اب اتنی زیست بھاری ہے

نوید ناظم

محفلین
اب اتنی زیست بھاری ہے
کہ ہر اک سانس آری ہے

ملی تھی زندگی ہم کو
مکمل اُس پہ واری ہے

ہمیں وہ جیت جیسی ہے
جو بازی ہم نے ہاری ہے

مِرے سینے سے جو نکلا
وہ چشمہ غم کا جاری ہے

وفا کا درس دیتے ہیں
یہ دنیا ہم سے عاری ہے

سمندر بھی ہے اک آنسو
جو پانی اس کا کھاری ہے

تو میرے حصے کا بھی کھیل
کہ غم دینے کی باری ہے

جسے تم نے یونہی جانا
وہی تو زخم کاری ہے

یہ سورج بانجھ ہو جیسے
اندھیرا سب پہ طاری ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے غزل لیکن یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا
وفا کا درس دیتے ہیں
یہ دنیا ہم سے عاری ہے
 
Top