امین شارق
محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
اب بھی غرور یار مکمل نہیں گیا
رسی تو جل گئی ہے مگر بل نہیں گیا
آتی رہے گی عشق میں اے یار بلائیں
خطرہ ابھی سر سے ہمارے ٹل نہیں گیا
زندہ ہیں ابھی رات اجل دور چلی جا
سورج ہماری زندگی کا ڈھل نہیں گیا
کیسے بھلادوں یار محبت کے روز و شب؟
دل سے تمہاری یاد کا اک پل نہیں گیا
اس کو پتا کیا بیتی لواحقین کے اوپر؟
قاتل تو کبھی لوٹ کر مقتل نہیں گیا
آنکھوں کی چمک سے بھی جھلکتی ہے محبت
اس سمت کیوں خیال اے پاگل نہیں گیا؟
ہم ایسے خشک پیڑ محبت میں ہیں اے دل
جس طرف کبھی پیار کا بادل نہیں گیا
سنتے تھے کہ خموشی ہے طوفاں کی علامت
طوفان مچاکر مگر ہلچل نہیں گیا
جاتے ہیں آخرت کے سفر کو کفن کے ساتھ
دنیا سے پہن کر کوئی مخمل نہیں گیا
ہم خود ہی دیکھ لیں گے معمہ عشق کو
تم سے تو نکالا کوئی بھی حل نہیں گیا
کیوں رونقیں کم ظرف مٹانے پر تلا ہے؟
کیا شہر کا باسی کبھی جنگل نہیں گیا؟
تم بھی یہی سمجھتے ہو شمع ہے بے قصور
تیرا دماغ بھی تو کہیں چل نہیں گیا
شارؔق تمہیں بھی تھی کسی شمع سے محبت
پروانہ تو بھی تھا تو کیوں جل نہیں گیا؟
رسی تو جل گئی ہے مگر بل نہیں گیا
آتی رہے گی عشق میں اے یار بلائیں
خطرہ ابھی سر سے ہمارے ٹل نہیں گیا
زندہ ہیں ابھی رات اجل دور چلی جا
سورج ہماری زندگی کا ڈھل نہیں گیا
کیسے بھلادوں یار محبت کے روز و شب؟
دل سے تمہاری یاد کا اک پل نہیں گیا
اس کو پتا کیا بیتی لواحقین کے اوپر؟
قاتل تو کبھی لوٹ کر مقتل نہیں گیا
آنکھوں کی چمک سے بھی جھلکتی ہے محبت
اس سمت کیوں خیال اے پاگل نہیں گیا؟
ہم ایسے خشک پیڑ محبت میں ہیں اے دل
جس طرف کبھی پیار کا بادل نہیں گیا
سنتے تھے کہ خموشی ہے طوفاں کی علامت
طوفان مچاکر مگر ہلچل نہیں گیا
جاتے ہیں آخرت کے سفر کو کفن کے ساتھ
دنیا سے پہن کر کوئی مخمل نہیں گیا
ہم خود ہی دیکھ لیں گے معمہ عشق کو
تم سے تو نکالا کوئی بھی حل نہیں گیا
کیوں رونقیں کم ظرف مٹانے پر تلا ہے؟
کیا شہر کا باسی کبھی جنگل نہیں گیا؟
تم بھی یہی سمجھتے ہو شمع ہے بے قصور
تیرا دماغ بھی تو کہیں چل نہیں گیا
شارؔق تمہیں بھی تھی کسی شمع سے محبت
پروانہ تو بھی تھا تو کیوں جل نہیں گیا؟