا۔ ان کے زخموں کے لیے ایک ایسا مرہم تھا جس کو زخم پر رکھتے ہی جسم میں تسکین سرایت کر جائے۔ اپنے خالق و مالک کو دیکھتے ہی تمام لوگ سجدے میں گر گئے سوائے ان بدنصیبوں کے جنہوں نے کبھی دنیا میں اپنے خالق کو سجدہ نہ کیا تھا۔ وہ جھکنا چاہتے تھے لیکن ان کی کمر لکڑی کے تختے میں بدل گئی تھی۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ سجدہ کرنے میں ناکام رہے۔
طویل سجدے کے بعد اٹھنے کا حکم ہوا تو سب کے سب اپنے پاوں پر کھڑے ہو گئے۔ باری باری سب کو بلایا جانے لگا۔ ہر ایک فرداً فرداً خالق و مالک کے حضور پیش ہوتا۔ اس کے گناہوں اور نیکیوں کو تولا جاتا پھر اللہ عزوجل اس آدمی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم صادر فرماتے۔ اگر تو وہ آدمی چیخنے اور گڑگڑانے لگتا تو ہر طرف ایک لرزہ طاری ہو جاتا اور ہر کوئی اپنی شامتِ اعمال سے رونا چیخنا شروع کر دیتا۔ اور اگر کسی آدمی کو جنت کا پروانہ دے دیا جاتا تو ایک امید کی فضا پورے میدان میں پھیل جاتی۔ اسی عالم میں خدا ہی جانے کتنا وقت گزرا ہو گا۔ جنتی لوگ چھلانگیں لگاتے ہوئے لوگوں کو بتاتے رہے کہ "میں پاس ہو گیا، میں پاس ہو گیا، میں نے آج کے دن کے لیے بہت محنت کی تھی، جس کا آج مجھے میرے اللہ نے صلہ دے دیا"۔ اور جہنمیوں کو فرشتے گھسیٹ گھسیٹ کے جہنم میں ڈالتے جا رہے تھے۔ وہ گڑگڑا کر اللہ سے ایک موقع طلب کرتے تو فرشتے دو ہتھڑ مار کے اسے جہنم میں پھینک دیتے۔
میں جس لائن میں تھا وہ سرکتی سرکتی آگے تک جا پہنچی تھی۔ میرے جسم پر کپکپی طاری تھی، قدم منوں بھاری تھے، چلنا محال ہو چکا تھا۔ کہ میرے سامنے والے شخص کو بلایا گیا۔ اب اس قطار کے شروع میں میں تھا۔ کسی وقت بھی میرا بلاوا آ سکتا تھا۔ میری تمام زندگی کے چھوٹے بڑے سب گناہ ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ میں نے جو حقوق اللہ میں خیانت کی تھی یا حقوق العباد میں، سب کچھ سامنے تھا۔ میں نے جس کسی کا حق غصب کیا تھا، گالی دی تھی، غیبت کی تھی، حتیٰ کہ اپنے ہر ہر لمحے کا زیاں تک میرے سامنے آ رہا تھا۔ میں اپنے چہرے کو پیٹتا جا رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا کہ یہی وقت تو میرا قیمتی اثاثہ تھا۔ جو دنیا کے سفر میں میرا زادِ راہ تھا۔ اسی کو میں نے ضائع کر دیا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے کو زور زور سے ہلایا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا ماں کہہ رہی تھی کہ اٹھو بیٹا فجر کی جماعت کھڑی ہونے والی ہے۔ جلدی سے مسجد جاؤ۔ شاید وہ پہلی مرتبہ تھی جب میں فجر کی نماز کے لیے بڑے جوش و خروش سے بستر سے اٹھا۔
خدا ہی جانے کتنی صدیاں اس حال میں گزری ہوں گی کہ ایک دن اچانک ایک تیز روشنی پھیلی کہ سب کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ جب بہت دیر کے بعد آنکھیں کھلیں۔ تو خالق ارض و سماء، مالک یوم الدین، جو القہار بھی ہے الرحمان بھی وہ اپنے گڑگڑاتے ہوئے بندوں کے سامنے موجود تھا لیکن آج کے دن تو وہ "العدل" تھا۔ اللہ عزوجل کا یہ نام "العدل" ظالموں اور نا فرمانوں کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھا۔ اور یہی نام بے کسوں، ناداروں اور تمام زندگی اسی نام کے صدقے جنہوں نے قربانیاں دیں، ظلم جھیلے، لیکن اپنے خالق کے فرامین کو فراموش نہ کیا تھا۔ ان کے زخموں کے لیے ایک ایسا مرہم تھا جس کو زخم پر رکھتے ہی جسم میں تسکین سرایت کر جائے۔ اپنے خالق و مالک کو دیکھتے ہی تمام لوگ سجدے میں گر گئے سوائے ان بدنصیبوں کے جنہوں نے کبھی دنیا میں اپنے خالق کو سجدہ نہ کیا تھا۔ وہ جھکنا چاہتے تھے لیکن ان کی کمر لکڑی کے تختے میں بدل گئی تھی۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ سجدہ کرنے میں ناکام رہے۔
طویل سجدے کے بعد اٹھنے کا حکم ہوا تو سب کے سب اپنے پاوں پر کھڑے ہو گئے۔ باری باری سب کو بلایا جانے لگا۔ ہر ایک فرداً فرداً خالق و مالک کے حضور پیش ہوتا۔ اس کے گناہوں اور نیکیوں کو تولا جاتا پھر اللہ عزوجل اس آدمی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم صادر فرماتے۔ اگر تو وہ آدمی چیخنے اور گڑگڑانے لگتا تو ہر طرف ایک لرزہ طاری ہو جاتا اور ہر کوئی اپنی شامتِ اعمال سے رونا چیخنا شروع کر دیتا۔ اور اگر کسی آدمی کو جنت کا پروانہ دے دیا جاتا تو ایک امید کی فضا پورے میدان میں پھیل جاتی۔ اسی عالم میں خدا ہی جانے کتنا وقت گزرا ہو گا۔ جنتی لوگ چھلانگیں لگاتے ہوئے لوگوں کو بتاتے رہے کہ "میں پاس ہو گیا، میں پاس ہو گیا، میں نے آج کے دن کے لیے بہت محنت کی تھی، جس کا آج مجھے میرے اللہ نے صلہ دے دیا"۔ اور جہنمیوں کو فرشتے گھسیٹ گھسیٹ کے جہنم میں ڈالتے جا رہے تھے۔ وہ گڑگڑا کر اللہ سے ایک موقع طلب کرتے تو فرشتے دو ہتھڑ مار کے اسے جہنم میں پھینک دیتے۔
میں جس لائن میں تھا وہ سرکتی سرکتی آگے تک جا پہنچی تھی۔ میرے جسم پر کپکپی طاری تھی، قدم منوں بھاری تھے، چلنا محال ہو چکا تھا۔ کہ میرے سامنے والے شخص کو بلایا گیا۔ اب اس قطار کے شروع میں میں تھا۔ کسی وقت بھی میرا بلاوا آ سکتا تھا۔ میری تمام زندگی کے چھوٹے بڑے سب گناہ ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ میں نے جو حقوق اللہ میں خیانت کی تھی یا حقوق العباد میں، سب کچھ سامنے تھا۔ میں نے جس کسی کا حق غصب کیا تھا، گالی دی تھی، غیبت کی تھی، حتیٰ کہ اپنے ہر ہر لمحے کا زیاں تک میرے سامنے آ رہا تھا۔ میں اپنے چہرے کو پیٹتا جا رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا کہ یہی وقت تو میرا قیمتی اثاثہ تھا۔ جو دنیا کے سفر میں میرا زادِ راہ تھا۔ اسی کو میں نے ضائع کر دیا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے کو زور زور سے ہلایا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا ماں کہہ رہی تھی کہ اٹھو بیٹا فجر کی جماعت کھڑی ہونے والی ہے۔ جلدی سے مسجد جاؤ۔ شاید وہ پہلی مرتبہ تھی جب میں فجر کی نماز کے لیے بڑے جوش و خروش سے بستر سے اٹھا۔